نگرانوں کا چیلنج افغانیوں کا انخلا

مسعود ماجد سید
پاکستان اور افغانستان جنوبی ایشیا کے دو اہم پڑوسی ممالک ہیں۔ دونوں خود کو اسلامی جمہوریہ کہتے ہیں، اور دونوں ہی جنوبی ایشیائی علاقائی تعاون تنظیم کے رکن ہیں۔ جب پاکستان نے آزادی حاصل کرنے کے بعد اقوام متحدہ کی رکنیت کی کوشش کی تو، افغانستان واحد ملک تھا، جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا۔ 1947ء میں افغانستان نے فوری طور پر نو آباد پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کو مسلح کر دیا اور پاکستانی سرزمین کے بڑے حصے پر بے بنیاد دعوے کئے جس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر نہ آ سکے اور مزید کشیدگی بڑھی۔ افغانستان میں جنگ 1978ء سے مختلف مسائل مزید پیدا ہوئے لاکھوں افغان مہاجرین نے اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لی۔ اتنی بڑی تعداد میں افغانیوں کو پناہ دینے کے باوجود انہوں نے احسان فراموشی کی۔ اسی لیے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ملک کو غیر قانونی تارکین وطن کی آماجگاہ نہیں بننے دیا جائے گا۔ افغان باشندوں سمیت تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپسی کے لئے ایک ماہ کی ڈیڈ لائن دی جائے گی جس کے بعد ملک گیر کریک ڈائون ہو گا اور قانون نافذ کرنے والے ادارے غیر قانونی مقیم افراد کو ڈی پورٹ کریں گے جن میں اکثریت افغان باشندوں کی ہے۔ پاکستان نے افغان پناہ گزینوں کو انسانی بنیادوں پر پناہ فراہم کی لیکن کسی حکومت نے اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔ افغانستان سے جو پناہ گزین آئے ہیں یا آ رہے ہیں ان میں تاجک، ہزارہ، منگول، ازبک، وسط ایشیائی ریاستوں کے باشندے اور شمالی افریقہ کے لوگ شامل ہیں جو افغانستان کے باشندے بن کر یہاں آتے ہیں۔ ملک میں گیارہ لاکھ افغان شہری غیر قانونی طور پر مقیم ہیں۔ بیشتر مہاجرین نے اسلام آباد سمیت بڑے شہروں میں کاروبار کھول لئے ہیں یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ غیر قانونی پناہ گزینوں کی آمد کے بعد ملک میں ہتھیاروں، منشیات کی بھرمار، قتل ، اغوا برائے تاوان، ڈکیتی کی وارداتوں میں غیر معمولی اضافہ اور پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا جواب تک جاری ہے۔ یہ لوگ خود کش دھماکوں، ڈالر کے غیر قانونی کاروبار، سمگلنگ سمیت ریاست مخالف اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں جس سے افغان حکومت کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے۔ پاکستان دہائیوں سے افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔ کچھ اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ اب بھی چالیس لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان میں موجود ہیں تا ہم سرکاری ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے افراد کی تعداد کم ہے جن کے پاس مستند پناہ گزین کا کارڈ موجود ہے۔ حکومت کو غیر قانونی افغان مہاجرین اور تارکین وطن کے خلاف کریک ڈائون اور ان کی بے دخلی کے فیصلے کو عملی جامہ پہنانے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ اس حوالے سے ایک جامع پناہ گزین پالیسی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ نگران وفاقی کابینہ کے لیے غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کا انخلا اب ایک چیلنج بن چکا ہے جس سے نمٹنے کیلئے وفاقی و صوبائی حکام کے درمیان رابطے جاری ہیں جبکہ قومی ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے 3 اکتوبر کے اجلاس میں کئے گئے اعلان پر عملدرآمد کو بعض مبصرین نے دور حاضر کے بڑے ’’ ڈیپورٹیشن آپریشنز‘‘ میں سے اسے ایک قرار دے رہے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی صدارت میں گزشتہ دنوں منعقدہ اجلاس کے فیصلوں کے بموجب پاکستان میں قانونی دستاویزات کے بغیر مقیم تمام غیرملکیوں کو 31 اکتوبر 2023ء تک پاکستان چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں مقیم غیرملکی تارکین وطن میں غالب تعداد افغان باشندوں کی ہے۔ مذکورہ حکم کے تحت یکم نومبر سے قانونی دستاویزات کے بغیر مقیم غیرملکیوں کے کاروبار اور جائیدادیں وغیرہ ضبط کرنے کے علاوہ انہیں گرفتار کرکے جبری ملک بدر کرنے کا سلسلہ شروع ہوجائے گا۔ پاکستان میں مقیم غیرقانونی افغان باشندوں کا انخلا اب شروع ہوچکا ہے، خواتین اور بچوں سمیت 350افراد پر مشتمل 30خاندانوں کو لیکر 16ٹرک طور خم سرحد کے راستے افغانستان چلے گئے۔ پاکستانی حکام کی اسلام آباد میں افغان سفارت کاروں سے اہم ملاقات بھی ہوئی ہے، غیر قانونی مقیم افغانیوں کی واپسی کے ٹی او آرز سے آگاہ کیا گیا۔ افغان سفارتخانے کا غیر قانونی مقیم افغانوں کی واپسی کے معاملے پر اتفاق پایا گیا۔ پاکستان کو اپنے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی۔
