دل میں کیسے جھانکیں

سیدہ عنبرین
دنیا ایک حیرت کد ہ ہے یہاں حیرتناک واقعات وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں، سپیس، سائنس اور میڈیکل کے شعبے میں تحقیق پر بہت کام ہو رہاہے، اس کی وجوہات عام فہم ہیں، سو برس بعد کی سوچ رکھنے والے سوچ رہے ہیں کہ انسانی زندگی کیلئے کچھ ضروری اشیا کے ذخائر زمین پر قریب الختم ہیں لہذا دوسری دنیائوں میں جاکر ان کی تلاش کی جائے کہ ہماری ضرورت کی کیا چیز کہاں موجود ہے، آبادی میں اضافے نے بھی دنیا کو پریشان کر رکھا ہے۔ جیتنے لوگ روز دنیا میں مرتے ہیں اس سے کچھ ہی زیادہ پیدا ہوتے ہیں، پس ایک سوچ یہ بھی ہے کہ زیادہ آبادی کو کنٹرول کیا جائے تاکہ موجودہ وسائل اس وقت تک کام آتے رہیں جب تک مزید وسائل دریافت نہیں ہو جاتے، آبادی میں کنٹرول کیلئے ادویات کی بہت بڑی کھیپ مارکیٹوں میں دستیاب ہے لیکن ان ادویات کے زیادہ استعمال کے انسانی صحت پر مضر اثرات پڑتے ہیں، جن میں ایک عجیب الخلقت ولادتیں ہیں۔
لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں ایک نومولود بچے کو لا یا گیا جس کا دل جسم کے اندر ہونے کی بجائے جسم سے باہر تھا، ماہرین زچہ بچہ کا خیال تھا کہ اگر کچھ عرصہ دل نے درست انداز میں کام جاری رکھا تو کسی مناسب وقت پر وہ اس بچے کے دل کو دل کی جگہ رکھنے کیلئے آپریشن کرینگے۔ بچے کے علاج کیلئے اس کے والدین نے حکومت سے اپیل کی ، جس پر وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے فوراً احکامات جاری کئے، بچے کا علاج سرکاری خرچ پر ہونے لگا لیکن ناکافی سہولتوں کے باعث بچے کے جسم میں انفیکشن پھیل گیا، جسے کنٹرول نہ کیا جا سکا، یوں بچہ انتقال کر گیا، بچے کو بچا لیا جاتا اور اس کے دل کو سینے میں کامیابی کے ساتھ منتقل کر دیا جاتا تو یہ پاکستان ڈاکٹرز اور سرجنز کا یقیناً بڑا کارنامہ ہوتا۔
فرض کر لیجئے دل اپنا کام درست انداز میں جاری رکھتا، بچہ کچھ بڑا ہو جاتا، ڈاکٹر اس کے دل کو سینے میں منتقل نہ کر پاتے تو ایک اور مرحلہ درپیش ہوتا، بچے کو عمر بھر دل ہاتھ میں لئے پھرنا پڑتا، وہ اپنا دل کسی کو دے سکتا تھا نہ کسی کا دل لے سکتا تھا، وہ کسی کا دل کیوں لیتا، اس سے اپنا دل ہی بہ مشکل نہ سنبھلتا، اسے کوئی اپنا دل صرف اس بنا پر دینا گوارہ نہ کرتا کہ یہ تو اپنا دل ہر وقت ہاتھ میں لئے پھرتا ہے، بچہ زندگی میں یہ کٹھن وقت آنے سے قبل ہی دنیا سے رخصت ہو گیا، اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین انداز میں خلق کیا ہے، اگر وہ پسند کرتا اور بہتر سمجھتا تو ہر شخص کا دل اس کے سینے سے باہر رکھ دیتا اور مزید بہتر سمجھتا تو باقی جسم جیسے ہے ویسا ہی ہوتا، لیکن دل کو ٹرانسپیرنٹ بنا دیتا، یوں ہم سب کو ایک دوسرے کے دل میں جھانک کر معلوم ہو جاتا کہ کس کے دل میں کیا ہے اور اس کی زبان پر کیا ہے، پھر یہ بھی ہو سکتا تھا کہ قدرت سچ اور جھوٹ کی پہچان کیلئے کوئی اس قسم کا پیمانہ بنا دیتی کہ جب کوئی شخص سچ بولے گا تو اس کا دل گواہی دینے کیلئے خوش رنگ نظر آئیگا، جب وہ جھوٹ بولے گا، مکروفریب سے کام لے گا اس کا دل کوئلے کی طرح سیاہ ہو جائے گا۔
