
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم سائفر کا مقدمہ خارج کرنے اور سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کے لیے حکم امتناع کی درخواست پر لطیف کھوسہ نے دلائل مکمل کر لیے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ پٹیشنر کو آئین کے آرٹیکل 248 کا استثنا حاصل ہے اس وجہ سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور اس کی سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ انھوں نے ریمارکس دیے کہ وزیر اعظم کی ذمہ داری تھی کہ معلومات پبلک کے ساتھ شیئر کرتے۔
لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہا ایک پوائنٹ یہ بھی ہے کہ سائفر کابینہ میٹنگ میں ڈی کلاسیفائی ہو چکا تھا۔ عدالت نے ایف آئی اے پراسیکیوٹرز سے دلائل طلب کر تے ہوئے سماعت میں وقفہ کر دیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس خارج کرنے اور ٹرائل روکنے کی درخواست پر سماعت کی۔
پٹیشنر کی جانب سے سردار لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا سائفر کو وفاقی کابینہ نے ڈی کلاسیفائیڈ کردیا تھا۔ ڈونلڈ لو نے اس ملک کے وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے دھمکی دی تھی، یہ تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی گئی، جس پر پاکستان نے امریکا سے احتجاج کیا۔
انھوں نے کہا کہ اس دوران ڈونلڈ لو کے کہنے پر وزیراعظم کی چھٹی کرا دی جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر ساتھ لے گیا مضحکہ خیز ہے۔
انھوں نے کہا کہ سائفر چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس نہیں، وزارت خارجہ میں موجود ہے۔ سائفر کے لفظ کا ذکر آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں نہیں ہے، صرف کوڈ کی بات کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ سائفر کا کوڈ ملزم نے نہیں بلکہ خود استغاثہ نے ایف آئی آر میں ظاہر کیا۔ یہ اب اعظم خان کا بیان لے کر آ گئے ہیں جو تین ہفتے لاپتہ رہا۔
وکیل نے کہا کہ سائفر کیس میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور اس کی سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا۔ یہاں انھوں نے بڑی آسانی سے اعلان کر دیا کہ اس کیس میں سزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ملک کے خلاف کوئی سازش ہو تو عوام کو بتانا وزیر اعظم کا کام ہے۔







