سب آبدیدہ ہو جائینگے

تحریر : سیدہ عنبرین
سیاسی جلسے کبھی عوام رابطہ مہم اور عوامی شعور کو بیدار کرنے کا ذریعہ ہوتے تھے مگر اب نہیں، پہلے انہیں میوزک پروگرام بنایا گیا، اب اس میں ڈرامہ بھی ڈال دیا گیا ہے، رو روز قبل مینار پاکستان پر کچھ ایسا ہی منظر تھا، ملک کی ایک قدیم ترین سیاسی جماعت کے ایک دھڑے کے سربراہ چار برس بعد ملک میں واپس آئے، وہ ایسے حالات میں ملک سے باہر گئے تھے جب ان پر مختلف عدالتوں میں مختلف الزامات کے تحت مختلف مقدمات تھے، ان کے معزز وکلا کی ٹیم انہیں بے گناہ تو ثابت نہ کر سکی لیکن ان کے معالجین کی ٹیم نے اس وقت کی حکومتی ڈاکٹروں کی ٹیم سے ملکر انہیں علیل ثابت کر دیا پھر انہیں پچاس روپے کے سٹامپ پیپر پر لندن جانے کی اجازت اس شرط پر ملی کہ وہ علاج کرانے کے بعد پاکستان واپس آجائیں گے، وہ لندن پہنچنے کے بعد شاش بشاش پھرتے رہے، اُنہوں نے اپنے علاج کے علاوہ سب کچھ کیا، جس میں سیاست، کاروباری ملاقاتیں اور سیر و سیاحت بھی شامل ہے، وہ بوقت رخصت جہاز کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے، اُنہوں نے جہاز میں داخل ہونے سے قبل آخری مرتبہ مڑ کر پیچھے دیکھا اور خاموشی کی زبان میں پیغام دیا کہ یہ لو میں جارہا ہوں، کوئی قانون، کوئی قاعدہ ،کوئی ضابطہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکا، اسی لمحے سب کو یقین آگیا کہ جب تک تحریک انصاف کی حکومت قائم ہے ان کا کاغذی علاج ختم نہ ہوگا اور جب تک انہیں باہر بھیجنے والے ایک مرتبہ پھر ان کی آمد کا فول پروف نظام نہ کر لیں گے وہ واپس نہ آئیں گے، عوام اور نظام سب فول بن گئے، وہ مرضی سے گئے اور مرضی سے واپس آئے ہیں، اُنہوں نے تیس برس پرانا متعدد مرتبہ پٹ چکا نعرہ لگایا ہے کہ وہ قوم کی تقدیر بدلنے اور ملک سنوارنے آئے ہیں، مگر عوام نے فول بننے سے انکار کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کے استقبالیہ میں مخالفانہ نعرے بھی لگے۔ مینار پاکستان شو اہل لاہور کے مزاج کے عین مطابق تھا، بادی النظر میں یوں لگا جیسے سکرپٹ کسی بھارتی رائٹر نے لکھا ہے، ہدایت کار بھی شاید وہیں سے آیا ہے، رنگ بازی کہیں یا رنگ آمیزی بات ایک ہی ہے، اُس نے جہاز سے اتر کر زمین پر قدم رکھا ہی تھا کہ چھوٹا بھائی چرنوں میں بیٹھ گیا اور اس وقت تک بیٹھا رہا جب تک بڑے بھائی نے بازوں سے پکڑ کر اٹھا نہ لیا، پھر اُسے سینے سے لگایا، دونوں یوں گلے سے چمٹے رہے جیسے کئی برس بعد بچھڑے ملتے ہیں، امر واقعہ یہ ہے کہ ٹھیک چند روز قبل چھوٹا بھاگم بھاگ ایک روز کیلئے اہم پیغام پہنچانے لندن گیا تھا، پہلا شاٹ او کے ہوا تو دوسرے شاٹ میں دکھانے کی اور بتانے کی کوشش کی گئی کہ دونوں کی آنکھوں میں آنسو ہیں جو تھے نہیں، یہ شاٹ بھی پہلی ٹیک میں او کے قرار پایا، کرایے کے جہاز پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے رہے، یہاں سے انہیں بذریعہ ہیلی کاپٹر مینار پاکستان کے قریب پہنچایا گیا، وہاں سے بذریعہ بلٹ پروف گاڑی میں پنڈال پہنچے، ان کے لاہور پہنچنے سے قبل ہی تمام پارٹی آرٹسٹ سٹیج پر پہنچ چکے تھے، ایک فنکارہ نے مائیک پر اعلان کیا آپ کے لیڈر کے بارے میں اسلام آباد سے اطلاع آئی ہے کہ ان کا طیارہ ۔ یہاں پہنچ کر وہ چند لمحے کیلئے رک گئیں تو پنڈال میں موجود ہر شخص کا ہاتھ اُس کے سینے پر چلا گیا، دھڑکنیں رکنے ہی والی تھیں کہ بتایا گیا کہ ان کا طیارہ لینڈ کر گیا ہے، یہ لفظ سن کر ان گنت دھڑکنیں بحال ہوئیں جو رکنے کیلئے تیار ہوچکی تھیں۔ سٹیج پر سیاسی مینا کماری بھی تشریف رکھتی تھیں، جنہوں نے ماضی میں سو مرتبہ بیان کردہ مظالم ایک مرتبہ پھر بیان کئے جو ان پر گزرے تھے مگر خدا کا شکر اس موقع پر اُنہوں نے یہ ظلم بیان نہ کیا کہ انہیں جیل میں کپڑے فرائنگ پین کے ذریعے استری کرنے پڑتے تھے، انہیں استری تک نہ دی گئی، اُنہوں نے گزشتہ برس جب پہلی مرتبہ ظلم بیان کیا تو کئی حاظرین پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، جس کے ساتھ ہی طے کرلیا گیا کہ وہ سب انتخابی ٹکٹ کیلئے بنائے گئے میرٹ پر پورے اترتے ہیں، سیاسی جماعت کے سربراہ جن کے استقبال کیلئے زیر زبر کر دیا گیا ان کی دختر چند روز قبل ایک ویڈیو کلپ میں کہہ چکی تھیں کہ ابو جی پارٹی صدر یا رہنما نہیں ہیں، یہ سب چھوٹی چیزیں ہیں، وہ تو ہمارے امام ہیں، بس یہ ایک کسر رہ گئی تھی جو تین مرتبہ کے
اقتدار میں پوری نہ ہوئی اب یقین کر لیجئے نعوذبااللہ اب ایک امام آپ کے سربراہ حکومت کے درجے پر فائز ہونے کو ہے۔ مینار پاکستان میں بنائے گئے سٹیج پر کچھ اور مناظر مختلف شخصیات کی پرفارمنس کا منہ بولتا شاہکار تھے، جن میں باپ کا سٹیج پر آنا اور بیٹی کا چرنوں میں بیٹھنا، اظہار محبت میں اسے گلے لگانا، پھر اچانک چھوٹے میاں کا بغل گیری تقریب میں شامل ہونا اور سب سے اہم منظر تینوں کا ایک مرتبہ پھر آبدیدہ ہوجانا تھا۔ مستقبل کے امام نے جب بتایا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا وہ اسے قبر میں نہ اتار سکے تو یوں لگا جیسے فیڈر پیتے بچے سے اس کی ماں ہمیشہ کیلئے بچھڑ گئی اور اسے اپنے پیچھے روتا سوتا چھوڑ گئی، جب بتایا گیا کہ میں اپنی شریک حیات کو بستر مرگ پر چھوڑ کر آیا تو یوں لگا جیسے محبت کی شادی میں ظالم سماج نے ہزاروں رکاوٹیں کھڑی کردی ہوں، انہیں توڑ کے، سب رسموں کو چھوڑ کے، ابھی ایک دوسرے کو پایا ہی تھا کہ جدائی کا وقت آگیا، ان صدمات سے بڑے صدمات اور کیا ہونگے، مینار پاکستان کے شو میں کبوتر کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے، وہ آتا ہے اور بازو پریا شانے پر یوں بیٹھتا ہے جیسے وقت کی نور جہاں کی قربت میں ہے، کبوتروں کے بڑے پر کاٹ کر انہیں سٹیج کے پیچھے یوں چھوڑا جاتا ہے کہ وہ بلند پرواز کرنے سے قاصر ہوتے ہیں، جلد ہی تھک کر بیٹھنے کی جگہ تلاش کرتے ہیں۔ ہزار جتن کئے گئے کہیں سے ہما مل جائے تو اسے وہیں سر پر بٹھا کر سہانے خواب اقتدار کے مزے لے لیں لیکن ہما کی عدم دستیابی کے سبب فی الحال کبوتر پر گزارا کرنا ہوگا، اسے ہی کچھ دیر کیلئے ہما سمجھ لینے میں کیا ہرج ہے، ہم کوئے کو کئی برس تک ہود سمجھ کر بھی اس کی پوجا کرتے رہے ہیں، آدم خور شیر کو اپنا رکھوالا بنائے رہے ہیں، ایک اور حماقت میں کیا حرج ہے، اس کے بغیر تو تباہی کی منزل حاصل نہ ہو پائے گی، مینار پاکستان کے میلو ڈرامے کا سب سے اہم نکتہ انتخابات ملتوی ہونے چاہئیں، کیوں؟ کیوں؟ اس لئے کہ اگر فوراً انتخابات ہوگئے، شکست فاش بڑھ کر گلے لگا لے گی، یوں درحقیقت سب آبدیدہ ہو جائینگے، مقدر بھی یہی ہے، انحصار محکمہ زراعت پر ہے۔





