سسلین مافیا اور جنت کا ٹکٹ

سیدہ عنبرین
سسیلن مافیا کے سربراہ پر جب بھی کڑا وقت آیا وہ زیر زمین چلا گیا مگر اس نے وہاں رہ کر بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس کے تمام کاروبار اسی آن بان شان سے چلتے رہے جب وہ سب کے سامنے اسی زمین پر چلتا پھرتا نظر آتا تھا۔ جب بھی قانون اس پر ہاتھ ڈالنے کا سو چتا تو قانونی کارندے اسے بروقت اطلاع دیتے کہ فلاں اجلاس میں فلاں نے آپ کی سرکوبی کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ اطلاع ملتے ہی فیصلہ کرنے والوں کی سرکوبی اس انداز میں کرتا کہ پھر کسی کو طویل عرصہ تک اس کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کی جرات نہ ہوتی ، اول تو فیصلہ ساز اس کے شریک کار بن جاتے جو ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے شراکت داری سے انکار کرتے ان کے لئے کسی اور دنیا کی ٹکٹ بک کرا دی جاتی، سسیلن مافیا سربراہ میٹو مینساوینارہ نے اپنی آدھی عمر رو پوشی میں گزاری، انہیں لگژری گاڑیوں میں بیٹھ کر اپنے استقبال کیلئے آئے ہوئے لوگوں کے خیر مقدمی نعرے کے جواب میں کبھی بھی وکٹری نشان بناتے نہیں دیکھا گیا۔ انہیں پسند نہ تھا کہ وہ آئیں تو ان کی گاڑیوں پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جائیں، انہیں قیمتی ہیروں سے مرجع دستی گھڑیوں، بیش قیمت ملبوسات اور بڑے بڑے محلات میں رہنے کا شوق بھی نہ تھا، وہ تمام عمر سادہ غذا اور عمدہ شراب استعمال کرتے رہے، ان کے حرم سرا میں درجنوں منکوحہ یا غیر منکوحہ عورتیں نہ تھیں، حیرت کی بات ہے اسے بذات خود میدان سیاست میں آنا، اپنے اثر و رسوخ، دولت یا طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ملک کا صدر یا وزیر اعظم بننا بھی پسند نہ تھا، وہ بادشاہ گر تھا، دوسروں کو بادشاہ بناتا اور خوش ہوتا، اس کے بیٹوں یا بیٹی کو بھی کسی سیاسی منصب میں کبھی کوئی کشش نظر نہ آئی، نصف سے زائد دنیا ان کے نام سے واقف نہیں، نہ ہی کسی نے کبھی ان کی کوئی تصویر دیکھی، کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ وہ اس دنیا میں لینے کیا آئے تھے۔
دنیا کے ہر ملک میں سسیلن مافیا سربراہ کا نیٹ ورک موجود تھا اور آج بھی ہے، اس نیٹ ورک میں دنیا کے کسی بھی اعتبار سے اہم ملک کے اعلیٰ خاندانوں کے افراد، حکومتوں میں شامل اور اعلیٰ عہدوں پر متمکن شخصیات، سفارتکار اور کاروباری کنسور شیم چلانے والے لوگ شامل ہیں، جن کے مفادات مشترک ہیں، سب کے پاس دولت کے انبار ہیں، سب کے پاس ایک سے زائد ممالک کی شہریت ہے۔ ایک ملک کا قانون ان کے خلاف حرکت میں آئے تو دوسرے طاقتور ملک کا قانون، حکومت اور سفیر ان کے بچائو کی راہیں ہموار کر دیتے ہیں اور کسی بھی مقدمے سے انہیں یوں باہر نکال لیا جاتا ہے، جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔ ان کی ضبط شدہ جائیدادیں انہیں واپس مل جاتی ہیں، ان کی مراعات بحال ہو جاتی ہیں، انہیں ایک مرتبہ پھر ازسر نو اقتدار میں شراکت دے کر لوٹ مار کر اجازت دی جاتی ہے، جس میں انہیں پہلے ہی ملکہ حاصل ہوتا ہے، وہ ہر قسم کی لوٹ مار کو اصلاحات ثابت کر دیتے ہیں اور سب کچھ ملک بچانے اور ملک سنوارنے کے نام پر کیا جاتا ہے۔ مشن اپنی دولت اور کاروبار کو بڑھانا، ملک کو مزید قرضوں میں جکڑنا اور مافیا کو مضبوط کرنا ہوتا ہے، ان تمام کاموں کیلئے چند ماہ کا اقتدار میں کافی ہوتا ہے، اس حوالے سے اہم فیصلے کر لئے جاتے ہیں، لیکن بعض اوقات اقتدار مہینوں کا نہیں کچھ سالوں کیلئے ہوتا ہے، سب کچھ نظریہ ضرورت کے تحت ہوتا ہے، جیسی ضرورت، ویسا اقتدار اور ویسی ہی سہولتیں اور مراعات۔
سسیلن مافیا سربراہ میٹو مینارہ تین دہائیوں تک مفرور اور روپوش رہنے کے بعد رواں برس جنوری میں گرفتار کر لیے گئے، بعد ازاں علالت کے بعد وسطی اٹلی کے ایک ہسپتال میں انتقال کر گئے ہیں۔
