جنگ مسائل کی ماں ہے

نذیر احمد سندھو
فلسطین اسرائیل جنگ آج کا بڑا موضوع ہے۔56سال بعد مسجد اقصیٰ میں آواز گونجی، مسلمانوں نے نماز ادا کی ۔1967ء میں مصر شام اردن اور فلسطینیوں نے اسرائیل پر حملہ کر دیا۔ تمام مسلم ممالک کی حمائت حاصل تھی ۔ حملہ آور ممالک کو نہ تو اپنی قوت کا صحیح اندازہ تھا نہ ہی اسرائیل کی طاقت کا۔ مصر کے صدر کرنل جمال عبدلناصر اور شام کے صدر جنرل حافظ لاسد خود اعتمادی کا شکار تھے۔ صدر ناصر نے آخری مصری بادشاہ شاہ فاروق کی بادشاہت جنرل نجیب کی قیادت میں ختم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ صدر ناصر نے بعث پارٹی کی بنیاد رکھی جس کی مدد سے اس نے جنرل نجیب سے اقتدار چھینا۔ صدر ناصر اور دیگر قابل ذکر عرب ریاستوں نے سوویت کیمپ جائن کر لیا اور سوویت یونین کی مدد سے نہر سوئز پر قبضہ کر لیا، جو قبل ازیں فرانس برطانیہ کے قبضہ میں تھی۔ نہر سوئز پر قبضہ سے مصر کی معیشت کو خاطر خواہ فائدہ ہوا جس سے صدر ناصر کو بہت مقبولیت ملی ۔ 1965ء میں صدر کا الیکشن ہوا جس میں صدر ناصر نے7لاکھ سے زائد ووٹ حاصل کیے جبکہ مخالف امیدوار کو صرف 65ملے۔ ریفرنڈم ٹائپ الیکشن نے صدر ناصر کے اعتماد میں غیر معمولی اضافہ کیا اور اس نے شام اردن اور فلسطینیوں سے مل کر اسرائیل پر حملہ کر دیا ۔ حملہ آور عرب اتحاد کو اسرائیل کی قوت کا اندازہ نہیں تھا وہ ٹیکنالوجی میں بہت آگے جا چکے تھے جبکہ عرب اتحاد نئی ٹیکنالوجی سے ابھی بہت دور تھا۔ عرب اتحاد کو بدترین شکست ہوئی حملہ آور بھاگ گئی اور اسرائیل نے ان کے بہت سے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور اپنی سرحدیں چاروں سمت بڑھا لیں۔ شام کی جولان کی پہاڑیاں آج بھی اسرائیل کے قبضے میں ہیں۔1970 ء میں صدر ناصر رحلت فرما گئے ، صدر انور سادات صدر بنے اور 1973ء میں اسی عرب اتحاد نے اسرائیل پر دوبارہ حملہ کیا، گو فتح کا بہت واویلا کیا مگر حقیقت میں وہ ایک انچ بھی واپس نہ لے سکے۔ انور سادات نے خارجہ پالیسی کا پانسہ ہی پلٹ دیا اور سوویت یونین کی بجائے امریکی کیمپ جائن کر لیا۔ سادات نے امریکی دعوت پر امریکہ کا دورہ کیا امریکہ نے اسے ریڈ کارپٹ استقبال دیا اور غیر معمولی مراعات۔ دو ارب ڈالرز مصری فوج کے تنخواہوں کے لئے ہر سال دیے ملٹری سازو سامان اور معیشت کو سنبھالنے کے لیے کھل کر امداد دی گئی ۔ دو ارب ڈالرز کی امداد سے مصری فوج مستقل امریکی Pay roleپر منتقل ہو گئی۔ انور سادات کو فوجی پیریڈ کے دوران ایک کپتان نے قتل کر دیا، انور سادات کی جگہ حسنی مبارک صدر بنے تیس سال مصر پر حکمرانی کی، بھاری کرپشن کا الزام ہے۔ یہ ہے مختصر خاکہ اس جنگ کے فریقین کا جو کالم کا موضوع ہے۔ پاکستان مصر میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ 2013ء میں ہیلری نے مصر کا دورہ کیا تو قاہرہ میں اس کے ہوٹل کے سامنے نوجوانوں نے مظاہرہ کیا انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے ، مصر نہیں بنے گا پاکستانِ ، میں نے جنگ اخبار میں لکھا تھا مصر بنے گا پاکستان ، کیوں ؟ امریکہ فیصلہ کر چکا تھا اور وہ خاتون سفیر جس کی سازشوں سے پاکستان خون میں نہا رہا تھا اسے مصر بھیج دیا گیا تھا۔ کچھ ماہ بعد مصر بھی خون میں لت پت ہوا تو میں نے دوسرا کالم لکھا تھا، لو مصر بن گیا پاکستان۔ پاکستان کی طرح مصر نے بھی کبھی آئین کی پاسداری نہیں کی۔ مصری بھی ہماری طرح خود کو نہیں بدلتے آئین بدل دیتے ہیں۔ مماثلتیں تو اور بھی بہت ہیں رنگ تو اور بھی ملتے ہیں ، مثلا فیلڈ مارشل محمد حسین تتوانی، جنرل باجوہ، صدر مرسی، عمران خان، جنرل عاصم ، جنرل ابو الفتاح السیسی، مگر ان رنگوں کی تفصیل اور تاثیر کا نہ میں متحمل ہو سکتا ہوں نہ اخبار لہذا دھورا چھوڑے دیتے ہیں۔ فلسطین یروشلم تاریخی اور پیغمبروں کی سرزمین ہے، مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی مسجد عمر اور بہت سی تاریخی عمارتیں اسی سرزمین پر ہیں۔ اسرائیل 1945ء میں مغرب کی Backingسے وجود میں آیا جسے فلسطینی تسلیم نہیں کرتے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے یہ بیکار زمینیں تھیں جو فلسطینیوں نے ہمارے پاس فروخت کیں اور ہم نے جنگل کو منگل میں بدل دیا ۔1967ء میں فلسطینیوں سمیت عالم عرب نے اسرائیل کی طاقت کا غلط اندازہ لگا یا ۔ 77سالوں میں نسلیں قربان کیں، اربوں کے اثاثے تباہ کرائے، خون اور آگ کے کھیل میں فلسطینیوں کی ایک ایسی نسل تیار ہوئی جو موت سے بے خوف اور زندگی کی آسائشوں سے بے نیاز ہے، یہی فلسطینیوں کی طاقت ہے جس کا آج کے اسرائیل اور ان کے ہینڈلرز نے غلط اندازہ لگایا۔ یہودیوں کے مقدس دن ہفتہ 7اکتوبر کو فلسطینیوں کی فوجی تنظیم نے5000راکٹوں سے حملہ کر دیا یہودی جنرل نے تین ہزار سے زائد راکٹوں کے حملے کو تسلیم کیا ہے ۔حیرت ہے ایک ایسا ملک جس کا سرحدیں ماڈرن ٹیکنالوجی سے seazeتھیں جس کا ریڈار اور ڈیفنس سسٹم ہمہ وقت ایکٹو ہو تا ہے جس کے پاس اواکس طیارے جن کا ریڈار سسٹم چاک و چوبند ہے، امریکہ کے پیٹریاٹ جیسے ڈیفنس سسٹم سے مسلح ہے، اس کی سرحدوں کو ہزاروں راکٹ کراس کر گئے، دنیا حیرت زدہ ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کی ناکامی ہے، کچھ تجزیہ کاروں کا تجزیہ یہ 9؍11طرز کی واردات ہے، اسلحہ کے ماہر تجزیہ کار کا تجزیہ ہے، پیٹریاٹ بیک وقت ایک ہزار میزائل روک سکتا ہے، پیٹریاٹ کی ساخت ہی بڑے میزائل کو روکنے کی ہے، جو بہت بھاری اور مہنگے ہوتے ہیں، بیک وقت ایک ہزار میزائل پھینکنا کسی کے لئے بھی آسان نہیں۔ راکٹ چھوٹے اور سستے ہیں اکٹھے پانچ ہزار بیس منت میں حماس نے چلا دئیے، یقینا پیٹریاٹ نے روکے ہوں گے مگر راکٹس کی تعداد زیادہ تھی ہزار بھی نکل گئے تو انہوں نے آگ برسا دی اور اسرائیل کا بھاری جانی مالی نقصان کیا۔ راکٹ اب بھی برس رہے ہیں جبکہ اسرائیل کے تمام ڈیفنس سسٹم کام کر رہے ہیں۔ فسلطینیوں نے بہترین گوریلا وار حکمت عملی اپنا رکھی ہے، ان کے fightersلبنان شام مصر اردن عراق ایران ہر جگہ بکھرے ہوئے ہیں اور ہر سمت سے حملہ آور ہیں۔ طاقت کا توازن فلسطینیوں کے حق میں ہے، فلسطینیوں کی نئی نسل جنگ کی بھٹی سے نکل کر آئی ہے، وہ موت سے خوفزدہ نہیں، زندگی کی رعنائیوں سے آشنا نہیں، دوسری طرف اسرائیلی موت سے خوفزدہ ہیں اور زندگی کی رعنائیوں سے آشنا، وہ اسرائیل چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ فلسطینی اسرائیل میں داخل ہو رہے ہیں۔ امریکی گوریلے بھی پہنچ چکے ہیں۔ یہ تو جنگی حکمت عملی ہے، مگر انسانیت کو امن اور خوشحالی کی حکمت اپنانی چاہیے۔ ساری دنیا کے طاقتوروں کو آگے نکلنا چاہیے، فلسطینی تو سالوں سے زخمی ہیں مگر اس وقت اسرائیل بھی زخم خوردہ ہے، یہ بہترین وقت ہے دونوں کوبات چیت کی میز پر لایا جائے، امن کے ڈائیلاگ ہوں، اسرائیلی اور فلسطین دونوں ریاستوں کو ساری دنیا تسلیم کرے، دونوں کی سرحدوں کا تعین اقوام متحدہ کرے تاکہ مستقبل میں کوئی اختلاف نہ ہو۔ باعث افسوس ہے اکیسویں صدی ہے اور انسان آج بھی طاقت کے کنٹرول میں ہے، ہونا تو چاہیے تھا طاقت انسان کے کنٹرول میں ہوتی۔ فلسطینی میدان جنگ میں ہیں، دنیا بھر سے ان کے سپورٹر پہنچ رہے ہیں، فلسطینی شہروں خصوصاً غزہ پر اسرائیلی طیاروں نے تباہی مچا دی ہے، ضروریات زندگی کی لائن کاٹ دی ہے۔ اسرائیل فاسفورس بم استعمال کر رہا ہے، جو بہت ہی خوفناک ہے، دنیا کو آگے بڑھنا چاہیے اور امن کی بسط بچھانا چاہیے ورنہ جنگ طول پکڑ جائیگی اور تباہی، مہنگائی پورے ارتھ کا مقدر بن جائیگی۔







