Column

سائنسدانوں کو سوچنا ہوگا

تحریر : جمیل ادیب سید
ہمارا دماغ اللہ نے اپنے کرم سے ایسا بنایا ہے کہ سخت حیرت ہوتی ہے بہت ساری باتوں کا قبل از وقت بلکہ بہت عرصہ پہلے پتہ چل جاتا ہے جب ہم اظہار کرتے ہیں تو پہلے کسی کو یقین نہیں آتا پھر جب کوئی بڑا سائنسدان وغیرہ، تصدیق کر ے یا واقعہ رونما ہو تو لوگ حیران ہوکر کہتے ہیں کہ آپ کا اندازہ صحیح تھا۔ سیاسی طور پر بھی ہمارے اکثر اندازے صحیح ثابت ہوئے ہیں۔ جب عمران خان نے تحریک انصاف بنائی اور سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو وہ کرکٹ میں ایک عظیم اور نامور کھلاڑی تھا۔ جس کے کارناموں نے پاکستان کا نام دنیا میں بلند کیا مگر سیاسی طور پر وہ کسی گنتی میں نہ تھا مگر ہم نے دو ہزار ایک میں ایک مضمون لکھا اور اندازہ ظاہر کیا کہ عمران خان سیاست میں کامیاب ہو جائیگا اور ایک دن اس کی حکومت ہوگی۔ لوگوں نے ہمارا مذاق اڑایا لیکن سترہ سال بعد 2018ء میں ہماری پیش گوئی صحیح ثابت ہوئی۔ اسی طرح اس کے غلط یا پھر Over Confidenceوالے فیصلوں پر ہم نے کہا یہ پانچ کیا چار سال بھی پورے نہیں کر سکے گا وہ بات بھی پوری ہوگئی۔ ایسی بہت ساری باتیں ہیں ۔
روسی ٹیکنیکل سسٹم ( وہ ادارہ جو ایٹمی اسلحہ پر کنٹرول رکھتا ہے اس کا کچھ نام ہے جو ابھی ہمیں یاد نہیں ) اس کا ایک خوفناک واقعہ ہم نے کسی اخبار میں پڑھا تھا، جو رپورٹ کی صورت میں تھا۔ ایک رات ڈیوٹی کے دوران میزائل کنٹرولر نے آبزرویشن سکرین پر دیکھا۔ ( جوابی حملہ کیلئے ایک لانچر تھا، جس میں بیک وقت کم از کم چھ میزائل صرف معمولی اشارے سے چلنے تھے ) نامعلوم کیسے وہ میزائل کسی سبب سے راستے میں بھسم ہوگیا، رپورٹ میں اس کنٹرولر کی ایک حاضر دماغی نے عالمی جنگ کو روک لیا۔ اس نے صرف اتنا سوچا کہ اگر کسی دشمن کی طرف سے فائر ہوا ہوتا تو پھر ایک نہیں ہوتا، اس کی صرف اس سوچ اور بروقت فیصلے سے عالمی جنگ سے دنیا محفوظ رہی۔ اس کے علاوہ ایک دو سال قبل بھارت کے اسی سسٹم کی خرابی سے ایک میزائل پاکستان میں آگرا جس پر بھارت نے معذرت کرتے ہوئے سسٹم کی خرابی کا سبب بتایا۔ یہ دو واقعات بتاتے ہیں کہ کمپیوٹر سے از خود بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ ایک دفعہ گھریلو گیس کا بل جو بھی آتا رہا ہم جمع کرتے رہے کہ کرنٹ بل کی قسط نہیں ہوتی۔ حالانکہ معمول سے زائد تھے مگر بہ مجبوری جمع کرتے رہے اسکے بعد تین ماہ تک بل کی کوئی رقم نہ جمع کرنے کی تاکید بل پر آتا رہا ۔ ظاہر ہے کمپیوٹر کی غلطی سے جو فالتو رقم جمع ہوگئی تھی اس کو گیس کمپنی نے تین ماہ تک بل نہ لے کر پورا کر دیا ۔ قصہ مختصر یہ کہ انسان کی تخلیق کردہ ہر مشین کبھی نہ کبھی غلطی کر سکتی ہے، جس سے کبھی کم اور کبھی بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔ برسوں پہلے مصنوعی ذہانت کا چرچہ ہو ا اور کمپیوٹر وجود میں آیا یعنی پاکستانی متعارف ہوئے ( ٹیلی ویژن 1954ء میں امریکہ میں ایجاد ہوچکا تھا ) جبکہ پاکستان میں 1963ء میں آیا، اس کے بعد مختلف الیکٹرانکس اور کمپیوٹر ایجاد ات سامنے آتی رہیں، پھر غالباً تیس سال قبل مشینی انسان کی بات نکلی اور روز مرہ کے کام کرنے والے روبوٹ بنائے گئے۔ اس وقت ہم نے ایک مضمون لکھا تھا کہ یہ مصنوعی ذہانت بالآخر بنی نوع انسان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ نامعلوم یہ بات کیوں ذہن میں آئی تیس سال بعد یہ ہی بات سائنسدان کہہ رہے ہیں کہ مشینی انسان کو اس قدر خود مختار یا خود کار بنا دیا گیا ہے کہ وہ تمام تر انسانی کام کر رہا ہے حد یہ کہ اس کو سوچنا اور ہر سوال کا جواب دینا بھی آگیا ہے ۔
گزشتہ دنوں مشینی انسانوں نے از خود پریس کانفرنس کی اور ایک خصوصی عندیہ پیش کیا۔ ’’ ہم دنیا کو انسانوں سے بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں جبکہ ہم بنی نوع انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر اور موثر رہنمائی کے قابل ہیں۔ کیونکہ نہ انسانوں کی طرح ہم جذبات رکھتے ہیں نہ انکی طرح تعصب کا اظہار کر سکتے ہیں جو بعض وقت انتہائی اہم موقع پر انسانوں کی درست فیصلہ سازی کو دھند لا دیتے ہیں۔ کیا اشرف المخلوقات کا درجہ رکھنے والے انسان ہمیں اپنی دنیا کی رہنمائی کا ایک موقع دینگے ‘‘۔ ایک قومی روزنامے کے سنڈے میگزین میں یہ رپورٹ نما مضمون شائع ہوا۔ جس کا Captionہے اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں روبوٹس کی شرکت ٹیکنالوجی کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے مصنوعی ذہانت کی خوبصورت پری کو پہلے مرحلے میں قواعد و ضوابط کا پابند نہ کیا گیا تو دوسرے مرحلہ میں یہ ڈیجیٹل جن اور تیسرے مرحلے میں عفریت کی شکل اختیار کر لیگی۔ فاضل مضمون نگار رائو محمد شاہد اقبال جن کا نواب شاہ سے تعلق ہے، ان کے تجزیاتی کالم ہم اکثر سنڈے میگزین میں پڑھتے ہیں۔ موجودہ تجزیہ بھی بغور ہم نے پڑھا تو خوشی ہوئی کہ یہ تجزیہ ہمارے چالیس سال قبل کے تجزیے کے عین مطابق ہے لیکن وہ کھل کر مافی الضمیر جہاں تک ہم سمجھتے ہیں تحریر نہ کر سکے۔ انہوں نے انتہائی کارآمد اور بظاہر بے ضرر ایجاد مصنوعی ذہن والی مشینی مخلوق کو مستقبل بعید میں عفریت بن جانے کا خدشہ ظاہر کیا ہے اور صرف ایک جگہ سرسری سا لکھا ہے۔ لگتا ہے مصنوعی ذہانت سے بڑا انقلاب شائد کرہ ارض پر کبھی آہی نہیں سکتا۔ لیکن دوسری طرف یہ مشین لوگوں کو دنیا میں بیروزگار بھی کر رہی ہے، نیز دھوکہ دہی سے بے شمار لوگوں کو ذہنی جذباتی اور مالیاتی نقصانات بھی پہنچا رہی ہے۔ ماہرین کا یہ خدشہ بھی بے بنیاد نہیں کہ ’’ مستقبل میں مصنوعی ذہانت کو قابو میں رکھنا نا ممکن ہوجائے گا اور عین ممکن ہے کہ مصنوعی ذہانت کے شاہ کار روبوٹ کرہ ارض پر قبضہ کرنے کے لئے انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے پر تل کر قتل عام شروع کر دیں اور ایک دن ( نامعلوم مدت کے بعد ) کرہ ارض سے انسان کا وجود مٹ جائے ‘‘۔ حتمی معانی کے اظہار کیلئے ہم نے الفاظ میں تبدیلی کی ہے۔ ہم نے جو چالیس سال قابل تجزیہ کیا تھا وہ ممکن تیسری عالمی جنگ میں طاقت کے گھمنڈ میں اندھے بھارت اور امریکہ جیسے ممالک یقیناً ایٹمی اسلحہ استعمال کرینگے جبکہ جوابی طور پر روس، چین، شمالی کوریا اور پاکستان بالآخر ایٹمی اسلحہ استعمال کرینگے۔ جس سے دنیا میں انسانی وجود شائد مٹ جائے ۔ لیکن زمین دوز ( ہزاروں فٹ نیچے زمین کی گہرائی میں محفوظ ) لیبارٹریوں میں موجود روبوٹ نکل نکل کر زمین پر پھیل جائینگے اور ممکن ہے وہ کھنڈرات کو از سر نو تعمیر کرنے کی کوشش کریں اور نامعلوم سیارے پر پہلے سے آباد سائنسدان یا امیر ترین لوگ کسی محفوظ اور انتہائی طاقتور راکٹ کے ذریعے زمین کا معائنہ کرنے آئیں اور روبوٹ ان کو گرفتار کر لیں یہ خیال ہم نے اپنے ایک طویل افسانے ’’ آبادی کا آخری آدمی‘‘ میں پیش کیا تھا۔ آج سائنسی ماہرین کا آخر کار اس طرف اشارہ ہے جس کا اظہار چالیس سال قبل نامعلوم ہم نے کیونکر کیا تھا۔
ہم ذاتی طور پر ہم یہ سوچتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت سے بھر پور مشینی انسان انسان نے ہی تخلیق کئے ہیں بھلا وہ انسان پر کیونکر حاوی ہوسکتے ہیں۔ کیونکہ سوچنے کی صلاحیت بروقت عمل کرنے، فیصلہ کرنے، ایڈونس حملہ کرنے اور ڈیفنس کی صلاحیت اگر انسان میں سو فیصد ہے تو کسی بھی مشین میں یہ صلاحیت سو فیصد کیا پچاس فیصد بھی نہیں ہوسکتی۔ فرض کیا کسی بھی انسان پر اچانک چار طرف سے چار مشینی انسان حملہ آور ہوں اور وہ غیر مسلح بھی ہو تو ایک کو گھونسا مار کر دوسرے کو لات جمائے گا اور اچھل کر اس کے نرغے سے نکل جائے گا۔ یعنی مشین انسان کی محتاج ہوسکتی ہے، انسان مشین کا محتاج قطعی نہیں ہوسکتا۔ مصنوعی ذہانت کے خطرات پر ایک اور مضمون شائع ہوا ہے۔ یہ چار عظیم سائنسدانوں کے خیالات پر مشتمل تھا۔ اب ہم یہ سوچتے ہیں جیسا کہ اوپر ہم نے بتایا کہ انسان مشین کا محتاج کبھی نہیں ہوسکتا۔ ٹائم پیس یا بغیر سیل والی ریسٹ واچ ایسی بے ضرر مشینیں ہیں۔ ریسٹ واچ تو خیر آٹو میٹک ہوتی ہے۔ جس میں کسی قسم کی انرجی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ٹائم پیس میں کم از کم چوبیس گھنٹے میں ایک مرتبہ چابی بھرنا ضروری ہوتا تھا۔ اب غور کرنے کی بات ہے۔ مصنوعی ذہانت کے شاہکار مشینی انسان میں استعمال ہونے والے تمام تر پرزے ایک بہت بڑی فیکٹری میں بنائے جاتے ہیں، ہر پرزہ بنانے کا ایک علیحدہ یونٹ ہے جہاں ہاتھ سے انسان کام کر رہا ہے، مدد کیلئے مختلف قسم کے آلات پلاس پانے وغیرہ استعمال ہوتے ہیں اور تمام شعبوں کی تیار ی ( پرزے) ایک بڑی شاپ میں جاتے ہیں جہاں کم از کم چار ورکر مشینی انسان یہ تمام پرزے جوڑ کر تیار کرتے ہیں وہ مشینی انسان از خود چل کر ایک شعبہ میں جاتا ہے جہاں اس کی مکمل چیکنگ ہوتی ہے اور پھر آخری شعبہ میں جانے پر اس کو کوئی نام رکھ کر ایک شاندار شو کیس میں رکھ دیا جاتا ہے۔ اب یہاں روبوٹ اسمبل کرنے والے چار افراد کی تنخواہ، یونیفارم، ان کے کھانے، ناشتے کیلئے کینٹین اس کا عملہ اور کھانا پکانے کا ٹوٹل سامان ضروری ہے۔ کم از کم دو ٹائم چائے صبح دس بجے اور شام تین بجے تنخواہ ہر ماہ اور زیادہ دیر رکنے پر اوور ٹائم وغیرہ کا اہتمام لازمی امر ہے ۔ تو چار افراد کا کام اکیلا روبوٹ ماسوا یونیفارم کے کھانا پینا تنخواہ اوور ٹائم انشورنس چھٹی ہفتہ وار صبح دس بجے اور شام تین بجے ریسٹ ٹائم کی ضرورت نہیں۔ اس کے بیوی بچوں کو میڈیکل سہولت کی ضرورت نہیں تو کینٹین اور ماہوار تنخواہ اوور ٹائم وغیرہ سب بچ گیا۔ روبوٹ کو کام پر لگا دیا اب اپنے قریب ضروری ٹول اور میٹریل چاہئے۔ جن مادوں یعنی معدنیات کو کانوں سے نکالا جاتا ہے کان کن دھکیلنے والے روبوٹ ٹرکوں پر لوڈ کرنے والے ٹرک ڈرائیور اس کے معاون سب روبوٹ ہونگے۔ اب الیکٹرک یا پتھر کے کوئلہ والے بھٹیوں میں ڈھالنے والے مختلف مشینوں پر بفنگ اور تراشنے، کاٹنے والے روبوٹ، پر زے ڈائیوں کے ذریعہ ڈھالنے، تراشنے والے روبوٹ اور اسمبلی ورکشاپوں تک پہنچانے والے روبوٹ۔ اپنے جیسے مختلف سائز کے ضرورت کے مطابق روبوٹ تیار کرنے والے ماہرین روبوٹ۔ یعنی تقریباً سب ہی روبوٹ روبوٹ کے ذریعے فیڈ کئے ہوئے کام کرینگے، خود سے اپنے طور پر کوئی کام کسی ماسٹر روبوٹ کے فیڈ کئے ہوئے پروگرام کے مطابق عمل کرینگے۔ ان میں جنگجو مسلح روبوٹ بھی ہونگے، فیڈ کئے پروگرام کے مطابق انہوں نے جنگ میں حصہ لینا ہے، روبوٹ ماسٹر ( پرفیکٹ) کی غلطی سے کوئی ضروری پرزہ رہ گیا، یا ناقص لگا دیا یا اضافی لگ گیا تو یہ غلطی روبوٹ سے ہوسکتی ہے۔ ری ایکشن میں اگر دشمن فوج کو مارنے کی پہچان بذریعہ کمپیوٹر کرائی گئی ہے۔ غلط اسمبلینگ کی وجہ سے وہ دشمن فوج کے بجائے اپنی فوج پر اور دشمن عوام کے بجائے اپنے عوام پر فائرنگ یعنی اجتماعی قتل شروع کر دے گا اور ایک نہیں سیکڑوں مسلح روبوٹ ایسا کر سکتے ہیں پھر کیا ہوگا۔ اگر انسان نے ایسی کسی صورت حال سے بچنے کا فارمولا پہلے سے بناکے رکھا ہوا ہوگا تو ان لاکھوں جنگجو مشینی انسانوں پر قابو پا سکے گا۔ ورنہ یہ مشینی انسان دنیا پر قبضہ کیلئے چن چن کر انسانوں کو نیست و نابود کر دینگے اور بنی نو ع انسان کا نام نشان مٹ جائے گا۔ یہ مسلح مشینی انسان اڑنی والے بمبار بھی ہوسکتے ہیں۔ سائنسدانوں نے آج تک دو قسم کے سامان یعنی ایجادات کی ہیں۔ نمبر ایک زیادہ سے زیادہ انسان اور انسانیت کو فائدہ اور تحفظ دینے والی اشیا اور نمبر دو زیادہ سے زیادہ انسان اور انسانیت کو تباہ و برباد کرنے والی اشیا۔ اب سائنسدانوں کو سوچنا ہوگا کہ اس ہنستی بستی دنیا جہاں خوبصورت پھول بچے اور خواتین ہیں، نوجوان ہیں، ان کو زیادہ سے زیادہ محفوظ مستقبل فراہم کرنا ہے یا جنگجو بمبار مشینی انسان بناکر نیست و نابود کر دینا ہے۔

جواب دیں

Back to top button