ایک اور شکست کی تیاری کریں

تحریر : سیدہ عنبرین
ورلڈ کپ کرکٹ کے ایک اہم میچ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو بھارتی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا، پاکستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے شکستوں کا موسم ہے، میدان کھیل کا ہو، قانون کا ہو، اقتصادیات کا ہو، پاکستان ہر میدان میں پٹ رہا ہے، جبکہ شرمناک پٹائی اور شکستہ پر کوئی شرمندہ ہے نہ اس کی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔ اولمپکس میں ہماری وہ درگت بنی کہ کسی نے کبھی سوچا نہ تھا، ہاکی کے میدان کے ہم کبھی بادشاہ تھے، اس برس ہمیں ایک میچ میں دس گولز سے شکست ہوئی۔ مخالف ٹیم کی مہربانی کہ اس نے مزید ایک گول کرکے گیارہ کھلاڑیوں کو ایک ایک گول کا تحفہ نہیں دیا اور دو مزید گول کرکے اخبارات کی سرخی بنانے سے گریز کیا۔ سرخی ہوتی دنیائے ہاکی کے بادشاہ کو درجن گولز سے شکست۔ بھارت کے ہاتھوں ہمیں کرکٹ کے میدان میں پہلی شرمناک شکست نہیں ہے، ہم اس سے قبل بھی یہ ذائقہ چکھ چکے ہیں، کبھی دل جیتنے کے چکر میں میچ ہارے، کبھی کسی کے حکم پر جیتے ہوئے میچ ہار گئے تاکہ کرکٹ ڈپلومیسی کو شکست سے بچایا جاسکے۔ کبھی ان کے اشاروں پر میچ ہارنے کی خبریں سنائی دیں جو خود میچ نہیں کھیلتے بلکہ دنیا بھر کو میچ کھلاتے ہیں، بری طرح میچ ہارنے کے حوالے سے خبر گردش میں ہے کہ صرف ایک اس میچ پر تیس ارب روپے کا جوا کھیلا گیا، یہ منافع کس کس کی جیب میں گیا سب کو معلوم ہونے کے باوجود کسی کو معلوم نہ ہوسکے گا، دلچسپ بات یہ ہے کہ جوا ہارنے والے بھی جانتے ہیں انہیں کسی نے ہروایا مگر وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور آئندہ میچ کیلئے بجٹ مختص کر دیتے ہیں، انہیں اُمید ہوتی ہے کہ اس مرتبہ میچ ان کے حق میں پلٹایا جائے گا جو کبھی نہیں ہوتا۔ کرکٹ جوئے کا سنہری اُصول ہے، میچ جیتنے کیلئے فیورٹ ٹیم آخر میں ہار جاتی ہے، یوں ہزاروں افراد لٹ جاتے ہیں، جنہوں نے فیورٹ ٹیم کے حق میں بازی لگائی ہوتی ہے، جوا کرانے والے مافیا کا مقصد اس کام کے ذریعے غریبوں، مسکینوں کی مدد کرنا نہیں بلکہ اُن کی جیبیں خالی کرانا ہوتا ہے، وہ ہمیشہ اپنے منصوبے میں کامیاب رہتے ہیں۔ فیورٹ ٹیم شکست کھا جائے تو مافیا جیت جاتا ہے، جیت کا مال طے شدہ اُصولوں کے مطابق تقسیم ہوتا ہے، بددیانتی کا کاروبار نہایت دیانتداری سے کیا جاتا ہے، مافیا اپنی کمائی میں سے ہارنے اور جیتنے والی ٹیم کے اہم کرداروں میں حصہ بقدر جثہ تقسیم کرنا نہیں بھولتا ، اس حوالے سے کرکٹ کے ایک مرد مجاہد کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، وہ سائوتھ افریقہ کرکٹ کے سابق کپتان ہسنی کرونیئے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگی میں اعتراف کیا کہ ورلڈ کپ کرکٹ کے اہم میچوں میں جوا مافیا روپیہ تقسیم کرتا ہے، میچ فکس ہوتے ہیں، فیورٹ ٹیم میچ ہارتی ہے، دو نمبر کی ٹیم اپنا اہم میچ جیتتی ہے، ہر کام کا معاوضہ مقرر کیا جاتا ہے اور مزدور کا پسینہ بہنے سے پہلے اس کا حق ادا کر دیا جاتا ہے، ہسنی کرونیئے نے کمال جرات کا ثبوت دیتے ہوئے اعتراف کیا تھا کہ اُنہوں نے بھی اس بہتے ہوئے دریا سے کچھ چلو پئے تھے۔ ان کے بیان کے بعد کرکٹ کی دنیا میں کہرام مچ گیا، درجنوں افراد کے رنگ اُڑ گئے، ان کی ٹانگیں کانپنے لگیں، کچھ ذمہ داران کو دل کے دورے پڑ گئے، میڈیا ہسنی کرونیئے کے سچ بولنے پر ان سے مزید سچ بولنے کیلئے ان کے پیچھے تھا، جب کہ جوا مافیا اور کئی ملکوں کے کرکٹ بورڈز کے سربراہ ان کے قدموں میں سر ڈالے بیٹھے تھے کہ خدارا ان پر رحم کیا جائے اور زبان بند رکھی جائے، اعتراف گناہ کے کچھ ہفتوں بعد ہسنی کروینئے ایک طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگئے اور جوا مافیا اور میچ فکسنگ کے کئی ذمہ داروں کے نام ان کے ساتھ ہی دفن ہوگئے، وہ حادثے میں ہلاک نہ ہوتے تو قتل کر دیئے جاتے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی بھارتی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں شکست کے اسباب کبھی سامنے نہ آئیں گے، نیب سطح پر ایسی باتوں کی انکوائری کا ہمارے یہاں رواج نہیں ہے، پھر کسی کو کیا پڑی ہے وہ خوامخواہ سر پھٹول کرتا پھرے، اس سے بہتر ہے کہ وہ بھی اس موج میلے میں شریک کار بنے اور عیش کرے۔ مذکورہ کرکٹ میچ میں شکست کی جو وجوہات ٹیم کے ڈائریکٹر نے بیان کی ہیں، وہ نہایت دلچسپ ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میچ کے موقع پر زیادہ تر تماشائی بھارت سے تعلق رکھتے تھے اور اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ ہمارے حق میں نعرے لگانے والے کم تھے، اس احمقانہ تاویل کو
پیش کرنے والے کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ میچ بھارت میں بھارتی شہر میں ہورہا ہے، جہاں تماشائیوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق بھارت سے ہی ہوگا، پاکستان سے میچ دیکھنے والوں کو ٹرکوں اور بسوں میں بھر بھر کر احمد آباد نہیں لے جایا جاسکتا تھا کہ وہ پاکستان کے حق میں نعرے لگانے والوں کی کمی کو پورا کریں، شکست کی دوسری وجہ بیان کرتے ہوئے ٹیم ڈائریکٹر نے فرمایا کہ میدان کے اندر موجود بینڈ بھارتی ٹیم کیلئے بھارتی نغمے بجا کر ان کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا۔ اُنہوں نے پاکستانی نغمے نہیں بجائے، اس سے پاکستان کھلاڑی اچھا کھیل پیش نہ کر سکے، پاکستانی میوزک نہ بجائے جانے سے کارکردگی متاثر ہونے کے بیان سے گمان ہوتا ہے کہ ٹیم ڈائریکٹر ٹیم سلیکٹرز اور دیگر ذمہ داروں نے اس اہم ٹورنامنٹ کے شروع ہونے سے قبل کھیل کی پریکٹس کرانے کی بجائے ٹیم ممبران کو شاید سپیروں کے حوالے کر رکھا تھا، جو بین بجاتے اور ٹیم کے کھلاڑی اس پر رقص کرتے تھے، بدترین شکست کے بعد بھی اس اُمید کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ہم بھارت کے ساتھ یا کسی بھی اور ٹیم کے خلاف فائنل کھیلیں گے۔ ٹیم اپنی کارکردگی سے تو فائنل تک پہنچنے سے رہی، البتہ اور کئی عوامل ہیں جن کے بل بوتے پر ٹیم فائنل تک پہنچ سکتی ہے بلکہ جیت بھی سکتی ہے، یہ راز اب راز نہیں کہ پاک بھارت میچ دنیائے کرکٹ کا مقبول ترین اور منافع بخش ترین میچ ہوتا ہے، نصف صدی قبل یہ اعزاز آسٹریلیا اور انگلینڈ کی ٹیموں کو حاصل تھا اس زمانے میں کرکٹ کا میرٹ تھا اور کرکٹ صرف کھیل تھا، انڈسٹری نہیں بنا تھا، اب تو لگتا ہے جسے عالمی مقابلہ حسن کیلئے سٹیج کے پیچھے اور مقابلے سے پندرہ روز قبل جو کچھ ہوتا ہے، وہی ورلڈ کرکٹ میں ہوتا ہے۔ اب ایک نیا بیان آئے گا کہ کھیل میں ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے، کسی ایک ٹیم کو تو ہارنا ہی ہوتا ہے، مقام افسوس ہے ہار ہر مرتبہ ہمارے حصے میں کیوں آتی ہے، ہم نے اسی سپورٹس مین اسپرٹ میں پہلے مشرقی پاکستان ہار دیا، پھر کشمیر، ان سانحات کے مقابلے میں کرکٹ میچ ہار جانا کوئی بڑا المیہ نہیں، بس دل چھوٹا نہ کریں، ایک اور شکست کی تیاری کریں، شیر آرہا ہے، اس سے بڑی شکست اور کیا ہوگی۔





