سیاست مفادات کی جنگ بن چکی ہے۔

رفیع صحرائی
خیر سے عمران خان کے معتمدِ خاص فرخ حبیب بھی پریس کانفرنس کر کے ’’ نہائے دھوئے‘‘ گھوڑے بن گئے ہیں۔ ان سے قبل عمران خان کی ناک کے دو بال عثمان ڈار اور صداقت علی عباسی بھی یہ سعادت حاصل کر چکے ہیں۔ سنا ہے ’’ اصلی تے نسلی‘‘ ہونے کے دعویدار شیخ رشید بھی خود کو ’’ نقلی‘‘ ثابت کرنے والے ہیں۔ فرخ حبیب تو مردوں کے فردوس عاشق اعوان ثابت ہوئے ہیں۔ جس طرح فردوس آپا ہر نئی پارٹی کو جوائن کرنے کے بعد اپنی سابقہ سیاسی پارٹی کے لیڈران کے بخیے ادھیڑتی آئی ہیں اسی طرح فرخ حبیب نے عمران خان پر ایسی چارج شیٹ عائد کر دی ہے کہ ان کے وعدہ معاف گواہ بننے میں کوئی کثر نہیں رہ گئی۔ عمران خان یقیناً مردم شناس نہیں ہیں جو ایسے برائلر ٹائپ لوگوں کو ساتھ لے کر نیا پاکستان بنانے کو نکلے تھے جو مخالف ہوا کا ایک تھپیڑا بھی برداشت نہ کر سکے۔ عمران خان پر جاں نثار کرنے والے اور انہیں ریڈ لائن قرار دینے والے اپنی جانیں بچا کر گرین لائن پر جا کھڑے ہوئے۔ کل انہیں عمران خان نجات دہندہ نظر آتا تھا، آج وہی عمران خان ان کی نظر میں سب سے بڑا قومی مجرم ہے۔ شاید پے در پے بے وفائی کے صدمے عمران خان کو اس لیے سہنے پڑ رہے ہیں کہ اس نے خود بھی کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی۔ اپنے ہر محسن کے ساتھ اس نے بے وفائی کر کے اسے ٹشو پیپر کی طرح پھینکا ہے۔ یہاں تک کہ 9مئی کو اس کی خاطر نکلنے والے ورکرز جب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گرفت میں آئے تو اس نے ان سے بھی لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔
سیاست کبھی بہت صاف ستھرا کھیل ہوا کرتا تھا۔ اور یہ کھیل کھیلنے والے کھلاڑی بڑے بردبار، متین، سمجھدار، حوصلہ مند، سنجیدہ اور نظم و ضبط کے قائل ہوتے تھے۔ سیاست دان اپنے وقار کا ہمیشہ لحاظ اور پاس رکھا کرتے تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجی رہتی۔ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا ان کا وتیرہ ہوا کرتا تھا۔ واقعی وہ لوگ سیاست کو عبادت کا درجہ دیا کرتے تھے۔ نوابزادہ نصراللّٰہ خان، عبدالولی خان، محمد خان جونیجو، میاں محمد یاسین وٹو، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد سمیت درجنوں ایسے نام گنوائے جا سکتے ہیں جو سیاست کے ماتھے کا جھومر ہیں۔
پھر زمانے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی تبدیلی آ گئی۔ سیاست تیز رفتار بھی ہو گئی اور محض شرفا ء کا کھیل بھی نہ رہی۔ پیسے نے سیاست کو تباہ کر دیا۔ جس طرح مختلف محکموں میں رشوت دے کر ملازمت حاصل کی جاتی ہے اور پھر رشوت لے لے کر اپنی آمدنی کئی گنا بڑھائی جاتی ہے یہی چلن سیاست میں بھی آ گیا۔ سیاستدانوں نے پارٹی ڈونیشن اور انتخابی اخراجات کی مد میں بے تحاشہ پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیا۔ جیت کی صورت میں خرچ کیا گیا پیسہ بیس پچیس گنا منافع کے ساتھ حاصل کیا جانے لگا۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے منظور کروائے گئے فنڈز کا دس فیصد کمیشن ممبر اسمبلی کے لیے حلال قرار دے دیا گیا۔ گویا دس کروڑ کے منصوبے میں سے ایک کروڑ اپنی جیب میں ڈالو۔ نہ کوئی پوچھ گچھ نہ کسی انکوائری کا ڈر۔ بالکل حق حلال کی جائز کمائی آپ کی جیب میں۔ کچھ تیز اور کمائی ہی کی نیت سے سیاست میں آنے والے حضرات اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لیے جاری کرائے گئے فنڈز کے ٹھیکے بھی خود ہی لینے لگے۔ اس کام کے لیے انہوں نے فرنٹ مین رکھ لیے اور یوں دس کروڑ میں سے کم از کم پانچ کروڑ کھرا کیا جانے لگا۔ وزرا اپنے محکموں میں لوٹ مار مچانے لگے۔ وزرائے اعلیٰ اور وزرائے اعظم نے بہتی گنگا میں سب سے زیادہ ہاتھ دھونے شروع کر دئیے۔
