سوشل میڈیا ، سماج اور ہماری نئی نسل

آصف علی درانی
ویسے تو سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد ہیں جس سے انکار ممکن نہیں کیونکہ آج کل ہر کوئی سوشل میڈیا استعمال کر رہا ہے چاہے چھوٹا ہو یا بڑا ۔
سوشل میڈیا کے آنے اور خاص طور پر تھری جی اور فور جی جیسے تیز ترین انٹرنیٹ سروس نے انسان کی زندگی تبدیل کردی ہے، دنیا میں جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے منفی اور مثبت اثرات بھی نمایاں ہے نیوٹن تھرڈ لاء کہتا ہے کہ ہر ایکشن کا ری ایکشن ہوتا ہے اگر آپ موبائل پورا جارج کریں تو یہ زیادہ وقت تک کام کرے گا اسی طرح اگر آپ گاڑی تیز چلائیں گے تو اس کے پرزے وقت سے پہلے کمزور ہونگے اور ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔
جدید ٹیکنالوجی کے ری ایکشن سے عوام کی زندگی پر کافی اثر پڑا ہے اور کافی تبدیلی آئی ہے خاص کر سماج اور رسم و رواج میں۔۔۔۔
لیکن ہم اس کو بدقسمتی ہی کہ سکتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی نے انسانی زندگی کو تبدیل کر دیا اور ایسے ایسے کام وہ سوشل میڈیا پر کر رہا ہے کہ ایک عام آدمی ان حالات کو دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ کیا یہ بھی کوئی انسانی کام ہے جو یہ بندہ سوشل میڈیا پر سر عام کر رہا ہے۔
کچھ ہی دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک’’ ٹین ایج ‘‘ یعنی نوجوان لڑکی کی ویڈیو دیکھنے کو ملی ،ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ یہ لڑکی خود تو یہ ویڈیو نہیں بنا رہی بلکہ کیمرے کی پیچھے بھی کوئی ہے کہ یہ جس جگہ جاتی ہے وہ پہلے سے کیمرہ اسی کی جانب لے کر جاتاہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے جب وہ بیڈ روم سے نکلتی ہے تو ایک بندہ اس کی ویڈیو بنا رہا ہوتا ہے، پھر وہ واش روم جاتی ہے، مختلف قسم کے برانڈڈ پراڈکٹس اس کے موبائل کیمرے کی آنکھ سے دکھائے جاتے ہیں کہ میں یہ یہ استعمال کر رہی ہوں، پھر کپڑے جوتے دکھائے جاتے ہیں اور ساتھ میں شاپنگ مال کے وہ کارڈز بھی جن پر ان اشیا کی قیمتیں درج تھیں۔
پھر وہ لڑکی باہر نکلتی ہے اور کہتی ہے کہ میں فلاں ریسٹورنٹ کھانا کھانے جارہی ہوں، پھر راستے میں گاڑی میں کبھی ناچتی ہے، کبھی گانے گاتی ہے اور اسی طرح ریسٹورنٹ پہنچ جاتی ہے، پھر وہاں پر جو کھاتی ہے وہ بھی عوام بلکہ اپنی ویورز کو دکھاتی ہے اور آخر میں کہتی ہے کہ میرا چینل سبسکرائب کرو، میں ہفتے میں دو، تین وی لاگ بناتی ہوں ۔۔۔۔
سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے پکوان موجود ہیں، جو باقاعدہ ہر جز بنانے یا پکانے کے طریقے بتاتے ہیں لیکن یہ یوٹیوبر باقاعدہ ایک خاص طریقے سے یہ سب کچھ کرتے ہیں اور ناظرین کو دکھاتے ہیں ۔ ایسے پکوانوں کے اپنے یوٹیوب چینلز بھی ہے اور انتہائی شائستگی سے وہ لوگ کام کر رہے ہیں ۔
شام کے وقت سوشل میڈیا پر سکرولنگ کر رہا تھا کہ اس دوران ایک لڑکے اور لڑکی کی ٹک ٹاک دیکھنے کو ملی، دونوں یونیورسٹی میں گھوم رہے تھے اور ویڈیو بنارہے تھے، اس کے بعد میں نے سوچا آج پاکستان کے مستقل کو دیکھتے ہیں، میں سکرولنگ کر رہا تھا تو کالج و یونیورسٹی کی طلبا و طالبات کے ایسے بے باک اور شرم ناک مناظر دیکھنے کو ملے کہ دل خون کے آنسو رو پڑا اور بے اختیار وہ لمحے آنکھوں کے گرد گھومنے لگے۔
کہ جب سوشل میڈیا اتنا عام نہیں تھا تو جب لوگ شادی بیاہ کے لیے جاتے تو ایک بندہ تصاویر بناتا تھا، پھر شادی والے اس کا البم بناتے اور سارے مل کر دیکھتے تھے، لیکن اب حالات کچھ اور ہیں، سوشل میڈیا پر بہت سے ایسے لوگوں کو ہم روز دیکھتے ہیں جو اپنی یا دوست یاروں کی شادی یا فرینڈ گیڈرنگ کے تصاویر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرتے ہیں۔
