Column

چین کا قومی دن اور اقرقرحا

روہیل اکبر
پاک چین دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہے اور اس دوستی میں پنجاب سب سے آگے اسی نسبت سے عوامی جمہوریہ چین کے قومی دن کی74 ویں سالگرہ کی تقریب لاہور میں بھی منعقد کی گئی جس میں نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی نے چین کے قومی دن پر چینی قونصلیٹ میں قائم مقام قونصل جنرل چائو کی(Mr.Cao Ke) کو پنجاب کی عوام کی طرف سے مبارکباد پیش کی کیک کاٹا پھول اور مٹھائیاں بھی دیں پنجاب حکومت نے چین کا یہ قومی دن صوبہ بھر جوش و خروش سے منایا شاہرائوں اور سڑکوں پر چین سے اظہار یکجہتی کے پورٹریٹ اور بینر آویزاں کیے گئے پنجاب کے عوام کا اتنا جوش و خروش دیکھ کر چینی قونصل جنرل نے کہا کہ لاہور اور پنجاب ہمارا دوسرا گھر ہے پاکستان اور چین آئرن بردارز(Iron Brothers)ہیں اسی نسبت سے وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی کا حالیہ دورہ چین بھی پاک چین تعلقات کو مزید مضبوطی کے رشتے میں باندھنے کے مترادف ہے جس سے پاک چین تعلقات کا نیا دور شروع ہوا ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان زندگی کے تمام شعبوں میں تعاون کی مزید نئی راہیں کھولیں گی پاکستان اور چین ایک روشن اور پرامن مستقبل کیلئے شانہ بشانہ کھڑے ہیں چین ہمارا ہر موسم کا دوست، مضبوط شراکت دار اور قابل اعتماد پڑوسی ثابت ہے اور اس رشتے کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے ہوئے دونوں ممالک نے ساہیوال اور بہاولپور کو چینی شہروں کے ساتھ سسٹر سٹی بھی قرار دیدیا ہے ان دونوں جڑواں شہروں کی نسبت سے اب پنجاب کے لوگ چین جاکر وہاں کی ٹیکنالوجی سے مستفید ہوکر اپنے لوگوں کا مستقبل بھی روشن کرینگے چین پاکستان کا بہترین ہمسایہ دوست اور سٹرٹیجک پارٹنر ہے چین کی نمایاں کامیابیاں پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک کے لیے قابل تقلید ہے پاکستان اور چین کے تعلقات نے وقت کی کسوٹی پر ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں خاص کر چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC)ایک گیم چینجر ہے جس سے دونوں ممالک کے عوام کو بے پناہ ثمرات مل سکیں گے اور پاکستان اس منفرد شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پوری طرح پرعزم ہے پاکستان چونکہ ایک زرعی ملک ہے لیکن بدقسمتی سے ہم اپنی زراعت کو ابھی تک اس سطح پر نہیں لاسکے جہاں اس وقت چین اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک ہیں ہمارا کسان آج بھی بدحال ہے وہی پھٹے پرانے کپڑے اور ٹانگے لگی جوتی کسانوں کا مقدر ہے بڑے بڑے زمیندار کسی نہ کسی طرح خوشحال ہو چکے ہیں جبکہ ہمارا چھوٹا کاشتکار آج بھی اچار کے ساتھ روٹی کھاتا ہے اور نئے کپڑے اس وقت نکال کر پہنتا ہے جب کسی کی شادی ہو یا کوئی عزیز و اقارب میں سے کوئی وفات پا جائے ان غریب کسانوں کے مکانوں کی چھتیں آج بھی بارش میں ٹپکنے لگ جاتی ہیں اور کچی در دیوروں پر گوبر اور مٹی کا لیپ کرکے اپنے گھر کو خوشیوں سے بھر لیتے ہیں صاف پانی ہمارے دیہاتوں میں آج بھی ایک خواب ہے ندی نالوں اور راجبائوں کا پانی پی کر خوش و خرم ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے مقابلہ میں چین زراعت میں بہت آگے نکل چکا ہے ہمارے حکمرانوں نے زراعت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی بلکہ ان سیاسی رہنمائوں نے اپنے اپنے کاروبار بڑھا لیے ایک شوگر مل سے دوسری بنا لی اور جن غریب کاشتکاروں سے گنا خریدتے ہیں وہ سارا سال ان شوگر مل مافیا سے اپنے پیسوں کی وصولی کے لیے دھکے کھاتے رہتے ہیں اور جب انہیں پیسے ملتے ہیں تو وہ ان سے اپنے قرضے اتارتے ہیں اور فصلوں کے لیے بیج وغیرہ خرید کر اپنی اگلی فصل کے پکنے کا انتظار کرنا شروع کر دیتے ہیں اب تو حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کسان اپنے پاس رکھی ہوئی کھانے کی گندم بھی