امریکا پر یہودی لابی کے کنٹرول کا سچ؟ پہلی بار اعداد و شمار کی روشنی میں

پاکستان میں ہم اکثر اس معاملے پر بحث کرتے پائے جاتے ہیں کہ دنیا پر اصل میں اہل یہود کا راج ہے اور یہودی لابی مسلمانوں کو پست رکھنے میں ہر وقت سرگرم ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں سیاستدان یہودی لابی کا حصہ ہے تو پھر یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ امریکا جیسی سپر پاور بھی یہودی راج کے طابع ہے۔ لیکن حقیقت میں بھی ایسا کچھ ہے؟ تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ جو کہ برطانوی نشریاتی ادارے نے نشر کی ہے کے مطابق یہودیوں کا امریکی معاشرے میں کردار ہمارے ان سوالوں کے جوابات دیتا ہے۔ اس رپورٹ کا مغز قارئین کی پیش خدمت ہے۔
رپورٹ کے مطابق اگرچہ یہودی امریکی معاشرے میں اقلیت میں ہیں مگر ایک عام امریکی کے مقابلے میں یہ معاشی اور علمی اعتبار سے طاقتور ہیں۔ سنہ 2020 میں ہونے والے ایک سروے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکی یہودیوں میں سے نصف کی سالانہ آمدن ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں اتنی آمدن رکھنے والے افراد کی تعداد صرف 19 فیصد ہے۔ امریکہ میں بسنے والے یہودیوں میں سے 23 فیصد کی سالانہ آمدن دو لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔
اس کے علاوہ 36 فیصد امریکی یہودی ہائی سکول کے بعد پوسٹ گریجوئیٹ ڈگری حاصل کر چکے ہیں جبکہ امریکہ میں عام طور پر صرف 14 فیصد لوگ ہی اتنے تعلیم یافتہ ہوتے ہیں۔
معاشی درجے اور علمی قابلیت کی وجہ سے یہودی امریکی سیاست میں بھی اثرورسوخ رکھتے ہیں۔ امریکی کانگریس میں آبادی کے تناسب کے حساب سے یہودی کافی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ موجودہ اسمبلی میں 34 کانگریس اراکین یہودی ہیں جو مجموعی طور پر 6.4 فیصد بنتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکی آبادی میں خود کو یہودی قرار دینے والے افراد صرف دو فیصد ہیں۔
دوسری جانب امریکی اسرائیلی پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) ایک طاقتور لابی گروپ ہے۔ گذشتہ سال اس گروپ پر الزام لگا تھا کہ اس نے ڈیموکریٹک پارٹی میں صدارتی امیدوار کی دوڑ میں لاکھوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی تاکہ فلسطین کے حمایتی بائیں بازو کے امیدواروں کو شکست دی جا سکے۔ اے آئی پی اے سی کا کہنا ہے کہ ان کے اقدامات اسرائیلی مفادات میں اٹھائے جاتے ہیں۔
تاہم سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ امریکی سیاست میں یہودی ووٹرز یا سیاست دانوں کا کردار اتنا اہم نہیں کہ وہ عالمی سیاست میں ملک کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکیں۔ سنہ 2019 کے صدارتی الیکشن سے قبل گیلپ کے فرینک نیوپورٹ نے لکھا تھا کہ ’اگرچہ ری پبلکن امیدوار یہودی ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، مگر فتح کے لیے یہ کافی نہیں۔‘
اپنے تجزیے میں انھوں نے لکھا تھا ’یہودی بہتر تعلیم رکھنے کی وجہ سے مجموعی طور پر ووٹ دینے کے لیے کسی اور کمیونٹی کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں نکلتے ہیں۔ لیکن اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے کہ چند ریاستوں میں ان کا ووٹ اہم ہے، جیسے فلوریڈا اور پنسلوینیا، تو یہ واضح ہے کہ صدارتی انتخابات میں مجموعی طور پر ان کا ووٹ فیصلہ کن نہیں اور نہ ہی بہت زیادہ فرق ڈال سکتا ہے۔‘
اس تناظر میں یہ اہم ہے کہ یہودی امریکی معاشرے کے طاقت کے اعشاریوں پر قدرت رکھتے ہیں اور ان سے وہ فیصلے کرواتے ہیں جس سے اسرائیل کا فائدہ ہو۔







