Column

بریسٹ کینسر: لوگ کیا کہیں گے۔۔؟

تحریر : محمد نور الہدی
پاکستان میں ہر سال اکتوبر کا مہینہ بریسٹ کینسر سے آگاہی کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ مہینہ شروع ہوتا ہے تو میری نظر میں کئی ایسے قریبی رشتہ دار اور دوست احباب گھومنے لگتے ہیں جو بریسٹ کینسر کا شکار ہوئے اور آج ہم میں موجود نہیں۔ تب معاشرے میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے زیادہ آگاہی موجود نہیں تھی۔ گو کہ علم ہونے پر علاج کیلئے بہت بھاگ دوڑ ہوئی۔ کوئی ہسپتال، پیر، فقیر نہیں چھوڑا گیا۔ مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر علاج کی ہر کوشش کی گئی۔ مگر بہت تاخیر ہو چکی تھی۔ بریسٹ کینسر سے آگاہی کا مہینہ میرے اندر مذکورہ تمام متاثرین اور لواحقین کے دُکھ تازہ کر دیتا ہے۔ مختلف بیماریوں سے نہ صرف آگاہی رکھنا، بلکہ ان کے علاج کی کوشش ہر فرد کا حق ہے۔ اس کا خود کو اس حق سے محروم رکھنا اپنے ساتھ ایک ایسی زیادتی ہے جس کا ازالہ سالوں بھگتنا پڑتا ہے۔ خواتین میں چھاتی کے بڑھتے سرطان کی ایک بڑی وجہ جھجک ہے۔ ’ لوگ کیا کہیں گے‘ یا، معمولی مسئلہ سمجھ کر پہلے ایسی بیماری کو نظرانداز کیا جاتا ہے یا پھر دیسی ٹوٹکوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جب بات بگڑ جاتی ہے تو علاج کیلئے یہاں وہاں بھاگا جاتا ہے، مگر تب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ حالانکہ ماہرین کا موقف ہے کہ بریسٹ کینسر ایسی بیماری ہے جس کو ابتدائی طور پر ہی پکڑا جائے تو بچنے کے چانسز 95فیصد سے زائد ہوتے ہیں۔ تاہم دنیا کے بدلتے مزاج اور ترجیحات کے ساتھ ساتھ اب صورتحال مختلف ہوچکی ہے۔ جس معاشرے میں پہلے مذکورہ حوالے سے بات کرنے میں جھجک آڑے رہتی تھی، وہاں اب ’ پنک ربن‘ نامی ایک پلیٹ فارم کی وجہ سے خواتین میں بریسٹ کینسر سے بچائو سے آگاہی اور مختلف ہدایات دینے کے ضمن میں منظم آگاہی مہم بھرپور انداز میں چلائی جاتی ہے اور علاج میں کوتاہی نہ برتنے بارے انہیں خبردار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح پورے ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر 9میں سے 1خاتون کو بریسٹ کینسر ہونے کا رسک ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد خواتین بریسٹ کینسر کے رسک پر ہیں۔ پاکستان تھرڈ ورلڈ ممالک سے تعلق رکھنا والا وہ ملک ہے جہاں 60فیصد سے زائد افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں لوگ مہنگے علاج کے خوف سے بھی ہسپتالوں میں جانے سے کتراتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر تشخیص کی مناسب فیس بھی وصول کرے تو ادویات ہی اس قدر مہنگی ہوتی ہیں کہ انہیں ریگولر بنیادوں پر لیتے رہنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اسی لئے آغاز میں چھاتی میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کو معمولی گردانا جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پنجاب حکومت نے سرکاری ہسپتالوں میں جو 18میموگرام مشینیں انسٹال کی ہیں، ان سے استفادہ کرنے والی خواتین کی تعداد بے حد مایوس کن ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ اسی رویے کی وجہ سے تقریباً 70فیصد خواتین اُس وقت ہسپتال میں علاج شروع کراتی ہیں جب وہ انجانے میں بریسٹ کینسر کی تیسری سٹیج پر پہنچ چکی ہوتی ہیں اور یوں پاکستان میں ہر سال 40ہزار سے زائد خواتین موت کے منہ میں جا رہی ہیں۔ اگر وہ تیسری اسٹیج کی بجائے ابتداء میں ہی مستند جگہوں سے اپنا چیک اپ کروانا شروع کر دیں تو نہ صرف علاج کے اخراجات کنٹرول میں رہیں گے بلکہ ان کا شمار صحتیاب ہو کر اس مرض سے چھٹکارہ پانے والی 95فیصد خواتین میں ہوگا۔ ’پنک ربن‘ کے مطابق پاکستان میں ہر سال چھاتی کے کینسر کے 90ہزار نئے مریض سامنے آتے ہیں۔ اس صورتحال میں خواتین میں جھجک کا عنصر ختم کرنے کیلئے وسیع پیمانے پر آگاہی مہم کی ضرورت ہے۔ آگاہی کا فقدان دور کرنے اور اس کے خاطر خواہ نتائج حاصل کرنے کیلئے آگاہی مہم کا دائرہ کار مساجد میں خطبوں، تعلیمی اداروں میں سیمینارز، ہسپتالوں اور کاروباری پوائنٹس پر تشہیری ذرائع کے استعمال حتیٰ کہ گھروں تک آگاہی پمفلٹس پہنچانے کی صورت میں بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں لائف لانگ میسج سرایت کر سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ ہر زون کی سطح پر فری ڈائیگناسٹک سروسز مہیا کی جائیں۔ جبکہ یہ بھی ضروری ہے کہ جن ہسپتالوں میں یہ سروسز موجود ہیں وہاں خواتین کو ٹیسٹوں اور علاج کیلئے شارٹ سے شارٹ ٹائم دیا جائے تاکہ ان کی تیز ترین ریکوری ممکن ہو سکے۔ خواتین میں چھاتی کے سرطان کی بڑھتی شرح دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ اب ’ لوگ کیا کہیں گے‘ سے آگے نکلنا ہوگا۔ اس ضمن میں یہ امر بھی یقینی بنانا انتہائی ضروری ہے کہ جو خواتین چھاتی کے سرطان کی تیسری اور چوتھی سٹیج پر پہنچ چکی ہیں ان کیلئے علاج کی سہولیات کم لاگت کی جائیں تاکہ ان کے گھر والے با آسانی ان کا علاج کرا سکیں، وگرنہ 20 لاکھ روپے کے قریب ہونے والا علاج ہر خاتون کیلئے کرانا ممکن نہیں۔

جواب دیں

Back to top button