سیاست کو عبادت کا درجہ دینے والے خال خال رہ گئے اور کاروباری نیت سے سیاست کرنے والے چھا گئے جنہوں نے سیاست کو غلاظت میں بدل کر رکھ دیا۔ پہلے سیاست کو خدمت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔ اب یہ انتقام لینے کا ذریعہ بن گئی۔ سیاسی اختلافات ذاتی مخالفت میں بدلتے گئے۔ سیاست کھیل کے سٹیٹس سے نکل کر جنگ کے درجے میں داخل ہو گئی۔ مقابلے میں الیکشن لڑنے کے ’’ جرم‘‘ میں سیاست دان قتل بھی ہونے لگے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی انہیں دھکیلا گیا۔ سیاست میں جیت اور جیت کے بعد اقتدار ہی منزل کا حصول ہوتا ہے مگر اس منزل کے حصول کے لیے جائز ذرائع کا حصول ہی کافی نہ سمجھا گیا۔ ہر طرح کی دھونس، دھاندلی اور ہر ناجائز حربہ استعمال کرنا اس کھیل میں جائز قرار پایا۔ ہم اقتدار کی جنگ جیتنے کی خاطر اور دوسرے کے مینڈیٹ کو نہ ماننے کی ضد میں اپنا آدھا ملک گنوا بیٹھے لیکن ملکی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کی روایت بڑھتی ہی چلی گئی۔
پہلے یہ ہوتا تھا کہ انتخابات کے موقع پر ہر امیدوار اپنی اچھائیاں عوام کو بتایا کرتا تھا۔ اپنی شرافت، وطن دوستی اور عوامی بھلائی کے کاموں کے ثبوت اپنے ووٹرز کے سامنے رکھتا تھا۔ مخالف امیدوار سے اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا اور فیصلہ عوام پر چھوڑ دیتا تھا کہ جسے چاہے منتخب کریں۔ اب ایسا نہیں ہے۔ اپنی اچھائی اکثر امیدوار کیش نہیں کراتے، شاید ان کے پاس بتانے کو کچھ ہوتا ہی نہیں ہے۔ آج کل اپنے مخالف کی برائیاں اور کمزوریاں کیش کروائی جاتی ہیں۔ جھوٹے الزامات لگائے جاتے ہیں اور ان الزامات کو اس تواتر سے دوہرایا جاتا ہے کہ وہ سچ لگنے لگیں۔ میڈیا اور پراپیگنڈے کا دور ہے۔ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام تک رسائی آسان ہو گئی ہے لہٰذا اس قدر تسلسل کے ساتھ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سننے والے کو سچ لگنے لگتا ہے۔ جنابِ ظفر اقبال نے کیا خوب صورت شعر لکھا ہے۔
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے
ہمارے سیاست دان بھی صاحبِ کردار ہونے کے اس فارمولے پر سو فیصد پورا اترتے ہیں۔ اپنے مخالفین کو بدترین ثابت کرنے کے لیے ہر الزام لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ عوام بھی قائل ہو جاتے ہیں۔ اب تو ویڈیو اور آڈیوز ریلیز کرنے کا رواج بھی چل نکلا ہے۔ مخالفین کی کردار کشی کی یہ گھنائونی رسم فروغ پا رہی ہے۔
کھیل صرف مفادات کا ہے۔ بیوقوف عوام کو اپنی جنگ کا ایندھن بنا کر بیدردی سے اس میں جھونکا جا رہا ہے۔ عوام بھی جان بوجھ کر بیوقوف بنے ہوئے ہیں۔ کبھی کسی نے اپنے لیڈروں سے پوچھنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ راہزن اب راہبر کیسے ہو گئے؟۔ لٹیرے اب بھائی کیوں بن گئے ہیں۔؟
سیاست میں چھوٹے چھوٹے گروپ ’’ پاسک دی وٹّی‘‘ بن کر بلیک میلنگ اور لوٹ مار میں اپنے جُثّے سے بھی زیادہ حصہ لے کر پارلیمانی سیاست کو داغدار کر رہے ہیں۔
پہلے کسی پارٹی کو چھوڑنے والے بڑی سادگی سے کہہ دیا کرتے تھے کہ
آپ اچھے، رقیب بھی اچھے
میں برا تھا مری گزر نہ ہوئی
مگر اب نیا ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ عمران خان کے ہر فیصلے میں ہر فعل میں اس کا ساتھ دینے والے برے حالات میں انہیں تنہا ہی نہیں چھوڑ رہے بلکہ ان پر الزامات کی بارش بھی کر رہے ہیں۔ واقعی سیاست اب عبادت نہیں رہی، غلاظت بن گئی ہے۔ یہ پارلیمانی سسٹم فیل ہو کر بدبودار ہو چکا ہے۔ سسٹم کی تبدیلی وقت کا تقاضا ہے۔