روزانہ کے حساب سے فروخت کر رہے ہیں جس سے وہ اپنے ایک ایک دن کے اخراجات پورے کرتے ہیں ایک تو ہمارے پاس زراعت میں جدت نہیں آئی اور اوپر سے کسانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بھی کچھ نہیں کیا گیا آج کے جدید دور میں جب ہر بچے کے پاس اچھے سے اچھا موبائل فون ہے وہیں پر ہمارے کسان بھائی آج بھی عام اور سادہ سے موبائل استعمال کرتے ہیں جس پر وٹس ایپ ہے اور نہ ہی کوئی سوشل میڈیا حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو آسان شرائط پر سستے موبائل فون فراہم کرے اور پھر ایک وقت معین کرکے کسانوں کی زراعت کے حوالہ سے تربیت کی جائے تاکہ وہ آج کے جدید دور میں نئے اور سائنسی طریقوں سے زراعت میں جدت لائیں اس حوالہ سے چین ہمیں بے پناہ معاونت فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتا اور ہمارے آرمی چیف بھی اس میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے زراعت میں انقلاب لانے کی بات بھی کی ہوئی ہے اور یہ انقلاب تب ہی آئے گا جب ہمارا چھوٹا کسان نئی اور جدید ٹیکنالوجی سے متعارف ہوگا اور اس کے لیے ہمیں ایسے ماہر ین زراعت بھی ڈھونڈنے پڑیں گے جو سر جوڑ کر بیٹھیں اور ہمیں زراعت میں خود کفیل کر دیں جب تک ہمارا چھوٹا کسان خوشحال نہیں ہوتا اس وقت تک ملک بھی ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ دوسروں کے پیٹ کی آگ بھجانے والا خود بھوک کی آگ میں جل رہا ہے اس لیے ضرورت ہے کہ ہم جدید زراعت کی طرف آئیں اسلام آباد میں ہمارے ایک دوست بھی اسی مشن پر کام کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح پاکستان کا کسان خوشحال ہو جائے اور اس کے لیے وہ مختلف ذرائع سے کسانوں میں شعور بھی پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن بات پھر وہیں پر آکر رک جاتی ہے کہ ہمارے کسانوں کے پاس انتر نیٹ ہے اور نہ ہی جدید موبائل فون اس لیے ان تک بات پہنچتی ہی نہیں اب بھی ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے ہر چھوٹے اور بڑے کسان کے لیے ایک نئی فصل کی کاشت پر زور دیا ہے جو ایک ایکڑ لاکھوں روپے منافع دیتا ہے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ اقرقرحا ایک ایسی فصل ہے جو پاکستان میں کہیں بھی
کاشت نہیں ہوتی کیوں کہ ہمارا کسان اس سے لا علم ہے اس فصل کی مارکیٹ میں قیمت کی بات کی جائے تو کم سے کم 8000روپے کلو ہول سیل ریٹ ہے جس کا ایک ایکڑ کا خرچہ 2لاکھ اور منافع 30سے 40لاکھ روپے ہے وہ بھی صرف 6مہینوں میں جسے پانی کی ضرورت کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی بس چار سے پانچ بار پانی دیدیا جائے تو کافی ہوتا ہے یہ فصل اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں کاشت ہوتی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ اسے کسی کھاد اور سپرے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اس فصل کو سردی یا گرمی بھی نقصان نہیں پہنچاتی اور یہ فصل پاکستان میں ہر جگہ ہو سکتی لیکن جہاں برف پڑتی ہو یا سیم زدہ زمین میں یہ فصل نہیں ہوتی اس کے علاوہ کسی بھی زمین پر یہ فصل آپ لگا سکتے یہ فصل ہر قسم کی بیماری سے محفوظ ہوتی ہے کیونکہ اس سے انسانی دوا بنتی ہے اس لئے اس پہ کسی قسم کی سپرے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سپرے سے منع کیا جاتا ہے اس فصل کی مارکیٹ کی بات کی جائے تو پورا پاکستان ہی اس فصل کی مارکیٹ ہے ہر پنساری اس کا خریدار ہے اس کی منڈیاں ہر بڑے شہر لاہور، کراچی، پِنڈی، اسلام آباد، سوات، دیر اور پشاور میں موجود ہیں اس حوالہ سے کسی دوست کو مزید معلومات چاہیے تو وہ ڈاکٹر صاحب کے نمبر 03443922445 پر واٹس ایپ کے ذریعے رابطہ کر سکتے ہیں امید ہے کہ چین کے تعاون اور مخلص پاکستانیوں کی مدد سے ہماری زراعت میں بھی جدت آئے گی اور ہمارا چھوٹا کسان بھی زندگی کے خوبصورت رنگوں سے لطف اندوز ہوگا۔

جواب دیں

Back to top button