نواز شریف آ رہا ہے یا لایا جا رہا ہے ؟

نذیر احمد سندھو
نواز شریف پاکستان پہنچ چکا۔ کچھ تجزیہ کاروں کی رائے ہے یہ میاں صاحب کے لئے اسٹیبلشمنٹ کا ٹریپ ہے۔ بقول فیصل واوڈا کے واپس نہیں جا سکیں گے۔ میں اس رائے کو رد نہیں کرتا نواز شریف خود بھی عدم اعتماد کا شکار تھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے نواز شریف کچی گولیاں نہیں کھیلتا، اس نے سب سے زیادہ آرمی چیفس سے تصادم کیا اور ہر بار جیتا، جس عمران پر گولیاں برسیں، جیل میں ڈالا گیا، اس نے تو کبھی کسی آرمی چیف سے پنگا ہی نہیں لیا، اس کا واسطہ ایک جنرل باجوہ سے پڑا اور وہ باجوہ کی انگلیوں پر ناچتا رہا۔ الیکشن کمیشن کا چیئرمین نواز شریف کے قریبی ساتھی کے داماد کو باجوہ کے کہنے پر تعینات کیا، جو آج عمران کے گلے کی ہڈی بنا بیٹھا ہے۔ باجوہ نے ٹرم ختم ہونے سے کئی ماہ قبل ہی اپنی extentionکرا لی، اگر عمران ہوشیار ہوتا تو سپریم کورٹ کے اعتراض کے پیچھے چھپ جاتا، مگر اس نے احمقوں کی طرح ترمیم کروا ڈالی اور مستقل باجوہ کے ہاتھوں میں گردن تھما دی، وہ پھر بھی اسٹیبلشمنٹ کے نشانے پر ہے۔ نواز شریف وزیر اعظم بنا تو اس نے جنرل بیگ کو احمق بنایا۔ صدر اسحاق جو نواز شریف کو اپنا بچہ جمورا سمجھتا تھا، جنرل آصف نواز کی تعیناتی پر نہ صرف صدر اسحاق کے سامنے کھڑا ہو گیا، جنرل آصف نواز کو وردی اتارنے کی دھمکی دے ڈالی، اختلاف یہاں تک تھا جنرل آصف نواز کی ناگہانی موت کا الزام نواز شریف پر آیا۔ نواز شریف منتقم مزاج ہے، جنرل آصف نواز کی نواسی خدیجہ شاہ آج بھی اس چپلقش کی سزا بھگت رہی ہے۔ جنرل وحید کاکڑ کو صدر اسحاق نے نیا آرمی چیف مقرر کیا، نواز شریف نے اختلاف کیا، صدر اسحاق نے کرپشن کے الزام پر نواز شریف کی حکومت ڈسمس کر دی۔ قبل ازیں اسی الزام پر صدر اسحاق بے نظیر کی حکومت ڈسمس کر چکے تھے، بے نظیر خاموشی سے گھر چلی گئیں، مگر نواز شریف سپریم کورٹ گئے، اسمبلی بحال کرائی، گو الیکشن کی طرف جانا پڑا مگر صدر اسحاق کو بھی صدارت سے مستعفی ہونا پڑا۔ جہانگیر کرامت کی فائل پر بے نظیر بھٹو نے سائن کئے، نواز شریف دوبارہ وزیر اعظم بنا تو جہانگیر کرامت کے بیان پر اتنا ناراض ہوا کہ استعفیٰ لے لیا۔ پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا اور پھر اسی کا طیارہ اغوا کیا۔ پرویز مشرف نے جیل میں ڈالا پھر اسی مشرف نے جیل سے نکال کر سعودیہ میں سرور پیلس تک پہنچایا۔ واپس آیا بے نظیر کے قتل میں کردار تھا یا نہیں مگر آصف زرداری کو صدر اور افتخار چودھری کو بحال کرانے میں کردار ادا کیا ۔2013ء میں وزیر اعظم بنا جنرل کیانی 6سال کے بعد ریٹائر ہوئے تو نواز شریف سے جنرل شہزاد کو آرمی چیف بنانے کی سفارش بھی کی اور وعدہ بھی لیا۔ نواز شریف نے وعدہ تو کیا مگر آخری وقت میں جنرل راحیل شریف کی فائل پر دستخط کئے تو کیانی حیران ہوا۔ راحیل شریف آخری وقت تک توسیع کی کوشش کرتا رہا، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کے ذریعے بھی دبائو ڈالا، ڈان لیکس سیکنڈل کے بعد تو راحیل شریف کو یقین ہو گیا تھا اب توسیع سے انکار کر ہی نہیں سکتا، مگر نواز شریف نے جنرل باجوہ کو چیف بنا کر راحیل شریف کو چلتا کیا۔ جنرل باجوہ نے، عمران سے توسیع چٹکی بجا کر لے لی مگر دوسری توسیع دینے پر نواز شریف نے صاف انکار کر دیا، کمزور ترین وزیر اعظم شہباز شریف سے، جس کی اسمبلی بھی نامکمل تھی، باجوہ بھرپور دبائو کے باوجود توسیع نہ لے سکا۔ جنرل عاصم منیر کو نواز شریف نے اس لئے چیف نہیں بنایا تھا وہ سینئر تھا، وہ سینیارٹی میرٹ پر یقین نہیں رکھتا، آئین قانون ضابطے اس کے فائدے میں ہوں تو مانتا ہے، ورنہ Rules are relaxedلکھ کر مرضی کا قاعدہ بنا لیتا ہے۔ جنرل عاصم مینر کی تعیناتی کی وجہ شارٹ کورس ہے۔ جنرل اسلم بیگ سے جنرل باجوہ تک سب لانگ کورس سے چیفس ہیں، مگر جنرل عاصم منیر شارٹ کورس کے ہیں، جن کی ٹریننگ منگلا میں ہوئی، اکثریت چونکہ لانگ کورس والوں کی ہے، کاکول اکیڈمی سے تربیت یافتہ ہیں لہذا پریشر میں رہیں گے۔ دوسری وجہ عمران سے جنرل عاصم کی مخاصمت بھی ہو سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے ہر کہ آمد عمارت نو ساخت۔ ہر ادارے کا سربراہ سیٹ سنبھالتے ہی پوزیشن تبدیل کرتا ہے مگر جنرل عاصم نے ابھی تک کوئی خاص ٹرانسفر پوسٹنگ نہیں کی، صرف خالی جگہیں پُر کی ہیں، چیف آف جنرل سٹاف کے مستعفی ہونے پر جنرل سعید کو تعینات کیا اور ساحر شمشاد مرزا کی پرموشن کی وجہ سے پنڈی کور کمانڈر کی تعیناتی کی اور جنرل بابر افتخار پرموٹ ہو کر کراچی کور کمانڈر بنے تو ڈی جی آئی ایس پی آر کی خالی جگہ پُر کی ۔ باقی سب باجوہ والا نظام 12ستمبر تک چلتا رہا۔ جو آفیسر ریٹائر ہوئے ان کی جگہ نئی تعیناتیاں تو ہونا ہی تھیں۔ جس طرح باجوہ نے تبدیلی کی تھی، اس طرح تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔ نواز شریف نے لندن میں بیٹھ کر یقینا محسوس کیا ہو گا اس کی رائے درست تھی، Right manfor right job۔ جنرل باجوہ نے سیٹ سنبھالتے ہی جنرل راحیل شریف کے دست راست ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر کو ڈیفنس یونیورسٹی ٹرانسفر کر دیا تھا اور بعد میں ایک سال قبل ہی ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کر دیا تھا مگر جنرل باجوہ کے تعینات جنرل ندیم انجم بدستور اپنی سیٹ پر ہیں، 14ستمبر کو ان کی ریٹائرمنٹ تھی، تین جنرل ریٹائر اسی دن ہو گئے مگر جنرل ندیم کی ملازمت میں توسیع کر دی گئی۔ کہا جاتا ہے توسیع نواز شریف کی خواہش پر ہوئی۔ سوال پیدا ہوتا ہے نواز شریف کے پاس کون سی نایاب گیدڑ سنگھی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی کیا مجبوری ہے جو اسے اس کی شرائط پر لایا گیا ہے۔ ایک چھوٹے سے حلقے کا تجزیہ ہے یہ نوازشریف کے لئے ٹریپ ہے جس میں پرندہ پھنس چکا ہے۔ مگر بڑے حلقوں کا تجزیہ ہے نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری ہے۔ پہلی بات وہ انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے آیا ہے، جنرل راحیل شریف سے بھی ملا ہے اور عرب بادشاہوں سے بھی گارنٹیاں لے کر آ یا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی کیا مجبوری ہے۔ کچھ ایشوز ہیں جنہیں نواز شریف ہی حل کر سکتا ہے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا، مگر یہ ایشو حماس کے حملے کی وجہ سے ٗفی الحال Burningنہیں رہا۔ احمدیوں کو اقلیت سے نکال کر اکثریت میں شامل کرنے کا انٹرنیشنل دبائو ہے، جس کے لئے آئین میں ترمیم چاہئے، جس کے لئے الیکشن ضروری ہیں اور الیکشن میں جھرلو، ورنہ نواز شریف تو کہیں سے خود بھی نہیں جیت سکتا۔200بلین ڈالر کا ریکوڈک کا سونا بھی ہے، جس کا بھی کوئی سینڈک پراجیکٹ جیسا حل نکالنا ہے۔ بلوچستان سینڈک میں اربوں ڈالر کا سونا، پیتل اور پتھر تھا جو چین لے گیا، چند خاندانوں کے خزانے بھر گئے اور قوم پر قرض کا بوجھ بڑھ گیا۔ یہ کام تو شہباز شریف بھی کر سکتا ہے، نواز شریف ہی کیوں۔ انڈین آرمی نے کشمیر بارڈر پر ایکسرسائز کے بہانے پڑائو ڈال رکھا ہے اور فارمیشن حملہ آور کی بنا رکھی ہے۔ کہا جاتا ہے نواز شریف نے انڈیا میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے، مودی سے قربت والے بھارتی سرمایہ کاروں سے یارانہ ہے، انڈین آرمی کی فارمیشن کا رخ نواز شریف ہی موڑ سکتا ہے، لہذا نخرے تو سہنا ہونگے۔ نواز شریف امین ہے یا چور ہے مگر چوکیدار کی گردن دبوچنے کا ماضی رکھتا ہے۔ نواز شریف جھرلو الیکشن چاہتا ہے، 2؍3اکثریت مانگتا ہے ۔ میری چھٹی حس کہتی ہے اگر کوئی اس کا ہاتھ نہ روک سکا تو وہ اپنی دبی دیرینہ خواہش پوری کرنے کی ضرور کوشش کریگا۔ آئین میں ترمیم اور بادشاہت۔ اگر یاد ہو ماضی میں کوشش کر چکا۔







