پاک چین سدا بہار دوستی، ہر لمحہ مسلسل بڑھتے تعلقات

اے آر انصاری
پاکستان اور چین کے تعلقات کو مضبوط سیاسی، اقتصادی اور فوجی تعلقات کی وجہ سے اکثر ’’ سدا بہار اور ہر آزمائش پر پوری اترنے والی دوستی‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ دوستی کئی دہائیوں سے مسلسل اور ہر لمحہ پروان چڑھی ہے، جبکہ باہمی مفادات اقتصادی ترقی، فوجی اور دفاعی شعبوں میں تعاون پر مبنی ہے، اور بنیادی تعمیراتی ڈھانچے کے منصوبوں، ثقافتی تبادلوں اور عوام سے عوام کے رابطوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، چین میں پاکستانی طلبا کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں رہنے اور کام کرنے والے چینی تارکین وطن میں اضافہ اور تعلقات مضبوط ہوئے ہیں تاہم اس کے باوجود، پاکستان اور چین کے تعلقات میں چینی قرضوں اور سی پیک کے تحت سرمایہ کاری کی شرائط و ضوابط کے بارے میں چیلنجز کا سامنا ہے، جس کی وجہ پاکستان پر قرضوں کی بڑھتے ہوئے بوجھ اور سرحدی علاقے میں سکیورٹی خدشات ہیں۔ چین بین الاقوامی فورمز بالخصوص کشمیر سے متعلق مسائل پر پاکستان کا مضبوط اتحادی رہا ہے۔ چین نے کشمیر کے تنازعہ پر ہمیشہ ہر فورم پر پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے اور چین نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں پاکستان کو سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ہونے دیا۔ چین بیجنگ میں اپنا تیسرا بیلٹ اینڈ روڈ فورم منعقد کر رہا ہے جس میں130 سے زائد ممالک کے نمائندے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کی 10ویں سالگرہ میں شرکت کر رہے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو ( بی آر آئی) چین کی طرف سے شروع کیا گیا ایک وسیع تعمیراتی ڈھانچے اور اقتصادی ترقی کا منصوبہ ہے جس کا مقصد سڑکوں، ریلوے، بندرگاہوں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کا ایک ایسا نیٹ ورک بنانا ہے جو چین کو یورپ، افریقہ اور ایشیا کے دیگر حصوں سے ملائے گا۔ سی پیک بی آ ر آئی اقدام کا ایک اہم منصوبہ ہے۔ اس ضمن میں بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں ہائی ویز، ریلوے، پائپ لائنوں کی تعمیر اور اسٹریٹجک گوادر پورٹ کی ترقی شامل ہے۔ دنیا نے 1979ء میں دنیا کی بلند ترین اور سب سے شاندار بین الاقوامی سڑکوں میں سے ایک شاہراہ قراقرم کی تکمیل کو دیکھا جو چین کی پاکستان کے ساتھ سدا بہار دوستی کے ثبوت کی بھی مظہر ہے۔ پاکستان اور چین کو جوڑنے والی یہ شاہراہ دنیا کے بلند ترین اور چیلنجنگ انجینئرنگ کارناموں میں سے ایک ہے۔ تزویراتی اہمیت کی حامل قراقرم ہائی وے چین کو گوادر کے راستے بحیرہ عرب تک رسائی فراہم کرتی ہے اس لیے یہ شاہراہ چین کے توانائی اور تجارتی مفادات کے لیے بہت ضروری ہے۔ قراقرم ہائی وے اسلام آباد کے قریب حسن ابدال سے سنکیانگ کے چینی شہر کاشغر تک تقریبا 1300کلومیٹر 810میل تک پھیلی ہوئی ہے۔ قراقرم ہائی وے کو سخت اور شدید موسم ، خاص طور پر سردیوں میں، اور قدرتی آفات کی وجہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور سڑکوں کی بندش جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم، انوار الحق کاکڑ، کا دورہ چین سی پیک منصوبوں کے لیے ایک نئے دور کا آغاز ہے، خاص طور پر تھاکوٹ۔ رائے کوٹ سیکشن کی تیز رفتاری سے تعمیر نئے دور کی شروعات ہیں۔ تھاکو ٹ رائے کوٹ سیکشن والی سڑک قراقرم ہائی وے کا ایک اہم حصہ ہے، جو اپنے تنگ موڑوں اور سفری دورانیہ کے لحاظ سے اہم ہے۔ اس شاہراہ پر سفر کا دورانیہ کم کرنے اور مسافروں و گاڑیوں کی سلامتی بڑھانے کے لیے، جدید ترین سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ سڑک کی درجہ بندی کو کلاس 4سے کلاس 2تک بڑھایا جائے گا، جس سے نہ صرف اس کے معیار میں اضافہ ہو گا بلکہ گاڑیوں کی رفتار کی حد کو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی، اس طرح یہ سڑک تیز تر اور زیادہ موثر سفر کی سہولت کو یقینی بنائیگی۔ اس سفری پیش رفت سے ان علاقوں کی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ یہ کارگو ٹرانسپورٹ میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اسے زیادہ موثر اور کم لاگت بنایا گیا ہے۔ بہتر روڈ نیٹ ورک سے بھاری کارگو کے وزن کے باوجود، سامان کی نقل و حمل میں زیادہ آسانی اور کفایت شعاری میں مدد ملے گی۔ قراقرم ہائی وے کی اس تاریخی شراکت کی ایک نمایاں اور خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک سڑک سے زیادہ دوستی، تعاون، اور ایک روشن، زیادہ باہم مربوط مستقبل کے لیے مشترکہ وعن کی نشانی اور واضح علامت ہے۔ ہائی وے ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر کا قیام بھی ایک اہم پراجیکٹ کے طور پر ہے جو وزیر اعظم کاکڑ کے دورے کی بنیادی اور خاص بات ہے ۔ یہ پراجیکٹ بھی نمایاں طور پر مرکزی مرحلے کو لے رہا ہے۔ چین کی حکومت کے ساتھ 2023ء سے 2027ء تک ایک امید افزا مشترکہ تحقیقی پروگرام کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے، جس کا مقصد ہائی وے انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں تعاون اور جدت کو فروغ دینا ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ چین کے دوران مشترکہ تحقیق میں توسیع کی ایک باضابطہ یادداشت کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اس پروگرام کا مقصد ہائی وے انجینئرنگ کے مختلف شعبوں میں تعاون اور جدت کو فروغ دینا ہے۔ یہ توسیع سڑک کے بنیادی ڈھانچے میں تعاون کی بنیاد کے طور پر تیار ہے جبکہ نیشنل ہاءی وے اتھارٹی اس طرح کے تعاون کا ایک اہم کردار ہے۔ 15ارب روپے کی چینی گرانٹ کے تحت چینی کنٹریکٹر؍ کنسلٹنٹ کے ذریعے 530ایکڑ پر پھیلے ہائی وے ریسرچ اینڈ ٹریننگ سینٹر کی تعمیر پر اتفاق کیا گیا ہے۔ اس میں بنیادی ڈھانچہ، ایک ٹیسٹ ٹریک، اور انڈور اور آئوٹ ڈور لیب کا سامان شامل ہے جو مکمل ہونے اور مطلوبہ تربیت کے بعد آپریشن کے لیے این ایچ اے کے حوالے کر دیا جائے گا۔ ری کلیمڈ اسفالٹ، پلوں کی تعمیر اور سرنگوں کے مختلف تحقیقی منصوبے، چین میں تربیتی اور ڈگری کورسز، انجینئرنگ ڈیزائن مینوئل کی ترقی اور پاکستان کے لیے معیارات اس منصوبے کے کچھ اہم اہداف ہیں۔ پاکستان اور چین کے تعلقات مسلسل بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے مطابق ڈھا لے جانے اور نئی بلندیوں تک لے جائے جانے کے لیے تیار ہیں۔ تعلقات کو گہرا کرنے اور پائیدار امن کو فروغ دینے کے مشترکہ عزم کے ساتھ، چین کے ساتھ ہماری یہ دوستی تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں استحکام کا ایک سنگ میل ہے۔ پاک چین تعلقات ایک زبردست کیس سٹڈی کے طور پر کام کرتے ہیں کہ کس طرح قومیں پرعزم شراکت داری، سرحدوں سے ماورا خوشحالی اور ترقی حاصل کر سکتی ہیں۔