بعض نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے سامنے کوئی خوبرو حسینہ سامنے آجاتی ہے نہ اتہ نہ پتہ، بس اس لڑکی پر فدا ہوجاتے ہیں، پھر گھر بیٹھ کر غمگین سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں۔۔۔ ایسے لوگوں کو جب کوئی باشعور بندہ دیکھتا ہے تو وہ ایسا حیران ہوتا ہے جیسے کسی کے ہاتھ سے کوئے قیمتی فون یا سونا گر گیا ہو۔
سوشل میڈیا پر ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جو لڑکی کے نام پر اکائونٹس بناتے ہیں اور پھر سادہ لوح نوجوانوں کو تنگ کرتے ہیں اور ان سے پیسے بٹورتے ہیں۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سے نمونے موجود ہیں جو سوشل میڈیا کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں، ایک بندہ کہ رہا تھا کہ میرا انٹرنیٹ پیکیج ختم ہوتا ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میری زندگی ختم۔۔۔
سوشل میڈیا سے متعلق اگر ہم ٹک ٹاک پر بات کریں تو اس نے خواتین کی عزتوں کو تار تار کر دیا ہے بلکہ ان خواتین نے خود اپنی شرم، حیا اور عزت کو برباد کر دیا ہے، ہر کوئی اس دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے جانے کی کوشش میں ہے کہ میں جلدی مشہور ہو جائوں اور لوگ مجھے زیادہ دیکھیں، وہ اس سوچ میں ہوتے ہیں کہ ایسا کیا کروں کہ جس کی وجہ میرے فالورز بڑھے۔
پرانے زمانے کی بات ہے کہ جب ہمارے ہاں شادی بیاہ کی تقاریب ہوا کرتی تھی تو شہر میں کچھ خاص جگہوں پر طوائفیں رہتی تھیں، شادی والے ان کو پیسے دیتے اور وہ حجروں میں ناچتی لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان خواتین سے زیادہ ٹک ٹاک پر خواتین ناچتی ہیں اور اس ناچنے کو ماڈرن ازم کا نام دیا گیا ہے، بہت سی لڑکیاں اپنی گھریلو یا پرائیویٹ ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتی ہیں۔
موجودہ دور میں نوجوان طبقہ ماڈرن ازم کے بارے میں باتیں کرتی ہے ۔ کہتے ہیں میں ماڈرن ہوں اسی طرح لڑکیاں بھی اپنے آپ کو ماڈرن کہتی ہیں بنیادی سوال یہ ہے کہ ماڈرن ازم کیا ہے ؟ اس حوالے سے چند دنوں پہلے میں نے ایک دانشور سے کافی لمبی چوڑی بحث کی اور ان سے پوچھا محترم یہ ماڈرن ازم کیا ہے ؟ انہوں نے بتایا میں ماڈرن ازم سے پہلے آپ کو ایک بات بتاتا ہوں ہماری نوجوان نسل مغربی ممالک کی کچھ چیزیں کاپی کر کے اپنی زندگی میں اپنا لیتے ہیں۔
یہ آپ کے خیال میں آندھی تقلید نہیں ؟ انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ آپ کے کلچر کو کیوں فالو نہیں کرتے ؟ یہ بنیادی سوال ہے ۔ رہی بات ماڈرن ازم کی تو میرے خیال میں بلکہ میں آپ کو آسان الفاظ میں بتاتا ہوں کہ ایک گائوں میں بہت سارے لوگ رہتے ہیں، اس میں ایک شخص نے کافی زیادہ تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور ایک بڑے ادارے میں ایک اعلیٰ عہدے پر براجمان بھی ہے، اس کے علاوہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو شہر کے اچھے سکول میں داخل بھی کروایا ہے، میرے خیال میں یہ بندہ ماڈرن ہے۔ جس کا باپ تیس یا چالیس ہزار کی نوکری کرتا ہے اور بیٹا ہاتھ میں ستر ہزار کا موبائل فون لے کر گھومتا ہے اور بالوں میں مختلف قسم کے ہیئر سٹائل بناتا ہے میرے نزدیک یہ ماڈرن ازم نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس گائوں میں سب تعلیم یافتہ ہوں سب کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے ہوں سب کے پاس اپنی اپنی گاڑیاں ہو۔ اس کو ہم تعلیم یافتہ گائوں یا علاقہ تو کہ سکتے ہیں لیکن ماڈرن نہیں، انہوں نے کہا ایک گھر میں لڑکا پی ایچ ڈی کرر ہا ہے وہ میرے خیال میں ماڈرن ہے۔
بعض نوجوان جو دن رات سوشل میڈیا استعمال کررہے ہیں ان سے کچھ سوالات :
کیا اپنے فالوورز کی تعداد بڑھانے کے لئے اپنی عزت کو دائو پر لگانا جائز ہے؟
