
سی ایم رضوان
ایک زمانہ تھا جب ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء ادوار میں کچھ لوگوں اور جماعتوں پر ریاستی جبر ہوا کرتے تھے۔ تب جو لوگ اور سیاستدان ریاستی جبر کے خلاف بیانیہ بنا کر جو سیاسی کام کرتے تھے تو وہ جچتا بھی تھا اور ایک حد پر جا کر کامیاب بھی ہوتا تھا اور برداشت بھی کیا جاتا تھا۔ اب تو پچھلے چند سالوں سے خود ریاستی اداروں پر جھوٹے الزامات لگا کر اور سوشل میڈیا پر فرضی ٹرینڈ بنا کر ریاستی صبر کو آزمایا جا رہا ہے۔ تازہ مثال عثمان ڈار کی دی جا رہی ہے اور اس پر ریاستی جبر کا جھوٹا، فرضی اور بے بنیاد پراپیگنڈا وہ لوگ کر رہے ہیں جو خود پچھلے کئی مہینوں سے اپنے الزاماتی ٹرینڈز کے ذریعے ریاستی صبر کو آزما رہے ہیں۔ ان دنوں خاص طور پر لاہور کی میاں برادری کے ایک ہونہار سپوت حماد اظہر کا الزامات پر مبنی بیان گردش کر رہا ہے کہ عثمان ڈار پر جو تشدد کیا گیا وہ کوئی اور برداشت نہیں کر سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف کے اس سینئر رہنما حماد اظہر جو کہ سابق وفاقی وزیر بھی ہیں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس ( ایکس ) پر عثمان ڈار کے انٹرویو پر اپنے ویڈیو بیان میں ردعمل دیتے ہوئے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ عثمان ڈار ہماری پارٹی کے رہنما تھے، ابھی بھی ہیں اور رہیں گے۔ اس حوالے سے عثمان ڈار پہلا پی ٹی آئی رہنما ہے جو پارٹی سے گلو خلاصی کا اعلان کر رہا ہے مگر صرف حماد اظہر اس کی پارٹی کے ساتھ تا قیامت وابستگی کا محض اپنی طرف سے اعلان کر رہے ہیں۔ حماد اظہر نے اس ویڈیو میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ ہماری پارٹی کے ایک رہنما کے بیٹے کو کرسی سے باندھ کر تشدد کیا گیا، والد سے پریس کانفرنس کروانے کے لئے بیٹے سے بات کروائی گئی۔ اب اگر حماد اظہر سے کرسی اور تشدد کرنی والے شخص کا نام پوچھا جائے تو ہر گز نہیں بتا پائیں گے لیکن یہ بے سروپا بات کر کے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو پراپیگنڈا کے لئے ایک لقمہ ضرور دے دیا ہے۔ یہ لوگ اسی طرح سے حساس اداروں کو بدنام کر رہے ہیں اور خود کو مظلوم بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح حماد اظہر نے صحافی عمران ریاض کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران ریاض کی حالت دیکھی کہ کس حالت میں ان کو لوٹایا گیا، حالانکہ خود عمران ریاض نے آج تک کسی تشدد کرنے والے ادارے یا افسر کا نام تک نہیں بتایا۔ حماد اظہر نے یہ استدلال بھی دیا کہ چونکہ عمران ریاض کی حالت خراب تھی اس لئے عثمان ڈار کا بھی معائنہ کرنے یا الزامات کی تصدیق یا تردید کرتے کی ضرورت نہیں۔ حماد اظہر نے مزید کہا کہ عثمان ڈار کا یہ بیان یکسر غیر ذمہ دارانہ بیانیہ ہے جسے ہماری پارٹی کو تقسیم کرنے کے لئے بنانے کی کوشش کی گئی، اسے ایک شوشہ سمجھا جانا چاہیے، احمقوں کی جنت کے مکین ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہماری پوری پارٹی یکجا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے دیرینہ رہنما عثمان ڈار نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی پروگرام میں دیئے گئے انٹرویو میں عمران خان سے راہیں جدا کرتے ہوئے نا صرف پارٹی بلکہ سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ بھی کہا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنی گرفتاری کی صورت میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنانے کی ہدایات دی تھیں۔ یہ بھی کہا کہ اکتوبر 2022ء میں لانگ مارچ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی روکنے کے لئے کیا گیا اور سانحہ نو مئی حملوں کا مقصد فوج پر دبائو ڈال کر جنرل عاصم منیر کو عہدے سے ہٹانا تھا، فوج مخالف گروپ چیئرمین پی ٹی آئی سے سب سے قریب تھا اور چیئرمین پی ٹی آئی نے گرفتاری سے بچنے کے لئے ہیومن شیلڈ کا استعمال کیا۔
