Column

ایک اور دھرنا

رفیع صحرائی
لیجیے صاحبان! آل گورنمنٹ ایمپلائزگرینڈ الائنس ( اگیگا) پنجاب کی کال پر پنجاب میں سرکاری ملازمین ایک مرتبہ پھر سڑکوں پر آ گئے ہیں۔ لاہور سیکرٹریٹ کا علاقہ ان کی آماجگاہ بن چکا ہے اور سرکاری ملازمین کی ایک بہت بڑی تعداد جس میں عورتیں بھی بچوں سمیت موجود ہیں اس وقت اپنے مطالبات کے حق میں گھروں کو چھوڑکر سڑکوں پر ہیں۔ یہ ملازمین حکومتِ وقت سے کوئی خصوصی مراعات نہیں مانگ رہے بلکہ اسی حکومت کی طرف سے غصب کئے گئے اپنے حقوق کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 10جولائی 2023ء کو بھی پنجاب کے سرکاری ملازمین نے پنجاب کی تاریخ کے سب سے بڑے دھرنے کا آغاز کیا تھا۔ اور مثبت نتائج حاصل کئے تھے۔ تب سالانہ بجٹ کے موقع پر وفاق اور دیگر صوبوں کے برعکس پنجاب کے سرکاری ملازمین کو کُند چھری سے ذبح کرنے کا فیصلہ سامنے آیا تھا۔ دیگر صوبوں اور وفاق میں ملازمین کی تنخواہ میں جاری بنیادی تنخواہ پر پینتیس فیصد اضافہ کیا گیا تھا جبکہ پنجاب میں بنیادی تنخواہ کی ابتدائی سٹیج پر تیس فیصد اضافہ کیا گیا جو حقیقت میں قریباً دس فیصد بنتا تھا۔ وفاق اور دوسرے صوبوں نے سرکاری پنشنرز کی پنشن میں 17.5فیصد اضافہ کیا تھا مگر پنجاب حکومت نے صرف پانچ فیصد اضافہ کو ہی کافی سمجھا۔ سرکاری ملازمین اس ظلم و زیادتی پر سراپا احتجاج بن گئے اور پھر لاہور شہر نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا دیکھا جس کا اختتام سرکاری ملازمین کی کامیابی پر ہوا۔ اس دوران پورے پانچ روز شدید گرمی اور سخت موسم میں سرکاری ملازمین سڑکوں پر بیٹھے رہے مگر حیرت انگیز طور پر الیکٹرانک میڈیا کو وہ ساٹھ ہزار احتجاج کرنے والے ملازمین نظر نہ آئے۔ کسی دور دراز کے گائوں میں ایک بَچھڑے کی پیدائش کی خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرنے والا میڈیا اس قدر کنٹرولڈ تھا کہ ملازمین کے دھرنے کی کوریج کرتے ہوئے اس کے پر جلتے تھے۔ صورتِ حال اب بھی ویسی ہی ہے۔ پنجاب سیکریٹیریٹ کے علاقے میں ہزاروں ملازمین دھرنا دئیے بیٹھے ہیں مگر میڈیا آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
ملازمین اس مرتبہ اپنی پنشن اور لیو انکیشمنٹ پر ڈاکہ پڑنے کے فیصلے پر سراپا احتجاج ہیں۔ جبکہ محکمہ تعلیم کے ملازمین اور اساتذہ سرکار ی سکولوں کی نجکاری بھی رکوانا چاہتے ہیں۔ حکومتی فیصلے کے تحت لیو انکیشمنٹ آخری جاری بنیادی تنخواہ کے بجائے آخری تین تنخواہوں کی اوسط کے حساب سے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ ان کی پنشن کے سلسلے میں بھی ان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی کی گئی ہے اور اس میں اچھا خاصہ کٹ لگا کر سرکاری خزانہ بھرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت عملی طور پر صوبہ پنجاب میں سرکاری دفاتر میں کام ٹھپ ہو چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں پہلے ہی ایک لاکھ دس ہزار اساتذہ کی کمی ہے۔ اب موجود اساتذہ کی بھی ایک بڑی تعداد دھرنے میں شریک ہے اور تعلیمی اداروں میں تدریسی سرگرمیاں تقریباً معطل ہو گئی ہیں۔ جو اساتذہ مرکزی دھرنے میں نہیں گئے وہ سکولوں میں دھرنا دے کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ اگر دو تین روز تک دھرنے کے شرکا ء کو مطلوبہ نتائج نہ مل سکے تو ممکن ہے جولائی والے دھرنے کی طرز پر پنجاب میں تمام سرکاری دفاتر کی تالہ بندی ہو جائے اور تعلیمی ادارے بھی بند کر کے تمام اساتذہ لاہور کا رخ اختیار کر لیں۔ ایسی صورت میں نہ صرف حکومتی امور چلانے دشوار ہو جائیں گے بلکہ لاہور شہر میں بھی امنِ عامہ کی صورتِ حال کافی خراب ہو سکتی ہے۔
