Column

فائول پلے

تحریر : صفدر علی حیدری

ہر ایک کام کا ضابطہ ہوتا ہے۔ ایک متعین طریقہ کار ہوتا ہے۔ امن کو تو چھوڑیں، جنگوں میں بھی کچھ اصول ہر وقت بروئے عمل رہتے ہیں۔ وہ جو کہتے ہیں ناں کہ یہاں جنگل کا قانون ہے تو پتہ چلا جنگل میں بھی کسی نہ کسی قاعدے قانون کی عمل داری ہوتی ہے۔ آج کی مہذب دنیا کی اگر بات کریں تو جمہوریت کا دور دورہ اور بول بالا ہے۔ بادشاہت یا آمریت کو پسند نہیں کیا جاتا کہ اس سے انسانی حقوق سلب ہوتے ہیں۔ اب ایسا بھی نہیں ہے کہ بادشاہت یا آمریت کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ کئی جگہ بادشاہت اور آمریت قائم ہے لیکن پھر بھی جمہوریت ہی کو ہر جگہ فوقیت ملتی ہے۔ اب یہ الگ بات کہ ہر ملک کی جمہوریت اپنی ہوتی ہے۔ جمہوریت کی اصل صورت ترقی یافتہ ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے، جہاں حکمران صحیح معنوں میں اپنی عوام کے خادم ہوتے ہیں ( خادم اعلیٰ نہیں) اور وہ انھیں رعایا سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کرتے۔جبکہ ترقی پذیر معاشروں میں جمہوریت کے نام پر جنگل راج قائم ہے۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ۔۔۔۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو یہ مانی ہوئی بات ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے کے لیے عوام کے ووٹ کی نہیں ہوائی مخلوق کی پشت پناہی کی ضرورت پڑتی ہے ۔ ہوائی مخلوق کی آشیر باد کے بنا ، حکومت میں آنے کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا ۔ اب اسی تناظر میں باقی ساری باتیں چھوڑ کر ملکی سیاسی حالات کی بات کرتے ہیں۔ کیا پچھلے ڈیڑھ پونے دو سال کے ’’ مس ایڈونچر ‘‘ کے بعد کوئی سوچ سکتا تھا کہ ملک کے عوام کے ساتھ مزید کھلواڑ کیا جائے گا۔ عوام کی زندگیاں اجیرن کرنے کے بعد بھی ان کا پیٹ نہیں بھرا۔ ایک مجرم کو جس طرح کا پروٹو کول دیا جا رہا ہے۔ جس طرح جھٹ پٹ اس کو حفاظتی ضمانت دی گئی۔ ایئرپورٹ پر بائیو میٹرک کیا گیا، کیا اس سے بڑھ کر بھی قانون کا مذاق اڑایا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ عدالتی تقدس جس طرح پامال کیا ہے اس پر تو حلیف بھی چیخ اٹھے ہیں۔ پی پی پی کو شاید سمجھ آ گئی ہے کہ اس کے ساتھ ایک بار پھر سے ہاتھ ہو گیا ہے۔ پچھلی حکومت کی ناکامی کا ملبہ وہ ن لیگ پر ڈال کر خود کو مظلوم ثابت کرنا چاہتے تھے مگر ۔۔۔۔۔ مولانا کی تو خیر ہے کہ ان کی کسی جگہ حکومت نہیں ہے، پی پی پی کی تو سندھ میں حکومت رہی ہے۔ اسے سندھ کے زیریں علاقے تک محدود کیا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل وہ خوش تھے بلاول کو وزیراعظم بنایا جائے گا مگر اونٹ نے جو نئی کروٹ بدلی ہے اس نے ان کی راتوں کی نیند چھین لی ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت کو کھل کھیلنے کا پورا موقع ملا۔ ان کے سہولت کار ان کی پشت پر کھڑے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو صوبوں میں انتخابات ہی نہ ہو سکے۔ سپریم کورٹ کی بے توقیری الگ ہوئی کہ وہ مصالحاتی ادارہ ہے یا ملک کا سب سے بڑا ادارہ ۔۔۔ ثابت ہوا کہ Stick Holdersجو چاہتے ہیں ملک میں وہی ہوتا ہے۔ آئین و قانون جائیں بھاڑ میں۔ برسوں پرانی بات یاد آتی ہے۔ افتخار چودھری کا دور تھا۔ وہ بحال ہو کر اپنے جوبن پر تھے۔ ایک دن ترنگ میں آ کر حکم دے دیا کہ چینی چالیس روپے کلو کے حساب سے بکے گی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ تک ملک سے چینی مفرور رہی۔ روز گوداموں پر چھاپے کی خبریں ملتی تھیں، پر چینی نہیں ملتی تھی۔ اب بھی اگر یہ طاقتور لوگ عقل سے کام لیں تو حالات کو بہتری کی راہ پر ڈالا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی اپنی ڈومین میں رہ کر کام کرے۔ بلا تعطل الیکشن کی حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ ہر سیاسی جماعت کو یکساں مواقع فراہم کیے جائیں۔ ڈنڈی نہ ماری جائے۔ مجرموں کی واپسی کو ٹارزن کی واپسی نہ بنایا جائے۔ مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ سیاسی انتقام کا خاتمہ کیا جائے۔ پہلی فرصت میں الیکشن کا ماحول پیدا کیا جائے۔ خدشات دور کیے جائیں تاکہ ملک میں بروقت آزادانہ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے جا سکیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بچہ پارٹیاں بنانے کا بھونڈا عمل ترک کیا جائے۔ ہمدردیاں خریدنے کی مکروہ روش ترک کی جائے۔ عوام کو لگے کہ فئیر پلے ہے فائول پلے نہیں۔ سب کو یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ یہ اکیسویں صدی ہے۔ سوشل میڈیا کی صدی ۔۔ ٹک ٹاک کی صدی

جواب دیں

Back to top button