مرگ مفاجات

صفدر علی حیدری
یورپ میں یہودیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی وجہ سے صیہونی تحریک زور پکڑنے لگی، جس کا مقصد یہودیوں کے لیے الگ ریاست کا قیام تھا۔ تب فلسطین کا علاقہ سلطنت عثمانیہ کی عمل داری میں تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد یہ خطہ برطانیہ کے زیر تسلط آیا جہاں یہودی بڑی تعداد میں منتقل ہونے لگے اور یوں مقامی عرب آبادی کے ساتھ تنائو کی شروعات ہوئی۔ برطانیہ اور فرانس نے مشرق وسطی کو تقسیم کیا اور مختلف ریاستیں قیام میں آئیں۔ تاہم فلسطین برطانیہ کے زیر نگیں ہی رہا، جہاں عرب قوم پرستوں اور صیہونی تنظیموں کے درمیان کشیدگی بڑھنے لگی۔ صیہونی تنظیموں نے عسکری گروہ قائم کر لیے جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد الگ ریاست کے لیے دبائو بڑھانا شروع کر دیا۔1947ء میں اقوام متحدہ نے ووٹنگ کے ذریعے فیصلہ کیا کہ فلسطین کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا جائے جن میں ایک یہودی ریاست ہو اور ایک عرب ریاست ، جبکہ یروشلم ( بیت المقدس) ایک بین الاقوامی شہر ہو گا ۔ تاہم 14 مئی 1948ء کو اسرائیل کا قیام ہوا تو اگلے ہی دن اردن ، مصر، شام اور عراق نے حملہ کر دیا۔ یہ پہلی عرب اسرائیلی جنگ تھی جس کے نتیجے میں اقوام متحدہ کے منصوبے کے مطابق جہاں عرب ریاست بننا تھی، وہ علاقہ مختلف ممالک کے قبضے میں آ گیا اور یوں فلسطینیوں کے لیے ایک سانحے نے جنم لیا ۔ ساڑھے سات لاکھ لوگوں کو اسرائیلی فوجیوں نے قریبی ممالک میں بے دخل کر دیا۔1967ء کی عرب اسرائیل جنگ نے اس تنازع کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ اسرائیل نے عرب اتحاد کو شکست دے کر مصر سے غزہ کی پٹی ، شام سے گولان اور اردن سے مشرقی یروشلم سمیت ویسٹ بینک یعنی غرب اردن چھین لیا ۔ مصر کو سینائی سے بھی محروم ہونا پڑا۔1973ء میں مصر اور شام نے اسرائیل پر اپنے علاقے چھڑانے کے لیے حملہ کیا جسے ’ یوم کپور‘ جنگ کہا جاتا ہے۔ چھ سال بعد اسرائیل اور مصر نے امن کا معاہدہ کر لیا اور سینائی مصر کو واپس لوٹا دیا گیا۔ اردن نے بھی کچھ عرصہ بعد اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے مصر کی تقلید کی۔ اسرائیل آج بھی غربِ اردن پر قابض ہے تاہم اس نے 2005ء میں غزہ کی پٹی سے فوجیں نکال لیں تھیں۔ اقوام متحدہ آج بھی اس علاقے کو مقبوضہ مانتا ہے۔ اسرائیل پورے بیت المقدس کو اپنا دارالخلافہ مانتا ہے جبکہ فلسطینی مشرقی بیت المقدس کو مستقبل کی فلسطینی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرتے ہیں۔ اس وقت دو فلسطینی علاقے ہیں جن میں سے ایک غرب اردن اور ایک غزہ کی پٹی ہی۔ ان دونوں علاقوں کے درمیان 45کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ غرب اردن کا رقبہ 5970سکوائر کلومیٹر جبکہ غزہ کی پٹی صرف 365سکوائر کلومیٹر پر محیط ہے۔ غرب اردن یروشلم اور اردن کے درمیان موجود ہے جبکہ غزہ کی پٹی 41کلومیٹر طویل اور 10کلومیٹر چوڑی ہے۔ غزہ کی پٹی کی سرحد کا سات کلومیٹر حصہ مصر سے ملتا ہے اور ایک جانب بحیرہ روم واقع ہے۔ غزہ میں فلسطینی عسکریت پسند گروہ حماس برسراقتدار ہے، جس نے اسرائیل سے کئی مرتبہ جنگ کی ہے۔ اسرائیل اور مصر سختی سے غزہ کی سرحدوں کی نگرانی کرتے ہیں تاکہ حماس تک ہتھیار نہ پہنچیں۔ دوسری جانب غرب اردن میں بین الاقوامی طور پر مانی جانے والی فلسطینی حکومت ہے جس میں فتح تنظیم کا اہم کردار ہے۔ تاہم غرب اردن غربِ اردن کہلانے والے اس چھوٹے سے علاقے میں 86فیصد فلسطینی ہیں جبکہ 14فیصد لوگ اسرائیلی آباد کار ہیں جو ایسی بستیوں میں رہتے ہیں جو ایک دوسرے سے عموماً فاصلے پر موجود ہوتی ہیں ۔ زیادہ تر اسرائیلی بستیاں 70، 80اور 90کی دہائی میں تعمیر ہوئی تھیں مگر گزشتہ 20برسوں میں ان کی آبادیوں میں دگنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اسرائیل ان بستیوں کو پانی اور بجلی جیسی سہولیات فراہم کرتا ہے اور ان کی حفاظت اسرائیلی فوج کرتی ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان مستقل تنائو موجود رہتا ہے۔ یہ تو تھا مسئلہ فلسطین کا کچھ تاریخی پس منظر ۔۔۔ آج صورت حال یہ ہے کہ ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر حملے جاری ہیں۔ القدس بریگیڈز کا دعویٰ ہے کہ اُن کے جنگجوئوں نے ’ متعدد‘ اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا ہے۔ حماس کا دعویٰ ہے کہ اس کے پاس 53’ جنگی قیدی‘ ہیں جن میں اسرائیلی فوج کے سینئر افسر بھی شامل ہیں اور ان میں سے بہت سوں کو ان سرنگوں میں رکھا گیا ہے جنہیں ماضی میں اسرائیل نشانہ بناتا رہا ہے۔ اس کارروائی کے جواب میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر فوری فضائی حملے شروع کیی، جہاں مقامی حکام کے مطابق اب تک سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں حماس کے 17عسکری کمپائونڈز کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مرکز میں واقع ایک 11منزلہ عمارت کو بھی بمباری کر کے تباہ کر دیا ہے۔ اس عمارت میں حماس کے ریڈیو سٹیشن قائم تھے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس حملے کے بعد اس نے اسرائیلی علاقے پر مزید 150راکٹ داغے ہیں۔ اس سے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ ہم حالتِ جنگ میں ہیں‘‘، اسرائیل کے وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا ہے کہ حماس نے ’’ ایک سنگین غلطی‘‘ کی ہے اور یہ کہ ’’ اسرائیل کی ریاست یہ جنگ جیت جائے گی‘‘۔ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام میں تاخیر کے علاوہ اسرائیل کی جانب سے غرب اردن میں یہودی بستیوں کی تعمیر اور ان کے گرد سکیورٹی رکاوٹوں کی تعمیر نے امن کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے۔ تاہم ان کے علاوہ بھی کئی اختلافات موجود ہیں۔ اسرائیل یروشلم پر مکمل دعوی کرتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا دارالحکومت ہے۔ تاہم اس دعوے کو بین الاقوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔ فلسطینی مشرقی یروشلم کو اپنا دارالحکومت بنانا چاہتے ہیں۔ فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی مستقبل کی ریاست کے سرحدیں 1967ء کی جنگ سے قبل کی حالت پر طے ہونی چاہیے تاہم اسرائیل اس مطالبے کو تسلیم نہیں کرتا۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ کے بعد جن علاقوں پر قبضہ کیا، وہاں غیر قانونی بستیاں تعمیر کی گئی ہیں اور اب غرب اردن اور مشرقی یروشلم میں پانچ لاکھ کے قریب یہودی بستے ہیں۔ ایک اور معاملہ فلسطینی تارکین وطن کا بھی ہے۔ پی ایل او کا دعوی ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ فلسطینی موجود ہیں جن میں سے نصف اقوام متحدہ کے ساتھ رجسٹر ہیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ ان افراد کو اسرائیل واپس آنے کا حق حاصل ہے جبکہ اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایسا کرنے سے اس کی یہودی شناخت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ایسے میں امن کیسے قائم ہو گا؟ اس کے لیے دونوں جانب سے چند اقدامات ضروری ہوں گے۔ اسرائیل کو فلسطینیوں کی آزاد ریاست کا حق تسلیم کرنا ہو گا، غزہ کی پٹی کے محاصرہ ختم کرنا ہو گا اور مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں رکاوٹیں ختم کرنی ہوں گی ۔ اقوام متحدہ اور او آئی سی کی خاموشی کو مجرمانہ ہی کہا جائے گا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری اس مسئلے کا کوئی پائیدار حل تلاش کرے تاکہ یہ بحران مستقل طور پر ٹل جائے۔







