انتخابات اور نجکاری

علی حسن
پاکستان میں اس وقت دو طرح کے مکاتب فکر سرگرم ہیں۔ اول وہ جو ملک میں انتخابات کا التوا چاہتے ہیں، دوم وہ جو مخصوص عزائم کے تحت ملک میں بیک وقت کئی اداروں کی نجکاری چاہتے ہیں۔ پہلے قومی عام انتخابات پر بات کرلیتے ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم) سیاسی جماعتوں کا وہ اتحاد جس نے عمران حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ حکومت سے نکا باہر کیا تھا کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے پشاور میں ایک پریس کانفرنس میں بہت ہی تشویش ناک بیان دیا ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ’’ آپ الیکشن کی فکر میں ہیں اور اِدھر ریاست ڈوب رہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ کسی کے ہاتھ میں ڈالر ہے تو وہ اسے باہر بھیج رہا ہے، باہر کے لوگ ترسیلات روک رہے ہیں، حالات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ موجودہ صورتحال میں انتخابی عمل مخدوش ہوسکتا ہے، اس کام کا آغاز کرنے سے پہلے انجام اور نتائج کا سوچنا ہوگا، وطن کیلئے سوچنا ہوگا، معاملات گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں، گتھیاں سلجھنے کے بجائے مزید الجھ رہی ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ کون لوگ ہیں جو بند کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرتے ہیں اور خود کو عقل مند سمجھتے ہیں، ہمیں الیکشن سے ڈرانے والا خیبر پختونخوا کے بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ دیکھ لے۔ ملک کا مجموعی انتظامی ڈھانچہ اس وقت زوال پذیر ہے، قوم کی ناراضگی بڑھ رہی ہے، زبوں حالی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں، ملک کی معیشت کی عمارت کو گرایا گیا، بغاوت کا خطرہ تھا۔ جب کمزوریوں کا ذکر کرتا ہوں تو کہا جاتا ہے الیکشن ملتوی کرانا چاہتا ہے۔ مولانا کا سیاسی تجزیہ ایک حد تک تو درست ہے لیکن یہ بات تو مولانا کو اس وقت سوچنی چاہئے تھی جب وہ عمران حکومت کو ناکام بنانے نکلتے تھے۔ مولانا کے بر عکس پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے زور دیا ہے کہ ہم ہر وقت الیکشن کیلئے تیار ہیں اور پیپلز پارٹی ہی الیکشن جیتے گی۔ جیکب آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے مولانا فضل الرحمان کے بیان سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ جو بھی جمہوری سیاستدان ہے وہ یہی کہے گا کہ ہر مسئلے کا حل الیکشن ہے۔ فضل الرحمان ایک جمہوری سیاستدان ہیں میرا نہیں خیال کہ وہ الیکشن مخالف ہیں۔ وہ چاہتے ہیں جلدی الیکشن ہو تاکہ عوام کی خدمت کر سکیں، الیکشن جتنے جلدی ہو سکیں کرائے جائیں۔ آپ الیکشن کروائیں چاہے وہ ن لیگ جیتے یا پیپلز پارٹی یا کوئی اور جماعت، جب تک الیکشن شیڈول کا اعلان نہیں ہوتا تب تک ترقیاتی اسکیمیں تو چلنے دیں، میں الیکشن جیت رہا ہوں ترقیاتی کام تو بعد میں بھی کروائوں گا۔ جمعیت علما اسلام مولانا فضل الرحمان گروپ کے سندھ کے سربراہ مولانا راشد محمود سومرو نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جو بھی لوگ پاناما ، ڈان لیکس اور دیگر نیب کے معاملات میں ملوث ہیں انہیں انتخابات سے دور رکھا جائے۔ ’’ الیکشن یا الیکشن نہیں‘‘ کی بحث کے دوران مسلم لیگ ضیا کے سربراہ اعجاز الحق نے ایک تجویز دی ہے کہ نواز شریف، شہباز شریف اور آصف زرداری کو سیاست سے ریٹائر کر دیا جانا چاہئے۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ یہ بات نواز شریف کی ہیلتھ رپورٹ دیکھ کر شہباز شریف کی گفتگو سن کر اور زرداری کی آنیاں جانیاں دیکھ کر کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ’’ آپریشن فورتھ ٹائم پرائم منسٹر ‘‘ نظر آ رہا ہے۔ انتظامیہ کو احکامات دئیے جا رہے ہیں کہ فلاں پارٹی کو سپورٹ کرو۔ اگر عوامی امنگوں کے مطابق الیکشن نہ ہوئے تو معاشی صورتحال وہاں چلی جائے گی جہاں سے نکلنا بڑا مشکل ہے۔ ان بیانات کی روشنی میں ایک بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں جو بظاہر تحریک انصاف کے بغیر نظر آتے ہیں، پی ڈی ایم کی جماعتیں ہی نئی صف بندی کریں گی۔ اعجاز الحق کا بیان معنی خیز ہے کہ آپریشن فورتھ ٹائم پرائم منسٹر ( ان کا اشارہ واضح طور پر نواز شریف کی طرف ہے) نظر آ رہا ہے۔ انتظامیہ کو احکامات دئیے جا رہے ہیں کہ فلاں پارٹی کو سپورٹ کرو۔
اب بات ہو جائے نجکاری کے بارے میں۔ جن اداروں میں قومی ہوائی کمپنی پی آئی اے سر فہرست ہے اور امریکہ کے بڑے شہر نیویارک میں موجود ہوٹل روز ویلٹ کی فروخت قابل ذکر ہے۔ باقی اداروں کو تو فہرست کو طویل کرنے اور عام لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے شام کیا گیا ہے۔ نگران حکومت کی ترجیحات میں نجکاری کو فوقیت کیوں حاصل ہو گئی ہے، نگراں حکومت کے وزراء کی ذمہ داری تو معاملات کی نگرانی کرنا ہے۔ انہیں کس نے کہہ دیا کہ سب کچھ من پسند افراد کو کوڑیوں کے مول فروخت کر دو ۔ کیوں نہیں انتظار کیا جارہا ہے کہ عام انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کا انتظار کیا جائے اور وہ قومی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت سے فیصلہ کرے کہ کیا قومی اثاثوں کی نجکاری کی جائے یا نہیں۔ کن کن اثاثوں کو منافع بخش بنایا جا سکتا ہے۔ پی آئی اے جیسا اہم ترین نوعیت کا ادارہ کیوں نہیں منافع بخش بنایا جا سکتا ہے۔ کون کہتا ہے کہ پی آئی اے منافع بخش نہیں ہو سکتا ہے۔ لیکن لاڈلوں کو یہ ادارہ فروخت کرنا مقصود ہے۔ ہوائی کمپنی ہماری دفاعی لائن ہے۔ قومی دفاع کے موقع پر اہم ترین خدمت انجام دینے والا ادارہ ہے۔ اسی طرح نیو یارک میں واقع روز ویلٹ ہوٹل کی فروخت کی بہت جلدی ہے۔ ایک ہفتہ قبل نگراں وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد کا کہنا تھا کہ اداروں کی نجکاری سے متعلق پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ نجکاری کا کوئی ایجنڈا اس نگراں حکومت کا ہے تو یہ بات غلط ہے۔ نجکاری کا عمل 2001ء سے شروع ہوا، نجکاری کرنا ہمارا مینڈیٹ نہیں ہے۔ پھر خبر آئی کہ نگران وفاقی وزیر نجکاری فواد حسن فواد کے زیرصدارت جمعہ کو پرائیویٹائزیشن کمیشن بورڈ کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں آئی ایم ایف کی طرف سے خسارے میں جانے والے پاکستان کے قومی ملکیت کے اداروں کی نجکاری کے بارے میں تبادلہ خیال ہوا۔ آن گوئنگ پرائیویٹائزیشن پروگرام جس میں سروسز انٹرنیشنل لاہور، جناح کنونشن سینٹر اسلام آباد، پی آئی اے، ( آئی ایل)، روز ویلٹ ہوٹل نیویارک ، پاکستان اسٹیل، پیسکو، حیسکو، کیسکو، میسکو پر کی نجکاری کیلئے اب تک ہونے والے اقدامات اور اْنکے نجکاری کے پروگراموں کی پیشرفت کا جائزہ لیا گیا۔ نگران وزیر فواد حسن فواد،سابق وزیراعظم نواز شریف کے 2013ء سے 2017ء تک چلنے والی حکومت کے دوران وزیر اعظم پاکستان کے پرنسپل سیکرٹری رہ چکے ہیں۔ فواد حسن فواد پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سربراہ بھی رہے ہیں ۔