پاکستان کے عوام کو اچھی طرح یاد ہے کہ ایک وقت وہ بھی تھا جب اقتدار سے بذریعہ عدم اعتماد علیحدگی اور پنجاب، کے پی کے حکومتوں کے اپنے ہاتھوں خاتمے اور اقتدار دوبارہ ملنے سے مایوسی کے عالم میں دیوانہ وار عمران خان فوج کو یکطرفہ طور پر بدنام کرنے سے رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ افسوس ناک حد تک وہ لگاتار فوج اور فوج کی اعلیٰ قیادت پر حملے جاری رکھے ہوئے تھے۔ انٹرنیشنل میڈیا کو دیئے جانے والے اپنے انٹرویوز میں ایک طرف اُنہوں نے آرمی چیف کو اپنے نشانے پر رکھا ہوا تھا تو دوسری طرف نو مئی کے سانحہ پر روزانہ ایک نیا بیانیہ تشکیل دیتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ ایک روز تو یہ بھی کہہ دیا کہ 9مئی تو فالس فلیگ آپریشن تھا جس کا مقصد اُنہیں فوجی عدالت کے ذریعے سزا دلوا کر جیل میں ڈالنا تھا۔ اس سے پہلے اُنہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایجنسیوں کا کام ہے، پھر یہ بھی کہا کہ اُن کے ورکرز نے اُن کی رینجرز کے ہاتھوں گرفتاری کا منظر دیکھ کر یہ ردعمل دیا۔ 9مئی کے بارے میں یہ دھمکی بھی دی تھی کہ اگر اُنہیں دوبارہ گرفتار کیا گیا تو پھر بھی ایسا ہی ردعمل آئے گا۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف نے جناح ہائوس حملہ میں مبینہ ملوث ایک شخص کو ایجنسیوں کا آدمی بنا کر پیش کیا تھا بعد ازاں وہ بھی پکڑا گیا وہ بھی تحریک انصاف کا ہی ووٹر، سپورٹر تھا۔ جو کچھ 9مئی کو ہوا اُس پر اُنہیں شرمندگی ہونی چاہئے تھی، اُس پر اُنہیں معافی مانگنی چاہئے تھی، اُس کی بغیر کسی لگی لپٹی کے سخت ترین الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے تھی لیکن ان کی جانب سے تو کھیل ہی نیا کھیلا جا رہا تھا۔ وہ اپنے ہی ملک کی فوج کو اپنے مذموم مقاصد کے سامنے سرنگوں کرنا چاہتے تھے۔ وہ بھارت سمیت دنیا بھر کے دشمنان پاکستان کو خوش کر رہے تھے۔ وہ بیانیہ ریاستی جبر کا بیچتے تھے اور خود ریاستی صبر کا تماشا دیکھ رہے تھے۔
ایک موقع پر آ کر تو حد ہی ہو گئی تھی کہ امریکہ میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے متعدد پاکستانی، جن کے پاس امریکی شہریت ہے، وہ عمران خان کی محبت میں پاکستان کے خلاف ہی سرگرم ہو گئے تھے۔ ان افراد میں ایک ایسا شخص بھی شامل تھا اور ہے جو خود کو امریکہ میں چیئرمین پی ٹی آئی کا فوکل پرسن کہتا اور تحریک انصاف کا امریکہ میں سابق صدر ہونے کا بھی دعویٰ کرتا تھا۔ یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ متعدد امریکی اراکین پارلیمنٹ کے ذریعے پاکستان پر امریکہ کی طرف سے دبا ڈالنے کے لئے کوششیں کی گئیں۔ سنگین ترین امر یہ کہ نوجوانوں کو اس حد تک جھوٹے انقلاب کا خواب دکھایا گیا کہ وہ نعوذباللہ یہ کہتے تھے کہ عمران خان کے بغیر پاکستان کچھ بھی نہیں۔ وطن دشمنی تک کا بیانیہ فروخت کیا گیا۔ فوج کے شہداء تک کا تقدس پامال کیا گیا۔ واضح رہے کہ 2011-12 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جو میمو گیٹ سکینڈل سامنے آیا تھا اُس میں امریکی حکومت کی جانب سے پاک فوج پر دبا ڈالنے کی بات کی گئی تھی۔ اُس میمو گیٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ماتحت ایک کمیشن بنا تھا جس نے تصدیق کی تھی کہ میمو ایک حقیقت ہے۔ اُس میمو گیٹ کے مقابلے میں امریکہ میں مقیم تحریک انصاف کے لوگ جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ ماضی سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ یہ لوگ کھل کر پاکستان پر دبائو ڈالنے اور فوجی امداد پر پابندیاں لگانے کی تجویز دیتے رہے ہیں اور ایک ایسا ماحول پیدا کرتے رہے ہیں کہ امریکہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ حالانکہ گفتنی طور پر تو تحریک انصاف امریکی مداخلت کے خلاف تھی اور ایبسولوٹلی ناٹ کا نعرہ بھی بلند کرتی رہی ہے لیکن اپنے سیاسی مفاد کے لئے اُسی امریکہ کو اب پاکستان پر دبائو ڈالنے، پاکستان کی امداد پر پابندیاں لگانے اور یہاں مداخلت کرنے کی کھلی دعوت دی جاتی رہی۔ جب عمران خان جنرل باجوہ کے عشق میں گرفتار تھے تو کہتے تھے کہ پاکستانی فوج اُن سے زیادہ اہم ہے لیکن بعد ازاں اقتدار سے محرومی پر پاکستان اور پاک فوج دونوں کو ناکارہ کرنے پر تل گئے۔ یہاں تک کہ اب بھی ان کے بچے جمورے ریاستی جبر کا جھوٹا اور منفی پراپیگنڈا کر کے عذاب الٰہی کو دعوت دے رہے ہیں۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اب عمران خان نہیں تو کچھ بھی نہیں والی پالیسی کبھی نہیں چلے گی اور پاکستان میں صرف وہ کچھ ہو گا جو ملک و قوم کے مفاد میں ہو گا۔





