نگران وزیر اعظم کا دورہ چین

ظہیر الدین بابر
انوارالحق کاکڑ کا دورہ چین یوں اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ اس دورے کے دوران دونوں ملکوں میں 15معاہدوں اور ایم او یوز پر دستخط ہونے کے واضح امکانات ہیں، حکومتی ذرائع بتا رہے ہیں کہ پاکستان اور چین میں 6.67ارب ڈالر کے ایم ایل ون ریلوے منصوبے پر دستخط ہونگے ، یاد رہے کہ ایم ایل ون ریل کی رفتار پہلے ہی 160کلومیٹر سے کم کرکے 120 کلومیٹر فی گھنٹہ کردی گئی ہے، حکومتی ذرائع نے یہ خوشخبری بھی سنائی کہ چین نے ایم ایل ون ریلوے منصوبے کے ترمیمی معاہدے پر رضامندی ظاہر کر چکا، نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کے دورے کے دوران گدھوں کی کھال ایکسپورٹ کرنے کے پروٹوکول معاہدے پر بھی دستخط ہونگے، سی پیک کے تحت گودار کے لیے گودار کی اربن ڈویلپمنٹ کے معاہدوں پر بھی دستخط ہونے کے روشن امکانات ہیں، وزیر اعظم پاکستان کے دورے چین میں ڈیری مصنوعات اور گوشت ایکسپورٹ کرنے کے معاہدوں پر بھی عملا پیش رفت ہوگی، حکام کی طرف سے پاکستان اسپیس سینٹر منصوبے پر دستاویزی پیش رفت کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، تاریخی طور پر پاک چین دوستی کی بنیاد 21مئی 1951 کو ہوئی ، دراصل مسلم دنیا میں پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جس نے چین کو تسلیم کیا ، بیجنگ نے بھی پاکستان کے اس خیر سگالی کے جذبہ کو فراموش نہ کیا اور پھر آئندہ ماہ و سال میں دونوں ملکوں کے تعلقات نئی بلندیوں سے ہمکنار ہوئے ، 1962میں چین کے ہاتھوں بھارت کی شکست نے جنوبی ایشیائی میں کئی تبدیلیوں کی بنیاد رکھی ، اسی دوران پاکستان اور چین میں سرحد بندی کے معاملات پر بات چیت کا آغاز کیا گیا، بیجنگ کی جانب سے مذکورہ معاملہ کو آگے بڑھانے کا مقصد یہ تھا کہ چین ہمسایہ ملکوں کے ساتھ گرم جوش تعلقات کی بنیاد رکھے جو خطے میں دیرپا امن کے قیام میں معاون ثابت ہوں ۔ ادھر امریکہ کی جانب سے بھارت کو فوجی امداد دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس سے تاثر ملا کہ واشنگٹن نئی دہلی کو چین اور پاکستان سے مقابلہ کرنے کے لیے تیار کر رہا ہے، سرحدی حد بندی کے معاہدے پر پاکستان اور چین کے درمیان مارچ 1963میں دستخط ہو گئے جو یقینا اس بات کا ثبوت تھا دونوں ملکوں میں اعتماد کی مثالی فضا پائی جاتی ہے، مذکورہ معاہدے کے تحت پاکستان کو 1942کلومیٹر کا سرسبز علاقہ ملا جس پر بھارت کی جانب سے بلاوجہ اعتراض کیا گیا ، اسی دوران پاکستان اور چین کے درمیان ڈھاکہ شنگھائی فضائی سروسز کا قیام عمل میں لایا گیا، 1965کی جنگ میں چین نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بھارت پر دبائو برقرار رکھا، مثلا 16ستمبر 1965کو چین نے بھارت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر اس نے تین دن کے اندر چینی سرحد سکم سے اپنی فوجیں نہ ہٹائیں تو نتائج کا ذمہ دار وہ خود ہوگا، مبصرین کے مطابق یہی وہ اقدام تھا جس کے نتیجے میں امریکہ اور روس پر دبائو بڑھا کہ وہ پاکستان اور بھارت میں جنگ بندی کرائیں ، تاریخی سچ یہی ہے کہ چین نے مشکل کی ہر گھڑی میں پاکستان کی مدد کی ، مثلا 1966میں جب امریکہ نے پاکستان کو جنگی ہتھیاروں کی ترسیل بند کی تو چین نے آگے بڑھ کر اسلام آباد کی ضرورت پوری کرنے کی کامیاب کوشش کی، ان ہی دنوں میں یوم پاکستان کے موقع پر ایم آئی جے 15 جیسے چینی ساختہ ہتھیاروں کی نمائش کی گئی جسے دونوں ملکوں میں بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کے طور پر دیکھا گیا، اسی سال چین نے پاکستان اور چین کے درمیان 120ملین کی فوجی امداد پر دستخط ہوئے جو بیجنگ کی جانب سے بھارت کے لیے دو ٹوک پیغام تھا کہ اب چین پاکستان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے، ان ہی دنوں شاہراہ ریشم کے ذریعے پاکستان اور چین کا آپس میں جڑنا بھی کلیدی اہمیت کا حامل ثابت ہوا، چین کے صوبے سنکیانگ کو وادی ہنزہ سے ملا دیا کے دور رس اثرات مرتب ہوئے، بعد ازاں شاہراہ قراقرام کے ذریعے پاکستان اور چین کا مل جانا بھی دونوں ملکوں کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی روابط کو بڑھا گیا، تاریخی بتاتی ہے کہ چین نے خود کو پاکستان کا ایسا دوست ملک ثابت کیا ہے جو اسلام آباد کی معاشی اور فوجی استعداد بڑھانے میں ہمیشہ پیش پیش رہا ، بیجنگ کی اب تک کی پالیسی محض یہ ہی نہیں وہ مختلف شعبوں میں پاکستان کو امداد کا سلسلہ جاری و ساری رکھے اس کے برعکس دیرینہ دوست کی حیثیت سے چین عالمی سطح پر پاکستان کے باوقار کردار کا خواہشمند بھی ہے ، اس سچائی سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا کہ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ دراصل دونوں ملکوں کے دیرینہ تعلقات سے نہ صرف آگاہ ہیں بلکہ ان کو وسعت دینے سے پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں، نگران وزیر اعظم با خوبی آگاہ ہیں کہ دنیا میں طاقت کا توازن بدل رہا ہے، اب یہ حیران کن نہیں رہا کہ آئندہ برسوں میں چین اقوام عالم میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر جائے، عصر حاضر میں بھی امریکہ سمیت اہم مغربی ممالک چینی کی سیاسی اور معاشی طاقت کے معترف ہیں چنانچہ دنیا کو درپیش تنازعات کے حل کے لیے چینی نقطہ نظر کو کلیدی اہمیت دی جاتی ہے ، ماہرین کے مطابق نگران وزیر اعظم کا دورہ چین دراصل پاکستان کے لیے ایسے مواقع پیدا کر سکتا ہے جو ہماری معاشی ہی نہیں سیاسی خودمختاری کے لیے بھی سنگ میل ثابت ہوں۔