سپین کے ایک معزول بادشاہ جوان کارلوس تخت و تاج سے علیحدگی کے بعد جلاوطنی کی زندگی گزارتے رہے، وہ 2020ء سے ابوظہبی میں مقیم تھے، وہ عمر کی پچاسی بہاریں دیکھ چکے ہیں، لیکن اقتدار کی مزید بہاریں دیکھنے کی آرزو ابھی تک ان کے ذہن و دل میں موجیں مار رہی ہیں، کارلوس کرپشن کے متعدد سکینڈلز میں ملوث رہے، وہ مبینہ طور پر ایک ڈیل کی ذریعے ملک سے باہر گئے تھے ، انہوں نے ملک سے باہر گزارے جانے والے عرصہ میں اپنے دوستوں رفقاء اور کارندوں سے رابطے قائم رکھے، ان کے معزول کئے جانے کے بعد اہل سپین کا خیال تھا کہ وہ اقتدار میں واپسی تو بہت بڑی بات ہے، شاید سپین یعنی اپنے ملک بھی واپس نہ آسکیں، کالوس نے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے، وہ واپس سپین پہنچ چکے ہیں، انہوں نے اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان نہیں کیا لیکن بتایا یہی جاتاہے کہ جس طرح مچھلی پانی کے بغیر نہیں رہ سکتی، اسی طرح کارلوس خاندان اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتا، وہ عنقریب اقتدار میں واپسی کیلئے سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کریں گے۔
، پھر انہیں دست عیب سے مدد ملے گی، انہیں ملک و قوم کا مسیحا قرار دیا جائیگا اور سپین کے ساتھ مافیا کا شراکت دار بین الاقوامی میڈیا انہیں سپین کا نجات دہندہ ثابت کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتا نظر آئے گا۔ یہ بھی بتایا جائیگا کہ کارلوس پر ماضی میں لگائے گئے تمام کرپشن الزامات بے بنیاد تھے، ان میں کچھ بھی ثابت نہیں ہوا۔ ان کی غیر حاضری میں سنائی گئی سزا بھی معاف ہو جائیگی جبکہ زیر سماعت مقدمات میں اہم ترین دستاویزی ثبوت غائب ہو جائینگے، ان کے خلاف بنائے گئے وعدہ معاف گواہ منحرف ہو جائینگے اور بعد ازاں ان ہی کی صفوں میں ہر اول دستے میں اپنا کردار ادا کرتے نظر آئینگے۔
پاکستان کے تین مرتبہ وزیر اعظم رہنے والے اور معزول کر دئیے جانے والے، کرپشن کے مقدمات میں جیل جانے والے اور فیصلے سے ذرا پہلے طبی بنیادوں پر غیر ملک میں اپنے علاج کیلئے ضمانت کی سہولت حاصل کرنے والے مسلم لیگ ن کے لیڈر جناب نواز شریف وطن واپس آنے کا اعلان کر چکے ہیں، ملک میں ان کے استقبال کی تیاریاں کی جارہی ہیں، ان کی پارٹی کے دیگر علاقائی رہنما کارکنوں کو اکٹھا کر کے لانے کیلئے متحرک ہوچکے ہیں، جناب نواز شریف کے خلاف فیصلے میں عدالت نے انہیں سسیلن مافیا سے تشبیہ دی، ان سے جائیدادیں خریدنے کیلئے رقم کی ترسیل کے حوالے سے پوچھا گیا، ان کی جانب سے منی ٹریل نہ دی جا سکی، پھر اپنی صفائی میں ان کی طرف سے ایک قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا، جس کے مبہم مندرجات کے سبب اسے پذیرائی نہ مل سکی، بعد ازاں ان کے بھائی اور سابق وزیراعظم شہباز شریف اور بیٹی مریم نواز پر بھی مختلف مقدمات بنائے گئے۔ پی ڈی ایم اقتدار کے زمانے میں نیب قانون میں ترمیم کر کے بعض مقدمات ختم کرائے، جنہیں چیف جسٹس بندیال جاتے جاتے بحال کر گئے ہیں، ان مقدمات کا مستقبل کیا ہو گا، اس کا فیصلہ آنے والے وقت میں نظر آئیگا، فی الحال تو مرحلہ لاکھوں افراد کو جمع کرنا ہے، تاکہ استقبال کو کامیاب بنایا جا سکے، سابق وزیر ثنا اللہ کی ایک مبینہ ویڈیو کے مطابق وہ استقبالی کارکنوں کو حج جتنا ثواب الاٹ کر چکے ہیں، جبکہ انہی کی جماعت سے تعلق رکھنے رکھنے والے ایک اور ٹکٹ امیدوار کارکنوں کو استقبال کیلئے جمع ہونے پر جنت کے ٹکٹ بانٹ رہے ہیں، لیکن جنت کے ٹکٹ کے امیدوار کم اور ورلڈ کپ کرکٹ میچ دیکھنے کیلئے ٹکٹ خریدنے والے زیادہ ہیں۔ سسلین مافیا سربراہ کتنا عظیم انسان تھا، اس نے بہت کچھ غلط کیا، لیکن جنت کے ٹکٹ نہیں بیچے۔ اللہ اسے جنت میں سیاستدانوں سے بہتر مقام عطا فرمائے۔
سیدہ عنبرین





