Column

اساتذہ سڑکوں پر ۔۔۔ تصویر کا دوسرا رخ

صفدر علی حیدری

دوسری عالمی جنگ میں بدترین شکست نے جاپان کی کمر ٹوٹ کر رکھ دی۔ وہ چاہتے تھے کہ صرف ایک چیز ان کے حوالے کی جائے اور اس میں مداخلت نہ کی جائے۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ جنگ سے تباہ حال ملک نے ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنی تیزی سے ترقی کی کہ دنیا ورطہ حیرت میں پڑ گئی۔ قومیں یونہی سر بلند ہوتی ہیں، اور اقوام ملک میں یوں وقار سے کھڑی ہوتی ہیں۔ قامت میں اتنا بلند کہ نظر اٹھا کے دیکھنے والوں کے سر ٹوپی گر جائے۔ ادھر پاکستان کو دیکھیں تو تعلیمی حوالے سے ہماری کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ بدیسی زبان کی فوقیت، یکساں نصاب کی عدم فراہمی اور ناقص تعلیمی پالیسیوں کے سبب ہمارا نظام تعلیم مذاق بن چکا ہے۔ پچھلے چند ہفتوں سے سرکاری استاد سڑکوں پر ہیں۔ ان کی سکولوں میں حاضری کم ہو گئی ہے۔ ایک استاد سے بات ہوئی تو اسے قوم کے بچوں کا غم کھائے جاتا تھا۔ وہ پریشان تھا کہ بچے سکول کی فیس کیسے ادا کریں گے۔ ساتھ میں اسے اپنی پینشن، مراعات کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش تھا۔ میں جب جب اس مسئلے پر سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ ایک نگران حکومت کس اتھارٹی کے تحت ان معاملات میں ٹانگ اڑا رہی ہے۔ جس کا واحد مقصد بروقت آزادانہ ، منصفانہ اور شفاف الیکشن کرانا وہ کیا کرتی پھر رہی ہے۔ صوبائی الیکشن نہ کرا کر ناکام و نامراد ہونے والی نگران حکومت چھ ماہ پنجاب کی عوام کے سروں پر مسلط رہنے کے بعد ، ایک بار پھر قوم کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ چند دن قبل ایک سرکاری بیان جاری ہوا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق ’’ پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا کہ سرکاری سکولوں کی نجکاری کے حوالے سے تمام خبریں حقائق کے منافی اور بے بنیاد ہیں کیونکہ نجکاری کا کوئی پروگرام زیر غور نہیں۔ پنجاب حکومت نے سرکاری سکولوں کی نجکاری کے حوالے سے بے بنیاد اور من گھڑت خبروں کا سخت نوٹس لیا ہے۔ ترجمان پنجاب حکومت نے وضاحت کی ہے کہ سرکاری سکولوں کی نجکاری کے حوالے سے تمام خبریں حقائق کے منافی ہیں‘‘ ۔ اب اس بیان کو دیکھتے ہوئے چاہیے تو یہ تھا کہ اساتذہ احتجاج کرنے اور نعرے لگانے کی بجائے سکولوں میں بچوں کو پڑھاتے ہوئے نظر آنے چاہئیں تھے مگر ۔۔۔۔۔ تمام سرکاری سکولوں کو کسی نجی تنظیم کو دینا ایک نامناسب فیصلہ ہوتا۔ کسی عام سی غیر معروف تنظیم میں یہ اہلیت ہی کب ہو گی کہ وہ اتنا بڑا ٹاسک اپنے ذمہ لے سکے اور بہتر طور پر اداروں کا نظم و نسق خوش اسلوبی سے سنبھال اور نبھا سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ نگران حکومت نے شرارت کرنے کا سوچا ضرور تھا مگر اساتذہ کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے ان کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور ان کا ارادہ جھول گیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کی نمائندہ تنظیموں کو بلوا کر ان کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ انھیں تسلی ہو کہ ان کے پیکیج ، ان کی پینشن کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ لوگ جب یہ سنیں گے تو پچھلی تنخواہ پر کام شروع کر دیں۔ انہیں بچوں سے ہمدردی ہوتی تو یہ فیصلہ ہی نہ کیا جاتا۔ افسوس کا مقام ہے کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں الو بولتے ہیں۔ تعداد شرم ناک حد تک کم ہو گئی ہے، جس کی فکر کسی کو نہیں ہے۔ خود ان قابل فخر اساتذہ کے اپنے بچے پرائیویٹ سکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ یہ ان اداروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے سربراہوں کو برے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے، یہ سوچنے کی کسی کو فکر نہیں۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا ہمارے ارباب بست و کشاد کی اور ہماری سول سوسائٹی کی تعلیم پہلی ترجیح رہی ہی نہیں، سو اس کا سدھارنے کا کسی نے آج تک نہیں سوچا۔ اور ایمانداری کی بات ہے اساتذہ کا کردار بھی اس سلسلہ میں ہرگز مثالی نہیں رہا۔ انہیں اپنے پرائیویٹ اداروں اور اکیڈمیوں سے فرصت ملے تو وہ بھی کچھ سوچیں۔ اٹھارویں ترمیم اس مسئلے کی اصل جڑ ہے، جس نے تعلیم کو صوبائی معاملہ قرار دے کر تعلیم اداروں کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چوں کہ راقم کو بہتری کی کوئی امید نہیں ہے، سو کسی خوش کن بات پر کالم کا اختتام کرنے کو دل نہیں کرتا۔ انگریزوں نے نوکر پیدا کرنے کے لیے جو نظام تعلیم ہمیں دیا تھا وہ آج بھی اپنی بد صورت ترین حالت میں موجود ہے۔ اکبر الہ آبادی یاد آتے ہیں:کیا کہیں اصحاب کیا کار نمایاں کر گئے
بی اے کیا، نوکر ہوئے، پینشن ملی اور مر گئے

جواب دیں

Back to top button