ملازمین کو اس صورتِ حال کا بھی اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کے ساتھ زیادتی صرف نگران حکومت نے ہی نہیں کی ہے بلکہ اصل ذمہ دار گزشتہ شہباز شریف حکومت ہے جس نے آئی ایم ایف کو ملازمین کُش پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ شہباز شریف کے دور میں ہی پنجاب میں سرکاری ملازمین کے ساتھ زیادتی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ گزشتہ دھرنے کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے اہم رہنما جناب احمد خان نے ہی سرکاری ملازمین سے کامیاب مذاکرات کیے تھے۔ حقیقت میں پنجاب کی نگران حکومت مسلم لیگ ن کا ہی تسلسل ہے۔ اس حکومت کی کارکردگی کا تمام کریڈٹ اور ڈس کریڈٹ مسلم لیگ ن کے کھاتے میں ہی جائے گا۔ پنجاب کے سرکاری ملازمین نے ایسے وقت میں دھرنا دیا ہے جب مسلم لیگ ن کے جلاوطن لیڈر میاں نواز شریف چار سالہ جلاوطنی کاٹ کر چند روز بعد اکیس اکتوبر کو وطن واپس آ رہے ہیں۔ ان کی آمد اسی لاہور شہر میں ہو گی جہاں ان کے استقبال کے لیے مینارِ پاکستان کے وسیع و عریض گرائونڈ میں ایک بہت بڑے پاور شو کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ پورے پنجاب میں سابق ممبران اسمبلی اور ٹکٹ ہولڈرز کی میٹنگز جاری ہیں اور زیادہ سے زیادہ کرائوڈ اکٹھا کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے میں سرکاری ملازمین کا یوں سڑکوں پر آ کر دھرنا دے کر بیٹھ جانا مسلم لیگ ن کی قیادت کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اگر یہ دھرنا طوالت اختیار کر گیا تو ممکن ہے نواز شریف کے استقبالیہ جلسے کی نسبت اس موقع پر احتجاج کرنے والوں کی تعداد بڑھ جائے جس کا اثر آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کی مقبولیت اور کارکردگی پر بھی پڑے گا۔ اس دھرنے کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا جائے گا اسی قدر سیاسی مداخلت اس میں بڑھتی جائے گی۔ گزشتہ دھرنے کے موقع پر جناب سراج الحق کے علاوہ ٹی ایل پی اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اظہار یکجہتی سے حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے تھے۔ اس مرتبہ الیکشن قریب ہونے کی وجہ سے ہر چھوٹی بڑی سیاسی پارٹی دھرنے میں ضرور پہنچے گی۔ ممکن ہے سیاسی پارٹیاں اپنے ورکرز کو دھرنے میں بھیج کر عملی اظہار یکجہتی کر کے حکومت اور مسلم لیگ ن کے خلاف موثر فضا بنانے میں کامیاب ہو جائیں جس کا مکمل نقصان مسلم لیگ ن کو ہو گا۔ مناسب یہی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب آئی ایم ایف کے ساتھ دوسروں کے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے سے گریز کرتے ہوئے آنے والی منتخب سیاسی حکومت کو ایسے غیر دانشمندانہ اور غیر مقبول فیصلے کرنے دیں۔ قریباً دس لاکھ ملازمین کے معاشی قتل کا مطلب یہی ہے کہ اس سے کم و بیش ایک کروڑ لوگ متاثر ہوں گے۔ وہ ایک کروڑ لوگ آئندہ الیکشن میں اثرانداز ہو کر نتائج کا پانسہ پلٹ سکتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ازخود حکومت کو قائل کر کے یہ ظالمانہ فیصلے واپس کرا کر سرکاری ملازمین کے دل جیت سکتی ہے۔ دھرنا ختم کرانے اور ملازمین کے مسائل حل کروانے میں دیر نہ کیجئے ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

جواب دیں

Back to top button