طوفان الاقصیٰ، آغاز اچھا ہے

سی ایم رضوان
ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ پچھلی چند دہائیوں میں ایک پورے ملک کے باشندوں کو محدود کرتے کرتے غزہ کی ایک پٹی تک رہنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس رہائشی علاقے کو جیل بنانے کے لئے آبادی کے آگے دیوار چن دی گئی۔ پانی، بجلی جیسی بنیادی سہولتوں کی فراہمی غیر انسانی حد تک محدود کر دی گئی۔ بچوں کو جوان ہونے سے پہلے ہی قید یا موت دینے کا اصول نافذ کر دیا گیا۔ حاملہ خواتین کو بچوں سمیت مار دیا جانے لگا۔ نماز پڑھتے لوگوں کو سرعام فائرنگ کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ زمین تنگ کر دی گئی، زندگی اجیرن بنادی گئی۔ اس کے باوجود زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ عملاً ظلم کی انتہا کردی گئی۔ یہ سب فلسطین کے باشندوں کے ساتھ صیہونی اسرائیل نے کیا اور کرتا جا رہا تھا۔ ایسے میں ظلم کی انتہا یہ کہ دنیا بھر کے مسلمان حکمران بے ضمیری کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ یہاں تک کہ ان حکمرانوں کی اکثریت اب اسرائیل کو دوست تسلیم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ فقط ایک ایرانی تنظیم حزب اللہ نے ان مظلوم فلسطینیوں کی زندگیوں اور مال و آبرو کی محافظ تنظیم حماس کی مدد کا بیڑا اٹھایا۔ آج سے چند ماہ قبل ایران میں ایک بڑی سی عمارت پر ایک بہت بڑا بینر ’’ طوفان الاقصیٰ‘‘ آویزاں کر کے گویا اعلان کیا گیا کہ اب اقصیٰ کی حفاظت کے لئے حماس اور حزب اللہ متحد ہو کر ظالم اسرائیل پر حملہ کریں گے۔ گزشتہ روز ایسا ہی ہوا اور سائبر اور انٹیلی جنس کمک کے ساتھ اسرائیل پر اس طرح حملے شروع کئے گئے کہ ایک طرف اسرائیل کا سارا اطلاعاتی نظام درہم برہم اور بیکار ہو گیا تو دوسری طرف اسرائیل کے سینکڑوں آرمی افسران اور اہم افراد گرفت میں لے لئے گئے۔ ظالم اسرائیل کی عمارات اور آبادیوں کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اسرائیل کا حامی ظالم امریکہ بھی دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا اور دعویٰ کر دیا کہ وہ اپنے آقا اسرائیل کے ساتھ ہے اور اس کا ساتھ دے گا۔ امریکہ نے اسلحے اور بحری بیڑے سے فوجی امداد روانہ بھی کر دی ہے مگر منافقین امت میں سے کوئی ایک بھی ایسا سامنے نہ آ سکا جو حماس کے لئے فوجی کمک یا اسلحہ بھیجنے کا ارادہ ہی ظاہر کر دیتا۔ ایسے میں بھی دلیر جنگجو حماس ڈٹی ہوئی ہے اور دعویٰ کر دیا ہے کہ اگر اسرائیل ایک حملہ کرے گا تو اس کا ایک جنگی قیدی مار دیا جانے گا۔ موت سے خوفزدہ اسرائیل کو موت سے ڈرانے کا یہ مزیدار انداز اور انوکھی سٹریٹجی بڑی پرلطف ہے۔ دوسری طرف مسلم حکمرانوں کی بے ضمیری بھی آزمائش سے دوچار ہے کہ اب امریکہ کے اشاروں پر ناچیں یا اپنے عوام کے جذبات کا خیال کریں۔ صورتحال بڑی لطیف منزل پر پہنچ گئی ہے کہ اب وہی اسرائیل جو اپنے آپ کو طاقت ور سمجھتا تھا بھیگی بلی بنا بیٹھا ہے اور فلسطینی مجاہدین میدان کار زار میں دلیری کے ساتھ جاں فروشی اور قتال الکافرون کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔
تاریخ عالم آج تک کسی ایک ایسے شخص یا قوم کی بھی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے جو اللہ کے بندوں پر بے دھڑک ظلم کرنے کے بعد باعزت طریقے سے اس دنیا سے گئے ہوں یا با عزت زندگی گزار رہے ہوں۔ مظلوموں کی آہیں اور بے گناہ مقتولوں کا خون نہ تو کبھی ان کو چین سے بیٹھنے دیتا ہے اور نہ ہی قدرت انہیں ان جرائم کی معافی دیتی ہے اور دنیا میں عبرت کا نشان ضرور بناتی ہے۔ فرعون و شداد جیسے ظالم دنیا میں ہی ذلت و خواری کا مزہ چکھنے کے بعد ہلاکت ابدی کو پہنچے۔ پھر قیام قیامت تک آنے والوں کے لئے نشان عبرت بنانے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے ان کے واقعات کو قرآن کریم میں بھی جگہ دے دی۔ ظالم تو ظلم کرتے وقت یہ گمان کرتا ہے کہ اس کے پاس قدرت ہے، طاقت ہے، اقتدار ہے، کوئی تنقید کرنے والا نہیں، کوئی سزا دینے والا نہیں لیکن جب وہ اپنے تئیں قدرت مطلق سمجھنے لگتا ہے اور اپنی سرکشی کی انتہا کو پہنچتا ہے تب اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے اسے ایسے جکڑ لیتا ہے کہ وہ باقی تمام ظالموں کے لئے باعث عبرت بن جاتا ہے۔ البتہ خدا کے ایسے فیصلے میں دیر تو ہوسکتی ہے لیکن اندھیر ہر گز نہیں۔ اسرائیل کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے اور امید کی جاتی ہے کہ حماس کا یہ حملہ ہی اسے نیست و نابود کر دے گا اور اگر ایسا نہ بھی ہوا تو ہمارا ایمان ہے کہ ایک نہ ایک دن ایسا ہی ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ اسرائیل جیسے ظالموں کو ایک خاص وقت تک ان کی ناتوانی کے باوجود محدود قدرت کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیتا ہے تاکہ ان کی خباثت روز روشن کی طرح عیاں ہو جائے، تب بعض ضعیف الایمان افراد یہ گمان کرنے لگ جاتے ہیں کہ شاید اللہ کے ہاں ان کی پکڑ ہی نہیں جبکہ درحقیقت اور تادیر ایسا نہیں ہوتا۔ گو کہ ان ظالموں میں سے ہر ایک خونخوار، انسانیت سے عاری، سرکش اور اپنے آپ کو حاکم مطلق سمجھنے والا ہوتا ہے اور لوگوں پر ظلم و ستم روا رکھنا اپنے لئے فخر سمجھتا ہے لیکن مختصر مدت کے بعد ہی اس کے غرور و تکبر پر پانی پھر جاتا ہے اور ایسی حالت ہو جاتی ہے کہ ہر کوئی عبرت پکڑتا ہے۔ سابقہ تاریخ کے سبھی ظالم آج تک باعث عبرت اور نشان ذلت بنے ہوئے ہیں۔
آج کل دنیا بھر میں مسلم دشمنوں کے ظلم و جور، قتل و غارت اور سرکشی کا دور دورہ ہے، لیکن وہ وقت دور نہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے کئے کی سزا بھگت لے گا۔ بے گناہ بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ آج اگر کوئی یہ گمان کرتا ہے کہ کشمیر، فلسطین، روہنگیا اور دیگر مسلم مظلوموں کے خون میں اتنی بھی تاثیر نہیں کہ وہ صاحبان اقتدار و اختیار کے ایوان ہائے اقتدار میں لرزہ پیدا کر سکے تو یہ اس کی بھول ہے۔ یاد رہے کہ آج کی دنیا کے سب سے بڑے ظالم امریکہ کا سپر پاور ہونے کا اختیار عارضی ہے، مسلم عوام کی مظلومیت بھی وقتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں بالآخر مستضفین کو اپنی زمین کا اقتدار تھما دوں گا۔
جہاں ظالموں کو اتنی طاقت کا ملنا امتحان کے لئے ہے، وہاں مظلوموں پر ایسے افراد کا مسلط ہونا بھی بے سبب نہیں، بلکہ ان کی اپنے کئے کی سزا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر قسم کے معدنی وسائل سے مالا مال فرمایا۔ ہم نے ان قدرتی وسائل سے خود استفادہ کرنے کی بجائے اسے دشمنوں کے حوالے کر دیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ آہستہ آہستہ ہم پر مسلط ہوگئے۔ آج امریکہ، اسرائیل، مغربی ممالک کے سربراہان اور بعض مسلم ممالک کے حکمران اپنے آپ کو قدرت مطلق کا مالک سمجھ بیٹھے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طاقت کے نشے میں ہر جگہ قتل و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اکثر مسلم حکمران ان ظالموں سے دور ہونے کی بجائے ان کے ہم نوا بنے ہوئے ہیں۔ آج کے امریکی عہدیداروں کی مختلف پریس کانفرنسز اور گفتگووں سے ان کے اس ہدف کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ عرب اور ایشیاء کو اسلام، اسلامی فکر اور اسلام پسند تحریکوں سے صاف کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ یہ علاقے سو فیصد ان کے اختیار میں ہوں۔ مسلم ممالک کو آپس میں لڑا کر یہاں کے قدرتی وسائل پر قبضہ جمانا ان کا اصل مقصد ہے، چونکہ پورا عالم اسلام تیل اور گیس کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے اور اگر خدا نخواستہ امریکہ نے ان براعظموں پر قبضہ کر لیا تو پھر وہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے مشکلات کا شکار نہ ہوگا۔ افسوس کہ تمام مسلمان متحد ہوکر امریکہ اور اس کے حواریوں کے ایسے اہداف کو خاک میں ملانے کی بجائے بعض مسلم حکمران اپنی ہی امت و ملت کی آستین کا سانپ بن کر اپنے ہی برادر مسلم ممالک اور آبادیوں پر ظلم کرنے میں مدد دے رہے ہیں۔ ہزاروں مسلمانوں کو خاک و خون میں لت پت کیا جا رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یمن پر حملہ، شام کے غریب عوام کی سالہا سال تک قتل و غارت، عراق پر داعش کا ظلم و ستم، نائجیریا میں سینکڑوں مسلمانوں کا خاک و خون میں نہلایا جانا کربناک حقائق ہیں۔ اور اب اسرائیل کی امریکہ کی جانب سے کھلی حمایت کا اعلان۔ کیا اب بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کے ساتھ ہاتھ ملائے رکھنے کا وقت ہے؟ یقیناً نہیں۔ کیونکہ اب تو حماس کے ہاتھوں اسرائیل کو دنیا میں نشان عبرت بنا کر مسلم بیداری کا اعلان کیا جائے گا اور اگر اب نہ بھی ہوا تو آئندہ ایک دن یہ ضرور ہو گا کیونکہ حماس نے آغاز اچھا کر دیا ہے۔





