Column

حادثاتی یا جمہوری لیڈر

تجمل حسین ہاشمی
اسرائیل کے فلسطین پر ظلم کی مذمت سے کام نہیں چلے گا، اب مسلمانوں کو آگے بڑھ کر فیصلہ کرنا ہو گا ، اسرائیل ایک چھوٹا سا ملک ہے، جس کے چاروں طرف عرب مسلمان ہیں، مسلمان 57ممالک کیسے خاموش ہیں، اسرائیل کا وزیر اعظم قوم کو امیر کرنے کے لیے سیاست کرتا ہے اور ہمارے ہاں کے حالات یکسر مختلف ہیں۔ مرتب کی گئی معاشی پالیسیوں کی ذمہ دار بھی وہی دو جماعتیں ہیں جو پندرہ، پندرہ سال سے صوبوں اور وفاق پر تین، تین بار حکمرانی کر چکی ہیں اور آج بھی حکمرانی کے لیے جوڑ توڑ میں لگی ہوئی ہیں۔ اسمبلیوں میں بیٹھے بادشاہوں کو فیصلے کرنے کا اختیار تھا، بادشاہوں کے فیصلے ان کی پسند اور نا پسند پر ہوتے ہیں، ہمارے ہاں پچھلے 40بر سے کئے گئے فیصلوں کے نتائج سے ثابت ہے کہ وہ عوامی نہیں کاروباری تھے۔ پندرہ سال سے صوبوں پر حکمران رہنے والے ابھی بھی حکمرانی چاہتے ہیں۔ آمریت کے دور کی فیصلہ سازی پر آنکھیں بند نہیں لیکن ملک میں معاشی بہتری اور روزگار میں آسانی جمہوری دور سے زیادہ آمریت دور میں دیکھی گی۔ جمہوری جنگ لڑنے والے نے قوم کو کیا دیا، جمہوری ادوار میں سیاسی جماعتوں کے فیصلوں سے ثابت ہوا کہ وہ ملکی مفاد میں نہیں کئے گئے بلکہ وقتی ریلیف اور ووٹر کی ہمدرد یاں حاصل کرنے کے لیے جھوٹے بیانئے اور بچوں کے مستقبل کو نظر انداز کیا گیا۔ اپنے مفادات کو مقدم رکھا گیا۔ بڑی جماعتوں کے ساتھ جوڑی چھوٹی جماعتوں نے لسانیات اور تفریق کی بنیاد پر اپنے ووٹ بینک کو اکھٹا کیا۔ آج چاروں صوبوں میں نفرت ، تفریق کی آبکاری جاری ہے۔ اس وقت مہنگائی اور لاقانونیت کا شکار 24کروڑ عوام ہیں۔ لیڈر اپنے محلوں میں آرام فرما ہیں، سپر پاور کے غلام بن چکے ہیں، ان کے اپنے نظریات نہیں، باہر سے ہدایات لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی ناکام معاشی پالیسیوں اور عوامی دبائو سے بخشش کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو ٹارگٹ پر رکھا، میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ عوامی مفاد میں غیر سیاسی ہے لیکن جہاں ملکی سلامتی کے معاملہ ہو وہاں اسٹیبلشمنٹ کو اپنی رائے کا اظہار اور فیصلوں میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک مسلمہ حقیقت ہے، ہمارے سیاسی حلقوں میں اس کردار کو زیادہ ڈسکس اس لیے کیا جاتا ہے تاکہ غیر ملکی طاقتوں کی خوشنودی حاصل کی جا سکے۔ اسی خوشنودی نے ملک کے لیے خطرات پیدا کئے۔ پاکستان کا بارڈر ایسے ملکوں کے ساتھ جوڑا ہوا ہے جو خود کئی سال سے جنگوں کا شکار ہیں، ان کے ہاں آبادی اور اجناس کی کمی جیسے مسائل ہیں، پڑوسی ممالک دہشتگردی کا شکار ہیں، ان کی وجہ سے پاکستان بھی دہشتگردی کا شکار ہے۔ پاکستان نے ابتدائی سالوں میں دو بڑی جنگوں کا سامنا کیا، اس وقت پاکستان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ دشمن قوتیں پاکستان کو ختم کرنا چاہتی تھیں۔ لیکن ناکامی ان کا مقدر بنی، دشمن کم عقل تھا۔ اس کو پتہ ہونا چاہئے تھا کہ یہ وہی قوم تھی جس نے آزادی حاصل کرنے کے لئے لاکھوں قربانیاں دیں، یہ آزاد ملک پاکستان ہے، دشمن کے ٹینکوں کو اپنی قربانی سے تباہ کیا۔ پاکستان کی سلامتی اور حرمت کو زندہ و آباد رکھا۔ نائن الیون کے بعد دہشتگردی نے پاکستان کے معاشی سرکل کو کمزور کیا، ملک میں ایسی صورتحال پیدا ہوئی جس نے سول اداروں کے بنیادی ڈھانچے کو کمزور کر دیا، معصوم لوگوں کی زندگیاں دہشت گردی کا شکار ہوئیں۔ پی آئی اے ، سٹیل ملز جیسے کئی مضبوط اداروں کو سیاسی قائدین کی نا اہلی نے تباہ کر دیا۔ بجلی منصوبوں ( آئی پی پی پیز ) کے ساتھ حکومتی معاہدوں نے ملک کو کمزور کیا، سیاسی قائدین اور طاقتور افراد کو لندن، امریکہ میں رہنا پسند ہے، وہاں کے قانون پر اعتماد ہے، علاج معالجے کیلئے وہاں رہنا پسند لیکن اپنے وطن میں جھوٹا بیانیہ، لوٹ مار، کرپشن کو اپنا حق سمجھا۔ چودھریوں ، وڈیروں اور سیاستدانوں نے معاشرے میں لا قانونیت، منی لانڈرنگ کی آبکاری کی، انصاف کو پامال کیا، انسانیت کو پامال کیا۔ سرکاری ادارے جن کا کام خدمات تھی وہاں رشوت، لوٹ مار کا بازار گرم ہے، نیب انصاف اور احتساب کے لیے بنایا گیا لیکن خود کو مخلص اور محب وطن کہنے والوں کو احتساب پسند نہیں، نواز شریف کو ملک کو ضرورت بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، تاریخ میں کسی سیاسی قائدین نے اپنی غلطی کو تسلیم نہیں کیا۔ بیورو کریٹس زمینی خدا ہیں، ملک اس وقت زمینی خدائوں کے قبضے میں ہیں۔ اللّہ کے فیصلوں سے زیادہ اپنی مرضی منشا پر فیصلے کرتے جا رہے ہیں، سچ اور ناکام فیصلوں کو تسلیم کرنے کا حوصلہ سیاسی قائدین کے پاس نہیں۔ اعلانات نہیں، اب عملی اقدامات کی ضرورت ہے، اب سیاست کا رخ بدل چکا ہے۔ لیکن عوام مہنگائی سے مجبور ہو چکے ہیں، روزگار کا حصول مشکل ہے۔ لوگوں کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا۔ تھانہ گلیانہ گجرات پولیس نے ذوالفقار علی نامی بھکاری کو گرفتار کیا جو مین بازار گلیانہ چوک میں چندے کی آڑ میں لوگوں کو نیکیاں فروخت کر رہا تھا۔ ایک ہزار روپے میں ایک ارب نیکیاں فروخت کر رہا تھا اور خریداروں کا حال دیکھو ۔ قوم کے شعور کا اندازہ کریں، سیاسی قائدین کے بیانوں کا اندازہ کریں، جب تک رویوں کو اعلیٰ سطح پر تبدیل نہیں کیا جائے گا ، قوم کو امیر کرنے کی سوچ والے لیڈر نہیں پیدا ہوں گے۔ حالات تبدیل نہیں ہوں گے۔ ہمارے ہاں تکبر میں اضافہ کے لیے ان چیزوں کو طرہ امتیاز بنا لیتے ہیں۔ جو آپ کے کمال کی وجہ نہیں ہوتا، وزیر اعظم کی سیٹ مل جانا، آپ کی دولت میں اضافہ ہو جانا، کمیشن افسر بن جانا، کرکٹ کے گرائونڈ سے وزیر اعظم تک کا سفر، یہ سب فضل عطاء خداوندی ہیں، سیاسی جماعتوں اور طاقتوروں نے اس کو تلوار بنا کر لوگوں کے گلے کاٹنا شروع کر دئیے ہیں اور پھر خود کو قوم کا لیڈر کہتے ہیں، طیب اردگان کا بھائی آج بھی روڈ پر کھڑا مزدوری کرتا ہے اور ہمارے قائدین کے رشتہ داروں اربوں کے مالک بن چکے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button