اب چونکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے لہذا ہمیں کچھ دیر کیلئے اس بات پر اعتبار کرنا پڑتا ہے جو کوئی اپنے منہ سے کہتا ہے، دل میں جھانکنے کی گنجائش موجود نہیں۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ جو درد دل لیکر ملک سے رخصت ہوئے تھے وہ اس دور سمیت ملک واپس آ رہے ہیں، وہ اپنے رفقاء سے کہتے نظر آتے ہیں کہ ان کا دل زخمی ہے، ان کے دل نے بہت دکھ دیکھے ہیں، مبینہ طور پر انہوں نے اپنے لندن قیام کے دوران درد دل کا علاج نہیں کرایا، لیکن اس علاج کی ایک رپورٹ آنے سے قبل عدالت میں جمع کرائی گئی ہے، تاکہ اس رپورٹ کی بنیاد پر انہیں جیل جانے کی بجائے اپنے سیون سٹار گھر میں منتقل ہونے کی سہولت مل جائے، چاہے اسے سب جیل قرار دے دیا جائے یا اس کا نام جیل رکھ دیا جائے بات ایک ہی ہے۔ جناب نواز شریف کا دل سینے سے باہر ہوتا تو قوم با آسانی جان سکتی تھی کہ ان کے دل میں کیا ہے، ان کے مخالفین ان پر یہ الزام نہ لگا سکتے کہ ان کے پاس قوم کی تقدیر بدلنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، ایک طرف الزام لگتا دوسری طرف وہ ٹی وی کے ٹاک شو میں آکر اپنا دل کھول کر دکھا دیتے کہ یہ دیکھو تقدیر بدلنے کا منصوبہ یہ رکھا ہے، اینکر ان سے سوال پوچھتا کہ جناب آپ اپنا تقدیر بدلنے کا منصوبہ اپنے دل سمیت اپنے بھائی شہباز شریف کو دی دیتے تو ہماری زندگیوں میں وہ دکھ نہ آتے جو گزشتہ اٹھارہ ماہ میں ہمارے نصیب میں سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور ان کی حکومت نے لکھے ہیں، اس سوال کا جواب وہ ایک قہقہہ لگانے کے بعد دیتے کہ دل وہ واحد چیز ہے جو اپنے بھائی کو دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، اس کے لے تو کسی دلدار کا ہونا ضروری ہے۔
پاکستان نژاد ایک برطانوی خاتون ڈاکٹر نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں جناب نواز شریف کی پاکستانی عدالت میں پیش کردہ رپورٹس کو جعلی قرار دیا ہے، انہوں نے کہا ہے کہ وہ عرصہ دراز سے برطانیہ میں مقیم ہیں اور طب کے شعبے سے منسلک ہیں۔ انہوں نے رپورٹس دیکھی ہیں، ان کے مطابق یہ رپورٹس کسی برطانوی ہسپتال کے برطانوی ڈاکٹر نے نہیں لکھیں، انہوں نے کہا کہ وہ سات برس سے ایسی رپورٹس دیکھ رہی ہیں اور خود بھی رپورٹس تیار کرتی ہیں، لیکن وہ یہ سمجھ نہیں پا رہیں کہ ان رپورٹس کو دیکھ کر پڑھ کر ہنسیں یا روئیں، رپورٹس نا مکمل اور خامیوں کا مجموعہ ہیں، پہلی ہی مرتبہ پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ لکھنے والے کو میڈیکل رپورٹ فارمیٹ کا علم ہی نہیں ہے۔ یہ خاص فارمیٹ برطانیہ کے سرکاری اور تمام پرائیویٹ ہسپتالوں میں رائج ہے، جتنے پروسیجر ہوئے ہیں ان کا نام ہی نہیں لکھا گیا کہ کب اور کہاں کیا، کیا ، کیا گیا۔ سمٹمز کا نام لکھا جاتا ہے جو کہ درجنوں قسم کے ہیں وہ نہیں لکھے گئے ہیں۔ ہسپتال کا نام، تاریخ، مریض کا نام سب کچھ ادھورا ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صرف یہ لکھنا کہ چسٹ پین ہے کافی نہیں۔ درد کا نام اور یہ بھی لکھنا ضروری ہے کہ کس قسم کا درد ہے کس وجہ سے ہوتا ہے۔ خاتون محترم کا کہنا ہے کہ جناب نواز شریف کی رپورٹ کے مطابق بائی پاس سرجری ہوئی، ملٹی پی سرجریز ہوئیں، انجو پلاسٹی ہوئی، ایبلیشن ہوئی لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی، جبکہ ان کے خاندان میں کسی کو کرونا ہو جائے، پلاسٹک سرجری ہو یا کوئی چھوٹی سی سرجری ہو تو دنیا بھر میں واویلا ہوتا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ ان کے چاہنے والوں کو چاہئے کہ وہ پوچھیں کہ ہم نے تو صرف پلیٹ لیس کم ہونے کی وجہ سے جناب نواز شریف کو لندن بھیجا تھا لیکن لندن کے ڈاکٹروں نے تو ان کا دل ہی چیر کے رکھ دیا ہے، بلکہ لیرو لیر کر دیا ہے۔ فرض کیجئے کوئی شخص جعلی رپورٹس پر ملک سے باہر جا سکتا ہے تو وہ اسی قسم کی جعلی رپورٹس پر ملک میں واپس کیوں نہیں آسکتا، رپورٹس اس وقت بھی عدالت کے سامنے پیش کی گئی تھیں، آج بھی عدالت کے روبرو ہیں، جو وہ کہیں گے وہی سچ ہو گا۔ ہم دل میں جھانک نہیں سکتے، دل تو سینے میں ہوتا ہے باہر نہیں ہوتا، دل میں کیسے جھانکیں۔