دریں اثنا غیر قانونی مقیم افغان شہریوں کیخلاف ایکشن تیز کرتے ہوئے اسلام آباد کے مارگلہ ٹائون میں غیر قانونی افغان بستی گرا دی گئی ہے۔ ادھر افغان باشندوں کی واپسی کے معاملے پر ملک بھر کی 5بڑی جیلوں میں ایف آئی اے امیگریشن کائونٹرز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ رہائش کا ثبوت نہ رکھنے والے غیرملکیوں کو جیل بھیجا جائے گا۔ امیگریشن حکام جیل سے ہی انہیں ڈی پورٹ کرنے کے اقدامات کریں گے۔ علاوہ ازیں پاکستان نے افغان ٹرانز ٹ ٹریڈ کے تحت پاکستان کے راستے افغانستان درآمد ہونیوالی100سے زائد اشیاء پابندی لگا دی، ان اشیاء میں ٹائر، فیبرکس ( مختلف اقسام کا کپڑا)، چائے، کاسمیٹکس، پھل اور خشک پھل، ویکیوم فلاسک، گھریلو اور دیگر اشیا شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان اشیا کی ٹرانزٹ ٹریڈ میں پابندی سے سمگلنگ کا خاتمہ ہوگا۔ اس فیصلے کے فوری اثرات عام لوگوں کی سطح پر اس طرح دیکھنے میں آئے کہ پہلے دو دنوں کے دوران طور خم بارڈر کے راستے دو درجن افغان خاندان وطن واپس چلے گئے۔ مختلف صوبوں میں رہائش پذیر افغان مہاجرین 16ٹرکوں کے ذریعے واپس گئے۔ دوسرا ردعمل حکومتی سطح پر ہوا۔ افغانستان چونکہ پاکستان کا ایسا ہمسایہ ہے جس میں بہت سے خاندان سرحد کے دونوں طرف رہائش رکھتے ہیں اس لئے اس معاملے میں بعض امور پر شاید اصولی فیصلے ضروری ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان میں پہلے سوویت یونین کی مداخلت، بعد ازاں واشنگٹن کے زیر قیادت اتحادی افواج کے قبضے اور پھر امریکیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد کے حالات میں سرحد پار کرنے والے افراد میں ایسے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے جن کے پاس کسی قسم کی قانونی دستاویزات نہیں۔ وطن عزیز میں آنے والے ان افراد میں بڑی تعداد قانون پسند لوگوں کی ہے لیکن ایک طرف افغانستان کے منشیات اسمگلنگ کا روٹ ہونے، دوسری جانب وہاں بھارتی قونصل خانوں اور ’’ را‘‘ ایجنٹوں کے روایتی سرگرمیوں کے باعث پاکستان میں اسلحے اور منشیات سمیت غیرقانونی اشیا کی اسمگلنگ بڑھ گئی۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان میں وہاں سے دراندازی کا سلسلہ بڑھنے لگا۔ نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو ایپکس کمیٹی میں یہ کہنا پڑا کہ پاکستان کے پاس درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ ایپکس کمیٹی کے فیصلوں کے اعلان کے بعد پہلے افغانستان کے سفارت خانے کی طرف سے پناہ گزینوں کو پاکستان چھوڑنے کیلئے ایک سال کا وقت دینے کی تجویز سامنے آئی۔ بعد ازاں طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے ٹویٹ میں مطالبہ کیا گیا کہ پاکستان غیرقانونی مقیم افغان شہریوں کو بے دخل کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کرے۔ دوسری طرف چمن کراسنگ پر تعینات افغان سپاہی کی فائرنگ سے بچے سمیت 2پاکستانی شہریوں کی شہادت کا واقعہ پیش آگیا۔ پاکستانی اور افغان حکام کو اس باب میں رابطے قائم کرکے صورتحال بہتر بنانے کی تدابیر کرنی چاہئیں۔ اسلام آباد کیلئے تشویش کا ایک سبب افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا غلط استعمال رہا ہے جس کے ذریعے بعض اشیا افغانستان درآمد کرکے پاکستان اسمگل کی جاتی رہی ہیں جس سے پاکستان کو نقصان پہنچتا ہے۔ نگراں وفاقی حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کیلئے کچھ درآمدات پر 10فیصد فیس کا نفاذ ڈیوٹی اور ٹیکس کے مساوی بینک گارنٹی کی شرط کے ساتھ کیا ہے۔ اس سے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے ناروا دبائو سے نکلنے میں مدد ملے گی۔ اچھا ہو کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان باہمی سلامتی، امن و امان اور تجارتی امور کے حوالے سے رابطے مسلسل قائم رکھے جائیں تاکہ روزمرہ مسائل خوش اسلوبی سے حل ہوتے رہیں۔





