ColumnTajamul Hussain Hashmi

پناہ گیری سے جڑے خطرات

تجمل حسین ہاشمی
افغانوں کی ملک بدری کے اقدام پر کابل کی جانب سے رد عمل سامنے آیا ہے اور افغان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ بدھ کو اس فیصلے کو ’ ناقابل قبول‘ قرار دیا۔ ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ پاکستان میں موجود افغان شہری ملک کی سلامتی کے مسائل میں ملوث نہیں۔ انہوں نے اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ وہ انہیں برداشت کرے۔ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کو پناہ دی جاتی ہے لیکن کوئی ملک پناہ گیری کی آڑ میں کیسے دہشت گردی کو برداشت کر سکتا ہے۔ پاکستان میں پناہ گزینوں کی آڑ میں افغان دہشت گردی کر رہے ہیں۔ جس بارے میں نگران وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کا موقف ہے کہ جنوری 2023ء سے اب تک ملک کے مختلف حصوں میں 24خود کش حملے ہوئے، جن میں سے 14افغان شہری ملوث پائے گئے۔29نومبر کو مسجد اور مذہبی اجتماع پر دو خود کش دھماکوں میں 60سے زائد افراد شہید ہوئے۔ جس کے بعد حکومت نے تمام غیر قانونی افغان مہاجرین سے کہا کہ وہ اگلے ماہ تک ملک چھوڑ دیں یا پھر جبری بے دخلی کے لیے تیار رہیں۔ شہریوں کو غیر قانونی افغانوں کے ساتھ لین دین کے حوالے سے مقدمات درج کرنے کی خبریں گردش میں ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد جسے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا ہے، اس کی لمبائی 2640کلو میٹر ہے جو 1893ء میں برطانیہ انڈیا گورنمنٹ کے سیکرٹری سر مورتمر ڈیورنڈ اور افغان بادشاہ رحمان خان کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی۔ پاکستان کے قیام کے بعد سے کسی بھی افغان حکومت نے ڈیورنڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ یہاں سے نقل و حرکت با آسانی ہوتی رہی ہے۔ اس نقل و حمل سے پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا ہے۔ جنوری 2022تک پاکستان نے ڈیورنڈ لائن کے 94فیصد حصے پر باڑ لگا دی تھی لیکن طالبان کی حکومت بننے کے بعد سے اس باڑ کو کئی جگہ سے نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان کا موقف ہے کہ باڑ توڑ کر دہشت گرد داخل ہو رہے ہیں جبکہ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ یہ ان قبائل کی آزادانہ نقل و حرکت میں رکاوٹ ہے جو ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف آباد ہیں اور ان کی آپس میں رشتہ داریاں ہے۔ افغانستان کا یہ کمزور موقف ہے کیوں پاکستان اور افغانستان دو الگ ریاستیں ہیں، جیسے انڈیا اور پاکستان دو الگ ملک ہیں۔ انڈیا میں ہزاروں مسلمان بستے ہیں، جن کے عزیز رشتہ دار پاکستان کے شہری ہیں لیکن دونوں ممالک کے شہری اپنے اور دوسرے ملکوں کے قانون کے پابند ہیں، ممالک کی حدود ملنے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک دوسرے کے قانون کو توڑا جائے، پاکستان کو شروع سے ہمسایہ بارڈر سے سکیورٹی خطرات کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ملک کے معاشی سرکل کو مشکلات در پیش ہیں۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق 31اگست 2021ء تک سب سے زیادہ رجسٹرڈ افغان شہری خیبر پختونخوا میں رہتے ہیں، جن کی تعداد 834381ہے، جو کل تعداد کا 58فیصد ہیں۔ دوسرے نمبر پر بلوچستان میں یہ تعداد 326932ہے، جو کل کا 23فیصد ہے۔ ان میں سے صرف 31فیصد افغان پناہ گزین مخصوص کیمپوں یا دوسرے علاقوں میں رہتے ہیں۔ اس وقت کیمپوں میں صرف وہی افغانی رہتے ہیں جو کرائے پر رہنے کی سکت نہیں رکھتے۔کابل میں جب طالبان حکومت آئی اس کے بعد پناہ گزینوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا ہے اور یو این ایچ سی آر کے مطابق جنوری 2021ء سے فروری 2022تک 117547نئے افغان شہری پاکستان میں داخل ہوئے جبکہ غیر سرکاری ذرائع کے مطابق یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ 2017ء میں پاکستان نے غیر رجسٹرڈ افغان شہریوں کو افغان حکومت اور آئی او ایم کے تعاون سے افغان سٹیزن کارڈ بنا کر دینا شروع کئے گئے اور 2022ء تک جن افغان شہریوں کے پاس پی او آر کارڈ تھے، ان کی تعداد 14لاکھ تھی۔ جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ تھے ان کی تعداد آٹھ لاکھ 40ہزار جبکہ جن کے پاس کسی قسم کی کوئی شناخت نہیں تھی، ان کی تعداد سات لاکھ 75ہزار تھی ۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں رہنے والے کل افغانوں کی تعداد اب بھی 30لاکھ ہے۔ سوال یہ ہے پاکستان اتنی بڑی تعداد میں افغانوں کو پناہ دے رہا ہے ۔ اس پناہ گری سے ملک کو کئی مسائل در پیش ہیں جس میں سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے۔ پاکستانی شہریت کا ایکٹ مجریہ1951ء پاکستان میں پیدا ہونے والے افغان بچوں کو بھی پاکستانی شہریت کا حق نہیں دیتا۔ افغانی مرد اور خواتین جنہوں نے پاکستانی مرد و خواتین سے شادیاں کر رکھی ہیں، ان کے لیے بھی قانون اتنا گنجلک ہے کہ ان کے لیے پاکستانی شہریت کا حصول آسان نہیں لیکن یہ کوئی تشویش والی بات نہیں ترقی پذیر یا ترقی یافتہ ممالک میں بھی شہریت کے سخت قانون نافذ ہیں۔ جہاں شہریت حاصل کرنا اتنا آسان نہیں، پناہ گزینوں کے حوالے سے قانون میں سوفٹ کارنر ہونا چاہئے لیکن دہشت گردی جیسے مسائل کسی بھی ملک کے لیے قابل برداشت نہیں ہیں۔ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں ستمبر 2019ء میں کراچی میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ افغان بچے جو پیدا ہوئے ہیں انہیں پاکستانی شہریت دی جائے گی مگر بعد میں وہ ایسا نہیں کر سکے۔ ملک کو اس وقت در پیش مسائل میں معیشت کے بعد بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، جو معیشت اور ملک کی ترقی سے جوڑا ہے۔ قیام پاکستان کے ابتدائی ایام میں پاکستان کو جنگوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کے اثرات ابھی تک موجود ہیں، ابھی تک ملک کو سکیورٹی خطرات در پیش ہیں، پاکستان کو اپنے بارڈر محفوظ رکھنے کے لیے بھرپور سکیورٹی کی ضرورت ہے، عسکری اداروں کی محنت، قربانیوں سے پاکستان محفوظ ہے، عوام سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ سے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات کے لیے کوشاں ہے لیکن دہشت گردی نے پاکستان کی معیشت کو کمزور کر دیا ہے، اس تناظر میں افغانوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کر دئیے ہیں، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ ان افغانوں کو پناہ بھی دیں اور ان میں موجود افغان عنصر پاکستان میں دہشت گردی کریں۔ ایسا کوئی ملک برداشت نہیں کر سکتا تو پاکستان کیسے کر سکتا ہے جو سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہے۔

جواب دیں

Back to top button