ColumnImtiaz Aasi

سزائے موت پر عمل درآمد رک گیا

امتیاز عاصی
ہماری بدقسمتی ہے اللہ تعالیٰ اور رسول ٔ کے بتلائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر یہود اور ہنود کے راستے کا انتخاب کر لیا۔ مسلمانوں نے کئی سو سال اسپین میں حکومت کی۔ خلافت کا دائرہ کار کہاں سے کہاں تک پھیلا ہوا تھا۔ جب مسلمانوں نے اصل راستے کو چھوڑ کر اغیار کا راستہ اختیار کیا تو دنیا پر حکمرانی کرنے والے مسلمان اسلام دشمن طاقتوں کے محکوم بن گئے۔1973ء کے آئین کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین قرار دیا گیا ہے جس کا مطلب ریاست پاکستان کی بنیاد اسلام کے بنیادی اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ اسلام میں قتل کرنے والوں کے لئے جہنم کی سزا مقر ر ہے البتہ مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کر دیں تو علیحدہ بات ہے ورنہ خون کا بدلہ خون ہے۔1973ء کے آئین میں قتل کرنے والوں کے لئے سزائے موت رکھی گئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مغربی دنیا کے دبائو پر موت کی سزا کو ختم کرنے کے لئے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا گیا جو مذہبی جماعتوں کی مخالفت کے پیش نظر منظور نہ ہو سکا بلکہ موت کی سزا کے ساتھ قتل کرنے والوں کے لئے چودہ سال کی بجائے عمر قید کی سزا مقرر کی گئی۔ اہل مغرب کا اسلامی ملکوں میں موت کی سزا کو ختم کرنے کے لئے ہمیشہ دبائو رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور میں سزائے موت پر عمل درآمد رکا رہا۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اسمبلی کے فلور پر موت کی سزا کو عمر قید میں بدلنے کا اعلان کیا ۔ ایوان میں قانون سازی کے لئے مطلوبہ ارکان کی حمایت نہ ہونے سے سزائے موت کو ختم نہیں کیا جا سکا لیکن یورپی یونین کے دبائو پر موت کی سزا پر عمل درآمد رکا رہا۔ پشاور میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد پھانسی کے منتظر قیدیوں کی سزائوں پر عمل درآمد کا آغاز ہوگیا۔2018 ء سے پھانسی کی سزائوں پر عمل درآمد رکا ہوا ہے۔ پاکستان کی ماتحت عدالتوں سے سزائے موت اور اعلیٰ عدلیہ سے سزائے موت کے قیدیوں کی اپیلوں کے مسترد ہونے کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے موت کی سزا پر عمل درآمد رکا ہوا ہے۔ صدارتی سیکرٹریٹ میں بے شمار قیدیوں کی رحم کی اپیلیں زیر التواء ہیں جنہیں موت کی سزا دینا مقصود ہے۔ جیسا کہ مملکت میں رہنے والا ہر شخص اس بات سے واقف ہے ہمارا ملک برسوں سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں اور سیکیورٹی فورسز کے بہادروں کے خون سے رنگے ہیں۔ حالیہ وقتوں میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی اداروں کا نشانہ بنانا شروع کر رکھا ہے جو اس امر کا غماز ہے دشمن ہماری بہادر افواج کو کمزور کرنے کے درپے ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے ریاست پاکستان میں دہشت گردی عالمی ایجنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد مملکت خداداد کو ہر لحاظ سے کمزور اور ناتواں کرنا ہے۔جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے اسلام دشمن قوتیں تب سے ریاست پاکستان کے درپے ہیں۔ کبھی ایف اے ایف ٹی اور کبھی آئی ایم ایف کی کڑی شرائط نے جہاں ریاست پاکستان کو قرضوں کے بوجھ تلے رکھا ہوا ہے وہاں یہاں کے رہنے والوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ سعودی عرب کو امن کا گہوارہ کیوں کہا جاتا ہے۔ 14سو سال قبل پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا تھا ’’ حرا سے تنہا عورت پیدل سعودی عرب کی طرف چلے گی اسے نہ کوئی ڈر اور نہ کوئی خوف ہوگا‘‘۔ سعودی عرب میں اسلامی قوانین رائج ہیں، قتل کرنے والوں کو چند روز میں موت کی سزا دے دی جاتی ہے۔ ہمارا ملک ہے عشروں تک قتل کرنے والوں کی اپیلوں کے فیصلے نہیں ہو پاتے۔ دہشت گردوں کو کم سے کم وقت میں پھانسی دی جاتی تو دہشت گردی میں کمی واقع ہو سکتی تھی ۔ اسلام آباد میں سزائے موت کے خلاف اکیسویں عالمی دن کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد میں فرانسیسی سفیر نے پاکستان میں سزائے موت پر پابندی کے فیصلے کو سراہتے ہوئے مطالبہ کیا ہے پاکستان سزائے موت کے خاتمے کے عالمی معاہدے کے پروٹوکول پر دستخط کرے۔ اس وقت پاکستان کی دیگر جیلوں میں پھانسی کی سزا کے منتظر قیدیوں کو چھوڑ کر پنجاب میں ساہی وال کی ہائی سیکیورٹی جیل میں تین سو سے زیادہ دہشت گردوں میں قریبا ڈیڑھ سو دہشت گرد پھانسی کے منتظر ہیں۔ جی یہ وہ قیدی ہیں جنہوں نے سرکاری تنصیبات اور پبلک مقامات کو اپنی مذموم کارروائیوں کا نشانہ بنا کر ہزاروں بے گنا ہ شہریوں اور بہادر سپوتوں کو شہید کیا۔ تعجب ہے فرانسیسی سفیر نے موت کی سزا کو ظالمانہ اور غیر منصفانہ قرار دیتے ہوئے پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کے فریم ورک میں پاکستان کی جانب سے سزائے موت کی وجوہات کم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے حالانکہ ان ملکوں میں قتل اور اغواء کے مجرموں کو پکڑے ہی گولی مار دی جاتی ہے جو مغربی دنیا کے دوہرے معیار کا عکاس ہے۔ سوال ہے کیا ہمارا ملک جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اور اس کا آئین اسلامی اور جمہوری ہے اور ایوان میں مذہبی جماعتوں کے نمائندگی ہوتے ہوئے موت کی سزا کو ختم کرنے کا متحمل ہو سکے گا؟، یہ علیحدہ بات ہے حکومت نے موت کی سزائوں پر عمل درآمد وقتی طور پر روک رکھا ہے ۔ پاکستان جیسے ملک جہاں مذہبی جماعتوں کے دبائو میں قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا جا سکتا ہے تو سزائے موت کی سزا کے خاتمے کا سوچا نہیں جا سکتا۔ نگران حکومت جہاں قومی اداروں کی نجی کاری اور غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے بڑے بڑے فیصلے کر رہی ہے یہ ممکن نہیں دہشت گردوں کی پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کو یقینی بنا سکے؟ ہمارا ملک کب تک دہشت گردوں کا نشانہ بنتا رہے گا۔ مملکت میں جرائم میں اضافے کی ایک بڑی وجہ سزائوں پر عمل درآمد نہیں۔ دہشت گردوں کو پھانسی دیئے بغیر مملکت میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ دہشت گردوں کو پھانسی دینے سے سرحد پار سے آنے والوں کو اس بات کو خوف ہوگا وہ پکڑے گئے تو پھانسی دے دی جائے گی لہذا دہشت گردوں کی سزائوں پر عمل درآمد کا یہی وقت ہے۔

جواب دیں

Back to top button