سیاسی رہنمائوں کی مقبولیت

امتیاز عاصی
سیاست دانوں کی مقبولیت عوامی حمایت کی مرہون منت ہے۔ عوام سیاست دانوں کو پسند نہ کریں خواہ وہ کتنا تیس مار کیوں نہ ہو سڑکوں پر نہیں نکلتے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے عمران خان دور کا جائزہ لیا جائے تو سیاست دانوں نے سبز باغ دکھانے کا جو سلسلہ جاری رکھا عوام کی اکثریت سیاست دانوں سے مایوس ہو چکی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا دور ہماری جوانی کا زمانہ تھا ۔بھٹو کے جلسوں میں عوام بغیر کسی ریلی اور جلسے کا انعقاد کئے جوق در جوق چلے آتے تھے ۔ بھٹو میں لاکھ برائیاں ہوں گی وہ لوٹ مار پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ ان کے روٹی کپڑے اور مکان کے بیانیے نے انہیں شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا ۔بھٹو کی شہادت کے بعد ملک طویل عرصے تک مارشل لاء کی لپیٹ میں رہا۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو کوڑوں کی سزا اور جیلوں میں رکھنے کے باوجود بھٹو کی پارٹی زندہ ہے۔یہ اور بات ہے بے نظیر بھٹو کی شہادت اور آصف زرداری کے خلاف مقدمات نے پارٹی کوسندھ تک محدود کر دیا ورنہ ایک وقت تھا جب عوام چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر کا نعرہ لگایا کرتے تھے ۔جنرل ضیاء الحق کے غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں سندھ سے ایک راست باز سیاست دان محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنایا گیا جس کی حکومت زیادہ دیر تک نہیں چل سکی ۔ یہ جنرل ضیاء الحق کے ایک جنرل نے شریف خاندان کے نواز شریف کو سیاست میں متعارف کرایا پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ مقتدر حلقوں کا پسندیدہ بن گیا۔تین مرتبہ وزارت عظمیٰ پر رہنے کے بعد دو مرتبہ ملک سے باہر چلا گیا ۔بے نظیر بھٹو دو مرتبہ اقتدار میں رہنے کے باوجود پیپلز پارٹی کی عظمت رفتہ بحال کرنے میں ناکام رہیںجس کی وجہ پیپلز پارٹی عوام کے گونا گوں مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔جلاوطنی کے بعد ملک واپس آئیں تو کراچی میں کارساز اور لیاقت باغ کے جلسوں نے عوام کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔یہ تھی بے نظیر بھٹو کی عوام میں مقبولیت ۔اب نواز شریف وطن واپس آرہے ہیںان کی بیٹی مریم نواز شہر بہ شہر اور قریہ قریہ نواز شریف کے استقبال کی عوام سے بھیک مانگ رہی ہیں۔ مریم نواز کا دعویٰ ہے نواز شریف ملک کو بحرانوں کو نکالیں گے بلکہ معاشی صورت حال بہترکریں گے۔تعجب ہے نواز شریف نے معاشی صورت حال کی بحالی کا وہ نسخہ کیوں مخفی رکھا ہوا ہے۔نواز شریف کو ملک وقوم کا درد رہوتا وہ فارمولا اپنے بھائی شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کے دوران انہیں بتا دیتے تو غریب عوام کو نہ مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتااور نہ معاشی حالات اتنے خراب ہوتے۔ملک وقوم کی بدقسمتی ہے مبینہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو سزائیں دینے کی بجائے چھوڑ دیا جاتا ہے ۔کرپشن میں ملوث افراد پری بارگین کرنے کے بعد رہا ہو جاتے ہیں۔