Column

پچھاوے کا کرب

رفیع صحرائی
جذبات اور عقل کا ہمیشہ سے بَیر رہا ہے۔ جذبات میں جسم کے ساتھ ساتھ دماغ میں بھی ابال آ جاتا ہے اور انسان وہ کچھ کر گزرتا ہے جس کو کرنے کے بارے میں اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ جذبات کے ہاتھوں مغلوب ہو کر انتہائی قدم اٹھانے والوں کو اکثر پچھتاتے ہوئے ہی دیکھا گیا ہے۔ پاسبانِ عقل کا دل پر پہرہ ہو تو انسان بہت سی گمراہیوں سے بچ جاتا ہے۔ اس کے بھٹکنے کے امکانات بہت کم ہو جاتے ہیں۔
ماں باپ نے بڑے لاڈ و پیار سے اس کی پرورش کی تھی، گھر بھر کی لاڈلی تھی۔ باپ کی آنکھ کا تارا تھی تو ماں اسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھی۔ آخر ایسا کیوں نہ ہوتا، شادی کے سات سال بعد اللّٰہ نے اس کی ماں کی گود ہری کی تھی۔
اس کی پیدائش پر بیٹوں سے بڑھ کر خوشی منائی گئی۔ تمام خاندان کی دعوت کی گئی اور مساکین کے لیے کھانے کا خصوصی بندوبست کیا گیا۔ اس کے بعد تین بھائی پیدا ہوئے مگر اس کی حیثیت اور اہمیت میں کوئی فرق نہ آیا۔ بڑی ہوئی تو شہر کے بہترین سکول میں اسے داخل کرایا گیا اور وہ کامیابی سے تعلیمی مراحل طے کرنے لگی۔ وقت گزرنے کا پتا بھی نہ چلا اور وہ سکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی پہنچ گئی اور یہیں پر اس کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اس کی زندگی کا محور و مرکز اس کا گھر اور گھر کے افراد ہی رہے تھے مگر اب ایک اجنبی اپنا بننے لگا تھا۔ کچی عمر ویسے بھی جذباتی ہوتی ہے، وہ عمر کی طرف اس تیزی سے بڑھی کہ اسے خود بھی اپنی رفتار کا اندازہ نہ ہو سکا۔ دونوں طرف ہی یکساں جذبات تھے۔ وہ جانتی تھی کہ والدین ان دونوں کی شادی پر کبھی رضامند نہیں ہوں گے اس لیے چپکے سے ایک دن عدالت پہنچ کر کورٹ میرج کر لی۔ اور پھر چند دن بعد گھر میں اس کا اعلان بھی کر دیا۔
ماں سکتے کے عالم میں آ گئی۔ شام کو باپ گھر آیا تو اس کے سامنے معاملہ رکھا گیا، وہ بالکل ہی خاموش اور گم سم ہو کر رہ گیا، جس سے شہ پا کر وہ اور بھی دلیر ہو گئی اور باپ سے کہنے لگی۔ ’’ شادی تو میں کر ہی چکی ہوں اگر اپنے ہاتھ سے رخصتی کر دیں گے تو آپ کی عزت بھی رہ جائے گی ورنہ عمر کے پاس چلا تو میں نے جانا ہی ہے‘‘۔
باپ نے کہا ’’ اگر تمہارا یہ حتمی فیصلہ ہے تو تم نے گھر سے جو کچھ لینا ہے لے لو اور خود ہی اپنے شوہر کے پاس چلی جا، لیکن یہ یاد رکھنا، اب تمہارا ہم سے اور ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ تم ہمارے لئے مر گئیں اور ہم تمہارے لئے‘‘۔
وہ خوشی خوشی سامان پیک کرکی اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ اس کے والدین جو کہ ہمارے محلے میں رہتے تھے۔ وہ لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لئے مکان بیچ کر اور کاروبار سمیٹ کر کسی دوسرے شہر جا بسے۔
آج وہ قریباً آٹھ سال بعد ہمارے گھر آئی تھی۔ خیر خیریت دریافت کرنے کے دوران اس نے زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔ میں نے بھی اسے چپ نہ کرایا کہ آٹھ سال کا جمع شدہ غبار نکل جائے تو بات کروں۔ میں یہی سمجھا کہ شاید اس کے گھر کے حالات صحیح نہیں ہوں گے۔ والدین کی نافرمانی اور جدائی کا پچھتاوا اسے رُلائے جا رہا ہو گا۔ تمام گھر والے اسے دلاسے دینے لگے اور رونے کی وجہ دریافت کرنے لگے۔ بہت اصرار کے بعد اس نے رونے کی وجہ بتائی۔ وہ کچھ یوں گویا ہوئی۔
’’ میں نے والدین کی نافرمانی کی، ان سے تمام تعلقات ختم ہو گئے۔ اس کا پچھتاوا تو مجھے ساری زندگی رہے گا۔ مالی لحاظ سے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے۔ شوہر بھی بہت خیال رکھتے ہیں، لیکن میرے لیے جو سب سے زیادہ تکلیف دہ بات ہے وہ کچھ اور ہے۔ میری صرف ایک ہی بیٹی ہے میرے شوہر جب نماز پڑھنے کے بعد دعا مانگتے ہیں تو میں نے چپکے سے کئی بار ان کی دعا سُنی ہے، وہ روتے ہوئے اور گِڑگڑاتے ہوئے اللّٰہ پاک سے صرف ایک ہی دعا مانگ رہے ہوتے ہیں‘‘۔
’’ یا اللّٰہ! میری بیٹی ماں پہ نہ جائے‘‘۔
’’ یا اللہ! میری بیٹی ماں پہ نہ جائے‘‘۔
’’ یا اللّٰہ! یہ اپنی ماں کی طرح گھر سے بھاگ کے کبھی شادی نہ کرے۔ یہ اپنی ماں کی طرح اپنے والدین کی عزت کو کبھی رسوا نہ کرے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا پرس اٹھایا اور ہچکیاں لیتی ہوئی ہمارے گھر سے روانہ ہو گئی۔
یہ واقعہ تمام لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے ایک پیغام، ایک نصیحت اور ایک اعلان ہے، اگر کوئی سمجھے تو۔۔۔۔
اللّٰہ پاک ہر ماں باپ کو اپنی اولاد کی رسوائی سے بچائے۔ آمین۔

جواب دیں

Back to top button