انتخابی اصلاحات وقت کا اہم تقاضا ہیں

رفیع صحرائی
پاکستان میں عام انتخابات جنوری 2024ء کے آخری ہفتے میں ہونے جا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی پاکستان آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں اب انتخابی ماحول بننے جا رہا ہے۔ نئے انتخابی اتحاد بننے کا ابتدائی مرحلہ جاری ہے۔ سیاسی قائدین کی آپس میں بات چیت جاری ہے۔ مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری کی ملاقات اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اندرون سندھ میں بھی پیپلز پارٹی کے مقابلے میں نیا اتحاد وجود میں آ رہا ہے۔ ممکن ہے ن لیگ اور ق لیگ کا بھی چند نشستوں پر اتحاد ہو جائے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی گہما گہمی بڑھتی جائے گی۔
اگر پاکستان کے موجودہ انتخابی قواعد و ضوابط کو دیکھا جائے تو ان میں ایک بڑا سقم نظر آتا ہے۔ پاکستان کا کوئی بھی شہری جو الیکشن لڑنے کا اہل ہو وہ جتنی نشستوں پر چاہے الیکشن لڑ سکتا ہے حتیٰ کہ وہ چاہے تو قومی یا صوبائی اسمبلی کی تمام نشستوں پر بیک وقت انتخاب میں حصہ لے سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا سنگین مذاق ہے جو غالباً پاکستان ہی میں ممکن ہے۔ یہاں یہ پریکٹس بھی عام ہے کہ پارٹی سربراہان یا بڑے لیڈرز دو سے پانچ نشستوں پر الیکشن لڑتے ہیں۔ ایک سے زائد سیٹوں پر کامیابی کی صورت میں کوئی ایک سیٹ اپنے پاس رکھتے ہیں اور باقی نشستیں چھوڑ دیتے ہیں جن پر ضمنی الیکشن کرایا جاتا ہے۔ یوں ضمنی الیکشن کی مد میں ملکی خزانے پر کروڑوں روپے کا اضافی بوجھ پڑ جاتا ہے۔ انتخابی اصلاحات کر کے اس اضافی بوجھ سے بچا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے 16اکتوبر 2021ء کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے سات حلقوں سے الیکشن لڑا اور ان میں سے چھ حلقوں میں وہ کامیاب قرار پائے تھے۔ عمران خان نے جب ان سات نشستوں پر الیکشن لڑا تو اس وقت وہ پہلے سے ہی قومی اسمبلی کے ممبر تھے اور یوں دیکھا جائے تو انہیں بظاہر ان سات میں سے کسی ایک نشست پر بھی الیکشن لڑنے کی ضرورت نہیں تھی مگر عمران خان ضرورت کے تحت نہیں بلکہ اپنی ذاتی مقبولیت کو ثابت کرنا چاہتے تھے جس میں وہ کامیاب رہے۔ انہوں نے چھ نشستوں پر کامیاب ہو کر اپنا ہی سابقہ ریکارڈ توڑ ڈالا۔ قبل ازیں 2018ء کے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے۔ بعد ازاں ان کی چھوڑی ہوئی چار نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے تھے۔
عمران خان نے جن چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی ان میں سے کوئی ایک نشست بھی اس قابل نہ سمجھی گئی کہ جسے وہ اپنے پاس رکھ کر اس کا حلف اٹھا لیتے حتیٰ کہ اپنی سابقہ نشست پر اہل ہونے کے باوجود بھی انہوں نے اسمبلی کا رخ نہیں کیا۔ اور یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ جس وقت عمران خان نے ان سات نشستوں پر ضمنی الیکشن لڑا اس وقت ان کی پارٹی کے ایم این ایز نے اپنی نشستوں سے استعفے دے رکھے تھے۔ عمران خان نے اسمبلی میں نہ جانے کے لیے یہ الیکشن لڑا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ پاکستان جو کہ پہلے ہی معاشی مشکلات سے دوچار ہے اس کے خزانے کو یوں بے دریغ اور بے دردی سے خرچ کروا کر عمران خان نے وطن کی کون سی خدمت کی تھی؟۔ ان چھ نشستوں پر الیکشن کمیشن نے قریباً پچیس کروڑ روپے خرچ کیے تھے جبکہ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کے بھی کروڑوں روپے فی کس کے حساب سے خرچ ہوئے۔ غور کریں کہ کیا سیلاب میں ڈوبا ہوا اور مالی مشکلات سے دوچار پاکستان اس فضول پریکٹس کا متحمل ہو سکتا تھا؟ عمران خان کی اس رویّے اور اقدام نے سنجیدگی سے یہ بات سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ اب الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو لامحدود سیٹوں پر انتخاب لڑنے کی سہولت ختم کر دینی چاہیے کیونکہ اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتخابی عمل کو ایک تماشا اور مذاق بنا دیا گیا ہے۔ ایسا کر کے قوم کے ٹیکس کے پیسوں کا بے دردی سے ضیاع ہی نہیں کیا جاتا بلکہ لوگوں کا قیمتی وقت بھی برباد کیا جاتا ہے۔ جب امیدوار نے صرف ایک نشست رکھنی ہے تو بہتر ہے کہ اسے ایک ہی نشست پر انتخاب میں حصہ لینی کی اجازت دی جائے تاکہ ضمنی انتخابات میں قوم کا وقت اور پیسہ برباد نہ ہو۔ اس کے لیے قانون سازی ہونی چاہیے۔ بھارت میں بھی یہ قانون موجود تھا کہ کوئی امیدوار لامحدود حلقوں سے انتخاب لڑ سکتا تھا مگر 1996ء میں بھارت میں عوامی نمائندگی ایکٹ میں ترمیم کر کے لامحدود کو صرف دو نشستوں تک محدود کر دیا گیا اور گزشتہ بارہ سال سے اس پر بھی اعتراض اٹھایا جا رہا ہے۔ بھارتی الیکشن کمیشن اور لاء کمیشن کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ امیدوار کو صرف ایک حلقے سے الیکشن لڑنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ یہ سفارش بھی کی گئی ہے کہ اگر دو نشستوں والا موجودہ قانون برقرار رہتا ہے تو خالی کی جانے والی نشست پر ضمنی انتخابات کا تمام خرچہ نشست خالی کرنے والے امیدوار کو ادا کرنا چاہیے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 2017ء میں پارلیمنٹ کو امیدوار کے دو سے زائد حلقوں پر الیکشن نہ لڑنے کی ترمیم تجویز کی تھی جسے منظور نہیں کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اگر یہ تجویز منظور کر لی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن اب بھی اس تجویز کی حمایت کرے گا۔
پاکستان میں یقیناً اس پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اگر سٹیک ہولڈرز ایک امیدوار کے صرف ایک نشست پر انتخاب لڑنے پر رضامند نہیں ہوتے تو ایک امیدوار کو زیادہ سے زیادہ دو نشستوں پر الیکشن لڑنے کی اجازت دی جائے۔ اگر وہ دونوں نشستیں جیت جائے تو چھوڑی جانے والی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب کا خرچہ سیٹ چھوڑنے والا امیدوار ادا کرے۔ ایسی صورت میں انتخابات کو محض کھیل تماشا اور مذاق بنانے کے رجحان میں نہ صرف کمی آئے گی بلکہ قومی خزانے کو بھی نقصان سے بچایا جا سکے گا۔