عجیب تماشا ہے ہونا تو چاہیے لوٹ مار کی دولت کی واپسی کے باوجود کرپشن میں ملوث لوگ جیلوں میں رہیں تاکہ دوسرے لوگ عبرت حاصل کریں۔ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کرپشن کرنے والوں چھوڑ دیا جاتا ہے اور غریب اور بے سہارا لوگوں کو جرم کی پاداش میں جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔یہ مسلمہ حقیقت ہے عوا م سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں بلکہ عملی طور پر کام کرنے والوں کو منتخب کریں گے۔عمران خان کا دور کوئی مثالی نہیں رہا ہے، مہنگائی اور بے روز گاری کے باوجود عوام کو موجودہ مہنگائی کے مقابلے میں زیادہ مہنگائی کا سامنا نہیں تھا ۔ بیرون ملکوں سے ترسیلات زر توقع سے زیادہ اور برآمدات حوصلہ افزاء تھیں۔ پی ڈی ایم کے اقتدار میں آنے سے ترسیلات زر کے ساتھ برآمدات میں کمی آگئی اور مہنگائی نے عوام کا جینا حرام کر دیا۔نواز شریف کے بھائی شہباز شریف نے عوام سے اپنے کپڑے بیچ کر سستا آٹا فراہم کرنے کا وعدہ کیا جسے وہ پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہے۔عوام سیاست دانوں کی کن کی باتوں پر یقین کریں ۔نواز شریف کی وطن واپسی کے موقع پر میڈیا پربے تحاشا پیسہ خرچ کیا جا رہا ہے ۔وہ نجی چینلز جومسلم لیگ نون کو چند ساعتوں کی
کوریج نہیں دیا کرتے تھے وہ منٹوں میں بدل گئی ہے۔ آخر کوئی وجہ تو ہے پرائیویٹ چینلز کی پالیسی میں تبدیلی آئی ہے۔بعض حلقوں کے خیال میں عمران خان ملک چھوڑ جائے گا وہ ملک چھوڑ کر جانے والا نہیں بلکہ اپنی مخالف جماعتوں کے سامنے چٹان کی طرح کھڑا ہے ۔گو عمران خان عوام کی امیدوں پر پورا اترنے میں ناکام رہا ہے ۔ایک بات ضرور ہے اس کے خلاف کرپشن کا کوئی مقدمہ سامنے نہیں آیا ہے۔ عوام کی اکثریت اسی لئے اس کے ساتھ ہے۔عمران خان کا پیر کامل ہے جس نے اسے قید وبند کی پروا نہ کرنے کا نسخہ بتایا ہے۔ عمران خان ملک چھوڑجاتا تو اس کی مقبولیت برقرار نہیں رہ سکتی تھی اس کی سیاست کا دھڑن تختہ ہو جاتا۔عمران خان کے جیل جانے کے بعد جے یوآئی کے امیر فضل الرحمان انہیں جیل یاترا کا طعنہ دے رہے ہیں ۔ان کا دعویٰ ہے ان کا مخالف باہر ہوتا وہ جلسوں کا انعقاد کرتے۔ مولانا کو اپنی مقبولیت کا آنے والے انتخابات میں علم ہو جائے گاانہی خدشات کے پیش نظر وہ انتخابات کو کسی بہانے التواء میں لے جانے کے لئے کوشاں ہیں۔کرپٹ سیاست دانوں بارے عوام کو بیدار کرنے کا سہرا عمران خان کے سر ہے ۔عمران خان کے مخالفین کچھ بھی کہیں قوم کو اس نے شعوردیا۔ نواز شریف عوام میں مقبول ہوتے تو مسلم لیگ نون کو قریہ قریہ جلسے اور ریلیوں کی ضرورت نہیں تھی۔وہ مینا ر پاکستان کے جلسہ میں لوگوں کو جمع کر بھی لیں انتخابات میں نواز شریف کی مقبولیت کا علم ہو جائے گا۔عوام کو موٹر سائیکلوں کا لالچ دے کر جلسہ گاہ آنے کی دعوت دینے والے عوام میں مقبول نہیں ہوتے ۔تاسف ہے ملک میں نہ کوئی قانون ہے اورنہ انصاف ۔عدالتی نظام ٹھیک ہوتا تو کرپٹ سیاست دانوں کو کب کی سزائیں ہو چکی ہوتی۔ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کے مقدمات التواء میں رکھ لئے جاتے ہیں مقدمات تیزی سے سماعت ہوتے ہیںتو جیلوں میں ہوتے۔ یہی تو اس ملک کا المیہ ہے۔