کیا قرآنی تعلیمات اس بات کی اجازت دیتی ہے؟
جو عزت خاک میں مل گئی کیا وہ واپس آسکتی ہے ؟
چلیں فرض کریں کہ اگر سوشل میڈیا بند ہو جائے تو پھر کیا آپ کی لوٹی ہوئی عزت واپس آسکتی ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ویڈیو بنانے کا مقصد ہی کیا تھا، کیا آج سے برسوں پہلے لوگ کھانا کھانے نہیں جاتے تھے، کیا اس وقت وہ اس قسم کی حرکتیں کرتے تھے، بعض خواتین ایسی ہوتی تھیں جن کو بولنے کی بیماری تھی تو اپنے محلے کے عورتوں کو بتاتیں لیکن اس طرح نہیں جو اس لڑکی نے کیا۔
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا کہ صرف آپ برینڈڈ چیزیں استعمال کرتی ہیں ؟ میرا ایک دوست ہے وہ اس قسم کے حالات کو دیکھنے یا سننے کے بعد مجھ سے پوچھتا ہے ( اس سے کیا ہو جائے گا)، اصل میں یہ برینڈڈ چیزیں خریدنا اور لوگوں کو میڈیا کی ذریعے دکھانا نفسیاتی بیماریوں میں سے ایک ہے۔ یہ بندہ اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے افضل سمجھتا ہے۔ غریب عوام روٹی کے لیے در بدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں اور ہمارے ایلیٹ کلاس کے لوگوں کے نخرے سوشل میڈیا پر ختم ہی نہیں ہورہے۔
کچھ دن پہلے باغیچے میں فلسفی افتخار احمد کے ساتھ بیٹھا تھا، چاروں طرف بڑے بڑے درخت تھے اور درختوں کی بیچ میں چمن تھا، چمن کے چاروں طرف رنگ برنگ پھولوں کے پودے تھے، گلابوں کی خوشبو تھی، شام کا وقت تھا اور ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ میں اس بندے کے ساتھ سوشل میڈیا اور لڑکی کی وی لاگ کے بارے میں بات کر رہا تھا، اس سے پوچھ رہا تھا کہ یہ آخر ہمارے ملک میں کیا ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا میں آپ کو آسان الفاظ میں سمجھا تا ہوں، وہ الفاظ ان کی نظر میں تو مشکل نہیں تھے لیکن میرے لیے مشکل ضرور تھے۔
انہوں نے کہا سامنے دیکھو کیا ہے ؟ میں نے کہا کچھ نہیں۔ انہوں نے کہا آدھا زمین کے اندر ہے، آدھا باہر ، میں نے غور سے دیکھا اور بولا یہ پتھر ہے۔ انہوں نے کہا کیا یہ پتھر خود اس جگہ سے جا سکتا ہے۔ میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا کیا یہ بچے پیدا کر سکتا ہے؟۔ کہا نہیں۔ پھر اس نے درخت کی طرف انگلی اٹھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہا یہ درخت اپنی جگہ تبدیل کر سکتا ہے، میں نے کہا نہیں۔ پھر بولا کیا یہ اپنی نسل زیادہ کر سکتا ہے، میں خاموش ہوا۔ اس نے کہا درختوں و پودوں میں ایسے پودے ہوتے ہیں جو اپنی نسل بڑھا سکتے ہیں۔ پھر اس نے کہا کہ ایک جانور کیا کر سکتا ہے۔ میں نے فٹا فٹ جواب دیا وہ چل بھی سکتا ہے، کھا سکتا ہے، بعض گھریلو جانور دودھ بھی دیتے ہیں۔ اس نی کہا کہ آپ کی باتیں تو درست ہیں لیکن آپ جانور کو رسی سے مت باندھو، وہ دوسروں کے کھیتوں سے گھاس کھائے گا، انسان کو نقصان پہنچائے گا، کیونکہ جانور میں شعور نہیں ہے۔ اس میں عقل نہیں ہے، وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جنسی خواہشات کہاں پوری کرنی چاہئیں۔ کہاں پر پیشاب کرنا چاہئے، لیکن انسان کے پاس عقل و شعور دونوں ہیں، وہ سچ و جھوٹ میں فرق کر سکتا ہے، وہ غلط و درست میں تمیز کر سکتا ہے، وہ دوسرے انسان کا دکھ درد محسوس کر سکتا ہے، وہ یہ محسوس کر سکتا ہے ہے کہ دوسرا انسان کافی دن سے بھوکا ہے، بلکہ وہ اس کی مدد کرنے کی بھی ہمت رکھ سکتا ہے، اگر اس کے پاس طاقت ہو اور جب وہ عوامی نمائندہ ہو تو وہ اپنے عوام کے لیے آواز بھی اٹھا سکتا ہے، یہ انسانیت کے ساتھ ساتھ ان کا فرض بھی ہے حتی کہ وہ اپنی جنسی خواہشات کو بھی قابو میں رکھ سکتا ہے۔
میں نے کہا اگر کوئی انسان اس طرح نہیں کرتا تو اس نے ڈائریکٹ جواب دیا اس کی شکل تو انسانوں جیسی ہے لیکن کام سارے حیوانوں جیسے۔۔۔۔۔





