معیشت بحالی کی کوششیں

ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوںموجودہ نگراں حکومت نے پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ بجلی چوری کو قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈائون کا اعلان کیا ہے جس کے بعد بہت سے شہروں میں اس سلسلے میں کارروائیاں بھی کی گئی ہیں جبکہ دوسری جانب جنرل عاصم منیر نے معیشت کے حوالے سے اچھے فیصلے کیے ہیں کیونکہ ڈالر کی قیمتوں کے حوالے سے اسمگلنگ سب سے بڑا مسئلہ تھا ، بارڈ رز اور کرنسی مارکیٹوں پر سختی کر کے اس کو انتہائی کم کر دیا جو کہ ایک اچھا اقدام ہے جبکہ خلیجی ممالک اور چین سے بڑی سرمایہ کاری کی توقعات سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور گرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ سنبھل گئی ہے۔ اگر نگران حکومت ملک میں بجلی چوری، چینی، ایرانی پٹرول اور ڈالر کی اسمگلنگ پر مکمل قابو پالے تو ملکی معیشت کہیں زیادہ بہتر ہو جائے گی۔ بلا شبہ نگران حکومت نے اس باروہ فیصلے لیے ہیں جو کہ عوام میں غیر مقبول سمجھے جاتے ہیں ان کو آئے ہوئے دو ماہ سے زائد کا عرصہ ہوا ہے لیکن ان کے فیصلوں سے لگتا ہے کہ وہ اس بار کچھ نیا کریںگے اور اسی طرح گزشتہ دنوں نگراں وزیر توانائی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا تھا کہ جب تک بجلی کی چوری نہیں رکتی اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تب تک اُن افراد کے لیے بجلی کی قیمتیں کم نہیں کی جاسکتیں جو باقاعدگی سے اپنے بل ادا کر رہے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بجلی کی سالانہ چوری بہت بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے اور اس چوری کی وجہ سے جو لوگ بل ادا کرتے میں انہیں بجلی مہنگی ملتی ہے۔ یہ بجلی چوری ٹوٹل بلنگ کا %60فیصد بنتی ہے۔ لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان صرف ان پانچ ڈیسکوز کے اندر 79ارب یونٹ کی بجلی چوری ہوتی ہے یا تو لوگ بل نہیں دیتے یا بجلی چوری کرتے ہیں جس سے مالی طور پر 1100ارب روپے اور پشاور، حیدر آباد، سکھر، قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں 489ارب کا نقصان ہوتا ہے۔60فیصد لوگ بل ہی نہیں دیتے جس وجہ سے ان کا جتنا بھی بوجھ ہوتا ہے اس کو وہی لوگ ادا کرتے ہیں جو بل دے رہے ہیں، اسی وجہ سے بل میں اتنا زیادہ اضافہ ہو کر آرہا ہے جو کمپنیاں بجلی بنا کر دے رہی ہیں وہ صارف سے پوری قیمت وصول کرتی ہیں۔ اتنی مہنگی بجلی ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے اس کے اوپر کام ہی نہیں کیا، نہ کوئی ڈیم بنائے نہ کوئی بجلی گھر بنائے تا کہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکتا، اب عوام کو 59روپے فی یونٹ بل ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ بارڈر سے ایرانی تیل کا اس طرف آنا اور ہمارے روپے کا ڈالرز میں منتقل ہو کر باہر جانا ہی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ یہ سمگلنگ اسی طرح رک سکتی تھی جس طرح آرمی چیف نے اپنے ادارے پرسختی کر کے روکنے کا حکم دیا ہے۔ جب بارڈر محفوظ ہو جائیں گے پھر کسٹما، ایف آئی اے اور صوبائی پولیس کے لیے روک تھام آسان ہو جائے گی۔ اسی طریقے سے معیشت کسی ایکشن سے نہیں بلکہ ایک مسلسل پراسس کے ذریعے ٹھیک ہوگی اچھے کام پر شاباش اور غلط کام پر باز پرس ی ہجوم کو قوم بناتا ہے۔ اس وقت اہل وطن غیر معمولی مہنگائی کی زد میں ہیں۔ پٹرول اور بجلی بھی اس دور میں ہوا اور پانی کی طرح انسانی ضروریات میں شامل ہیں۔ ان کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ قیمتوں کے آسمان کو چھونے والا محاورہ بھی پامال نظر آتا ہے۔ یہ دو ایسی چیزیں ہیں کہ جب ان کی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے تو گویا تمام اشیائے ضرورت کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ چوں کہ قیمتوں پر کنٹرول کا بھی کوئی نظام و انتظام نہیں، اس لیے ہر تاجر قیمتوں میں من چاہا اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔ دودھ، سبزی، آٹا، دال، چاول، پکوان کا تیل، عوام کی قوت خرید سے باہر ہوتے جارہے ہیں ۔ اس ضمن میں دیہاڑی دار طبقہ، مدل کلاس اور لوئر مڈل کلاس طبقہ شدید متاثر ہوا ہے۔ IMFاس طرف بار ہا اشارہ کر چکی ہے کہ مراعات یافتہ لوگوں کی دی گئی مراعات ختم کی جائیں تا کہ عوام کو ریلیف حاصل ہو، ان کی بات پر سنجیدگی سے عمل کرنے کے بجائے نگراں حکومت IMFکے پاس درخواست لے کر چلی گئی کہ ہمیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے بجلی کے بلوں پر قسطیں متعین کرنے دیں۔ جن ترقی پذیر ممالک نے آئی ایم ایف سے 1986تا 2016کے دوران قرضہ لیا۔ ان ممالک کے عوام بنیادی اصلاحات پر پابندی کے زیر اثر اکثریت میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے جس کے نتیجے میں بیروزگاری اور بنیادی سروسز کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ارباب اقتدار اور پالیسی سازوں کو ٹھنڈے دل سے سوچناہوگا اور اپنی توانائیاں اس بات پر صرف کرنا ہوں گی کہ آئی ایم ایف کے چنگل سے کیسے باہر آنا ہے۔ مہنگی بجلی کے منصوبوں سے کیسے جان چھڑانی ہے، ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام کیسے لانا ہے، بیمار صنعتوں کی بحالی اور عام آدمی کی زندگی میں کیسے آسانیاں لائی جاسکتی ہیں اور ہم سے کہاں کہاں کوتاہی ہوئی اور اس کا ازالہ کیسے ممکن ہے۔ اس پر ہمارے نگرانوں کی جانب سے بھی کوئی آواز نہیں آرہی۔ بجلی کے بلوں نے عوام کا ذہنی سکون چھین لیا ہے تو پٹرول کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے نے ان کے صبر و ہمت کی رہی سہی کسر نکال دی ہے ، ذخیرہ اندوز اور نا جائز منافع خور بھی بے لگام ہیں۔ دکاندار من مانے نرخوں پر اشیا فروخت کر رہے ہیں۔ عوام کئی روز سے سراپا احتجاج ہیں مگر مہنگائی پر کنٹرول کرنے میں حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ یو این ڈی پی کے مطابق پاکستان کی آبادی کا 64فیصد 30سال سے کم ہے جبکہ 29فیصد آبادی 15سے 29سال کے جوانوں پرمشتمل ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی جس شرح سے بڑھ رہی ہے اور جتنے جوانوں کو روزگار فراہم کرنا ہے اس کے لیے اسے اگلے پانچ سالوں میں 45لاکھ نئے روزگار پیدا کرنے ہوں گے۔ جو بات زیادہ پریشان کن ہے وہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد خصوصا ًحاملین ڈگری میں بے روزگاری کی شرح دیگر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریباً تین گنا زیادہ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان گریجویٹس کو مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق تعلیم دی جارہی ہے نہ معیشت فارغ ہونے والوں کو جذب کر پا رہی ہے۔ مطلوبہ ہنروں اور فنی مہارت کا حصول روزگار کی فراہمی اور معاشی خوش حالی کے لیے لازمی ہے لیکن بڑی مانگ کے باوجود پاکستان میں خصوصی تکنیکی تعلیم ، پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے شعبوں میں داخلہ کی شرح کم ہے۔ تعلیم اور روزگار کے مابین ایک متحرک رشتہ قائم اور برقرار رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ چار برس سے عالمی معیشت بھی بحران کا شکار چلی آرہی ہے۔ پاکستانی معیشت بھی اس کی زد میں آئی ہے۔ اب بہتری کے اشارے سامنے آرہے ہیں اور پاکستان کے لیے مواقع پیدا ہو رہے ہیں ، ان مواقع سے فائدہ اٹھانا ارباب اختیار کی ذہانت پر منحصر ہے۔ اگر پاکستان کی سیاسی قیادت اور حکومت کے اکنامک منیجرز انتہائی ذمے داری اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، ملک کے اندر مالیاتی ڈسپلن پیدا کریں اور سرکاری اخراجات میں کمی لائی جائے تو اس کے واضح اثرات معیشت پر نظر آئیں گے۔ پاکستانی سیاسی قیادت ذاتیات سے نکل کر جمہوری اصولوں کو اپنائے اور ملک میں سیاسی استحکام لانے کے لیے متفق ہو تو پاکستان ایک دو برس میں ہی آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے قرضوں سے جان چھڑا سکتا ہے۔





