Column

ہماری بربادیوں کے فیصلے

تحریر : سیدہ عنبرین
تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم اور چوتھی مرتبہ بھائی کو وزیراعظم بنوانے والے اور شریک اقتدار رہنے والی جماعت کے سربراہ نواز شریف پاکستان آ رہے ہیں، بہت اچھی بات ہے، یہ ملک ان کا ہے، جب چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں، جب چاہتے ہیں واپس آ جاتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ انہیں جب بھی اقتدار چھوڑنا پڑا یا انہیں کسی مقدمے میں سزا ہوئی انہوں نے پاکستان میں رہنا یا جیل میں رہنا مناسب نہیں سمجھا، انہوں نے فرمائش ہی نہیں ملک سے باہر جانے کیلئے لاکھ جتن کئے۔ دونوں مرتبہ ڈیل کی اور باہر نکل گئے، دونوں مرتبہ انہوں نے کڑے وقت میں ساتھ نبھانے والوں کو خبر تک نہ ہونے دی کہ ان کی پرواز تیار ہے۔ انہوں نے ہر اس وقت ملک آنے کا فیصلہ کیا جب انتخابات قریب اور اقتدار ملنے کی امید بندھی۔ مبینہ طور پر بتایا جا رہا ہے کہ وہ ہنوز بیمار ہیں، ان کے بیماری بہانے پر ان کے ووٹرز، سپورٹرز اور ان کی جماعت سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات اب یقین نہیں رکھتیں لیکن ان کی صفائی میں سب کہتے ہیں وہ بیمار تھے نہ ہیں لیکن سیاست میں سب چلتا ہے، ان کی بیماری کا بھانڈا تو ان لوگوں نے پھوڑا جنہوں نے انہیں بیمار قرار دے کر بیرون ملک بھجوایا۔ ان شخصیات میں سابق وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد بھی ہیں، جنہوں نے پہلے کہا کہ میں ڈاکٹر ہوں، میں نے خود ان کی رپورٹیں دیکھی ہیں، ان کی حالت اچھی نہیں، یہی کچھ شیخ رشید کہتے تھے، انصافی اقتدار کی بساط لپیٹ دی گئی تو کہتے ہیں تمام رپورٹیں جعلی اور جھوٹی تھیں، بعد کے واقعات منظر عام پر آئے تو کہانی کھلی کہ وہ بیجو باورا کے ساتھ کچھ لو کچھ دو کے اصول کے تحت مذاکرات میں طے شدہ شرائط کے تحت باہر گئے۔ انہوں نے ایکسٹینشن دینا قبول کی اور بدل میں رہائی لینا قبول کی۔ بیجو باورا نے نیازی پر دبائو ڈالا اور اسے سمجھایا کہ اسے جانے دو اور پھر سکون سے حکومت کرو، نیازی نے اپنے موقف سے انحراف کرتے ہوئے بے رحمی سے کہا کہ مجھے نواز شریف پر رحم آ گیا، یوں میں نے اسے جانے دیا، پلٹ لیٹس کم ہونے والے ڈرامے کے اختتامی مناظر تو قوم کو یاد ہوں گے۔ انہوں نے اپنی بیماری کے باوجود ویل چیئر کی بجائے بذریعہ لفٹر جہاز میں سوار ہونا مناسب سمجھا تاکہ کچھ لوگوں کو پیغام دیا جا سکے کہ وہ بیمار نہیں، کیونکہ خیال یہ کیا جا رہا تھا کہ ان کی حالت خراب ہونے کی جو سٹیج بیان کی جا رہی ہے اس کے مطابق وہ بذریعہ سٹریچر جہاز میں منتقل کئے جائیں گے اور لندن ایئر پورٹ پر ایک اور ایمبولینس منتظر ہو گی، جس کے سرہانے اور پانیتی کی طرف حسن نواز، حسین نواز ہوں گے۔ مریم نواز تو تیمار دار تھیں۔ لندن ایئر پورٹ سے ایمبولینس فراٹے بھرتی ہوئی کسی بڑے ہسپتال کے کمپائونڈ میں رکے گی جہاں سے انہیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کیا جائے گا، پھر وہ اللہ کے فضل سے ایک ماہ زیر علاج رہنے کے بعد گھر منتقل ہونگے، جس پر حسین نواز پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتائیں گے کہ الحمدللہ اب نواز شریف صاحب کی صحت تیزی سے ٹھیک ہو رہی ہے، وہ پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر حاصل کردہ ضمانت برائے چار ماہ پوری ہونے سے قبل ہی وطن پہنچ جائیں گے اور اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرتے ہوئے جیل جا کر عدالتوں کے روبرو اپنی صفائی پیش کریں گے۔ خصوصی جہاز کی آمد اور سواری کا منظر دیکھنے والوں کا ماتھا اس وقت ٹھنکا جب جہاز میں بیٹھتے ہی جناب نواز شریف ہشاش بشاش نظر آئے اور لندن ایئر پورٹ پر اترتے ہی سیدھے اپنے گھر پہنچ گئے، پھر لندن کی فضائیں انہیں ہمیشہ کی طرح راس آئیں، آخر لندن ان کا دوسرا گھر ہے بلکہ لندن میں مبینہ طور پر ان کے کئی گھر ہیں۔ انہی گھروں کے بارے میں ان کے ایک بیٹے نے اپنے ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ وہ تو کرائے کے گھر میں رہتے ہیں اور یہ کرایہ انہیں پاکستان سے بھجوایا جاتا ہے، جس کی پھر کوئی نئی ٹریل نہ دی جا سکی۔ دوسرے بیٹے نے ایک اور انٹرویو میں بتایا کہ الحمدللہ یہ فلیٹ ان کی ملکیت ہیں، جبکہ بیٹی نے قوم کو باور کرایا کہ لندن تو کیا میری پاکستان بھر میں کوئی جائیداد نہیں ہے، میں تو والدین کے ساتھ رہتی ہوں اور انہی کی ذمہ داری ہوں، پھر ان کی پاکستان میں جائیداد منظر عام پر آ گئی اور ان کے اپنے بھائی نے بتایا کہ میری بہن ان جائیدادوں کی بینفشری ہیں۔ مریم صفدر کے شوہر کیپٹن ( ر) صفدر نے بتایا کہ وہ تو فقط پندرہ سو ڈالر ماہانہ پر زندہ ہیں، ان کا کسی جائیداد سے کوئی تعلق نہیں۔ اربوں ڈالر کی جائیدادوں کی کہانیاں اینکر ارشد شریف ثبوتوں کے ساتھ قوم کے سامنے رکھ گیا، باقی سب کچھ والیم نمبر دس میں ہے، جیسے شریف وکلا نے ساتھ لگایا دیکھا اور کہا کہ اسے بند ہی رہنے دو، ہم اسے نہیں کھلوانا چاہتے۔ اب آیئے ذرا قوم کی تقدیر بدلنے کے ڈھکوسلے کی طرف، 1981ء میں نواز شریف وزیر خزانہ پنجاب بنائے گئے اور کام سیکھنا شروع کیا، جب سیکھ گئے تو 1985ء میں وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیئے گئے۔ 1988ء میں دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔ 1990ئ میں وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ 1997ء میں دوبارہ اور 2013ء میں تیسری بار وزیراعظم پاکستان بن گئے۔ 5برس ان کی پارٹی اقتدار میں رہی، دوسری طرف 1997ء میں ان کے بھائی شہباز شریف وزیراعلیٰ پنجاب بنے، پھر 2008ء میں 5برس وزیراعلیٰ پنجاب رہے، 2022ء میں وہ بھی وزیراعظم بن گئے۔ نہ تھانہ کلچرل درست کر سکے نہ ریلوے ٹھیک ہوئی، پی آئی اے اور سٹیل ملز کا مکمل خانہ خراب ہوا، پاکستان پر قرضوں کے انبار میں ہوشربا اضافہ ہوا، کوئی ایک ادارہ ان سے ٹھیک نہ ہو سکا، خرابیاں بڑھتی گئیں، اب پھر وہی پرانی کہانی کہ ملک و قوم کی قسمت بدل دیں گے۔ وطن آئیں ضرور آئیں، وزیراعظم بھی بنیں لیکن لمبی کہانیاں نہیں دو سطروں میں مسائل کا حل بتائیں۔ پاور پروڈیو سے جو ملک دشمن معاہدے کر گئے ہیں انہیں ختم کریں گے جواب ہے نہیں۔ سٹیل ملز کی اونے پونے فروخت روکیں گے جواب ہے نہیں، پی آئی اے خود سے نہیں چلتی تو ان سے مشورہ کر لیں جنہوں نے ایمریٹس ایئر لائن کو دنیا کی بہترین ایئر لائن بنا دیا، اسے فروخت ہونے سے بچائیں گے جواب ہے نہیں، ریلوے پچاس برس تک کمانے والا بیٹا تھا اسے نقصان سے باہر کب تک لائیں گے جواب کچھ نہ ہو گا بلکہ ہر بات کا ایک ہی جواب ہو گا یہ تمام ادارے ہماری معیشت پر بوجھ ہیں، جلد از جلد ان سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے، جب یہ سب کچھ بیچ لیں گے پھر ملک اور اس کا نظام ٹھیک ہو جائے گا ملکی قرضے اتر جائیں گے جواب ہو گا نہیں، تو پھر کیا بیچیں گے اور کس کو کتنے میں بیچیں گے، امریکیوں نے ٹھیک کہا تھا پاکستانی روپے کیلئے اپنی ماں تک کو بیچ دیتے ہیں۔
آج علی الاعلان ماں کا سودا ہو رہا ہے، سب سو رہے ہیں بلکہ مدہوش ہیں، کسی کو کوئی فکر نہیں، کچھ اور سوال بھی ہیں جن کا جواب ہو گا نہیں، بھائی بیمار شیمار صاحب آپ کو اکثریت مل گئی تو گھر کے باہر سے کوئی وزیراعظم لائیں گے جواب ہو گا نہیں کوئی اس قابل نہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب کسی اور شہر سے لائیں گے جواب ہو گا سب سست رفتار ہیں، سمدھی کے علاوہ کوئی اور وزیرخزانہ نظر آتا ہے جواب ہو گا نو نو وہی تو مالیاتی جادوگر ہے، اچھا کوئی متبادل وزیر اعظم جواب ملے گا اوہ یس مریم نواز ہے نا، ٹوٹل کہانی یہ ہے، باقی سب کیا ہے آپ خوب جانتے ہیں، اس کے علاوہ سات خون بھی معاف ہونگے۔؟ کیونکہ ابھی قوم کی خدمت کا موقعہ نہیں ملا۔ ہماری بربادیوں کے فیصلے کسی کو نظر آتے ہیں یا نہیں۔

جواب دیں

Back to top button