Column

کھڑاک تے ہن ماہیا ہون گے

نذیر احمد سندھو

نواز شریف آ رہا ہے، جن کے آنے سے پہلے اسلام آباد ہائیکورٹ میں کل آندھی دیکھی گئی۔ میاں صاحب کی حفاظتی ضمانت کی درخواست بذریعہ عطاتارڑ1:38پر دائر کی گئی، رجسٹرار نے اس پاکیزہ دستاویز کو چوما اور دستخط کر دئیے، درخواست چیف صاحب کی ٹیبل پر پہنچی، اتفاق جانئے اس وقت چیف صاحب کے پاس جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب بیٹھے تھے، چیف صاحب نے اپنے ساتھ انہیں بینچ میں شامل کرکے بینچ کا اعلان کر دیا اور اتفاق جانئے کسی سرکاری اٹارنی کو نوٹس بھیجنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، سب گھومتے گھماتے خود ہی بینچ کے پاس پہنچ گئے۔ نیب کے پراسیکیوٹر اٹھے اور فرمانے لگے گزر رہا تھا سماعت سنی تو پتہ چلا میاں صاحب کی حفاظتی ضمانت ڈسکس ہو رہی ہے، ان کی آمد بڑی خوشی کی بات ہے، نیب کو کوئی کسی قسم کا اعتراض نہ ہے۔ امجد پرویز جو مستقل الیکشن کمیشن عرف سکندر اینڈ سلطان اینڈ راجہ کے وکیل ہیں، نے فرمایا میاں صاحب نے کبھی ضمانتی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی، وہ 4ہفتے کیلئے ضمانت پر علاج کیلئے گئے تھے، وہ تو دوسرے دن ہی واپس آنا چاہتے تھے، یہ تو لندن کے ڈاکٹروں کا قصور ہے، اپنا خرچہ بنانے کے لئے 4ہفتے کے علاج کو 4سالوں تک کھینچ لیا، میاں صاحب نے تو ہمیشہ آئین و قوانین کی پابندی کی ہے، سرکاری اٹارنیز نے بھی کہا بے شک میاں صاحب قانون کے پاسدار ہیں، بینچ بھی متفق نظر آیا۔ سپریم کورٹ کے صدر عابد زبیری کے بقول میچ فکس تھا، بہر حال میچ 15منٹ چلا اور پھر عزت مآب جناب چیف جسٹس نے فرمایا فیصلہ محفوظ کیا جاتا ہے اور جلد سنا دیا جائیگا، پھر نہ جانے کیا ہوا شائد کہیں سے ٹلی بجی فیصلہ سنا دیا گیا اور 24 اکتوبر تک حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرنے سے روک دیا گیا۔ یہ ٹلی کہاں سے بجی، کسی کی بجی، یہ تو بجانے اور سننے والے جانیں، ہم کھڑک سنگھوں میں اتنی عقل کہاں ٹلی اور ہتھوڑے کے کھڑاک کا فرق جان سکیں۔ انصافی عرف قوم یوتھ کل سے سوشل میڈیا پر اعتراض پر اعتراض لگا رہے ہیں، جن میں وکلا بھی شامل ہیں۔ عمران کی درخواستوں پر تمام ہائیکورٹس معہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار بلا وجہ اعتراض لگاتے تھے، زخمی عمران کو بائیو میٹرک کیلئے رجسٹرار آفس بلوایا جاتا، اس کے خصوصی اٹارنی کے دستخطوں کو نہ مانا جاتا مگر نواز شریف کی جگہ بائیو میٹرک کیلئے عطا تارڑ نے انگوٹھا لگایا ، دو قوانین ہیں کیا؟ سوال تو بنتا ہے، مگر بتایا جائے کب راجہ بھون اور گنگو تیلی ایک قانون کے زیر سایہ تھے۔ نواز شریف ایک سیاستدان اور عمران ایک معمولی کریکٹر، دونوں کو ایک گھاٹ سے پانی کیسے پلایا جا سکتا ہے۔ عمران بے مرشدا جبکہ نواز شریف فیلڈ مارشل ضیاء الحق کے شاگرد، بعد میں اسلم بیگ، غلام اسحاق، حمید گل کی شاگردی بھی کی مگر سپیڈ دیکھو لیڈر کی سب استادوں کو کراس کر گئے۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے، مگر نواز شریف آج بھی بڑے پلیئر ہیں اور بڑوں، بڑوں کو پچھاڑ رہے ہیں۔ نواز شریف پارس ہیں، پرویز مشرف، راحیل شریف، قمر باجوہ کو چیف بنایا، جسٹس رفیق تارڑ اور بھلہ فروش ممنون حسین صدر بنائے، افتخار چودھری، جسٹس نثار سب اسی پارس کی دین ہے اور یہ سخاوت جاری ہے اور لگتا ہے ساری رہے گی۔ یہ یوتھئے کیا جانیں لیڈر کی شان، سوشل میڈیا پر بیٹھ کر طعنے دیتے ہیں یا دعائیں کرتے ہیں عمران کی رہائی کی۔ طعنوں سے کب دشمن کی موت ہوئی ہے اور دعائوں سے کب بلا ٹلی ہے ۔ یوتھیئے لیڈر کو طاہرہ سید کے طعنے دیتے ہیں سوچو جو ان کی زلفوں کے سائے بیٹھی اب تک سایہ فگن ہے، اٹھنے کا نام نہیں لیتی، پانچ سال سے اقتدار اور ملک سے باہر ہیں، ایک ن لیگیا ٹوٹا ہو۔ اپنا حال دیکھو، مانگے تانگے کی ساری فرنٹ لائن بھاگی تو فرخ حبیب جیسے پیدائشی ورکر بھی گواہ بن گئے۔ ریڈ لائن کی پکار کرنے والو، یاد کرائوں ریڈ لائن 80دن سے جیل میں ہے اور آپ کو طعنے دینے اور سوشل میڈیا پر ڈی پی لگانے سے فرصت نہیں۔ لیڈر کی آن بان 21اکتوبر کو دیکھنا یوتھیو! پوری قوم سیلاب کی طرح امنڈ آئیگی، اگر لیڈر نے روک نہ دیا اور قوم سے کہہ نہ دیا تکلیف نہ کرنا ایئر پورٹ آنے کی، مجھ سے آپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی، ان شا اللہ مینار پاکستان میں ملاقات ہو گی۔ قوم سیلاب کی طرح مینار پاکستان جائیگی بشرطیکہ پورے پاکستان کی پولیس نے رکاوٹیں کھڑی نہ کیں، کوئی بات نہیں روکیں گے تو روک لیں، مینار پاکستان شاہدرہ کی طرح خالی بھی ہوا تو قومی میڈیا دس ارب تو دکھا ہی دیگا۔

جواب دیں

Back to top button