ColumnImtiaz Aasi

کھیل تماشہ کب ختم ہو گا

امتیاز عاصی
پاکستان واحد ملک ہے جہاں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا حالانکہ مہذب معاشروں میں کرپشن کرنے والوں کو انتہائی پست کردار کا تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کسی پر کرپشن کا الزام آئے تو وہ اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کرپشن کیسز کا سامنا کرکے عدالتوں سے بریت لے کر عوام کی نظروں میں اجلے ہو جائیں ۔ باضمیر سیاست دان اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرکے عدالت سے بریت لے کر عوام کی نظروں میں اچھے شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ جنرل ( ر) پرویز مشرف نے سیاست دانوں کو این آر او دینے کی ایسی رسم ڈالی ہے کہ کرپشن میں ملوث ہر سیاست دان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے اسے کسی طرح این آر او مل جائے۔ سیاست دانوں کے خلاف کرپشن مقدمات برسوں سے زیر التواء تھے۔ عمران خان کے دور میں زیر التواء مقدمات عدالتوں میں بھیجنے کا آغاز ہوا تو سیاسی جماعتوں نے اتحاد بنا لیا تاکہ اسے کسی طریقے سے اقتدار سے ہٹایا جا سکے۔ یہ اور بات ہے پی ڈی ایم کو اس مقصد کے لئے بعض اداروں کی پشت پناہی حاصل تھی۔ عمران خان کو اس حد تک بے بس کر دیا گیااسے کرپشن مقدمات بھول گئے اسے اقتدار کی فکر لاحق ہوگئی۔ اگرچہ عمران خان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے جس کا اظہار اقتدار میں رہتے ہوئے کرتا تو عوام کی نظروں میں اس کا قد کاٹھ پہلے سے زیادہ بلند ہو سکتا تھا۔ عمران خان نے بھی اقتدار کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا وہ بہت سی باتیں اشاروں کنایوں میں کرنے لگا تھا۔ عمران خان کو چاہے اقتدار چھوڑنا پڑتا اسے عوام کو پوری حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ چلیں جاتے جاتے سابق چیف جسٹس نے یہ گنا اپنے سر لے لیا اور اب کرپشن مقدمات عدالتوں میں جانے لگے ہیں۔ نگران حکومت نیب ترامیم کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی دائر کرنے جا رہی ہے البتہ یہ بات پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کے فیصلے سے مشروط ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی بحالی کی صورت میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی ۔ یہ ایکٹ ختم ہو گیا تو نظر ثانی دائر ہو گی۔ حکومت کا دعویٰ ہے نیب ترامیم پارلیمنٹ کی منظوری سے عمل میں لائی گئیں لہذا سپریم کورٹ انہیں کالعدم قرار نہیں دے سکتی۔ یہ الگ بحث ہے سپریم کورٹ ان ترامیم کو کالعدم قرار دے سکتی ہے یا نہیں۔ سوال ہے سیاست دان اپنے خلاف مقدمات کو جھوٹا قرار دینے کا واویلا کرتے ہیں۔ سوال ہے اگر ان کے خلاف مقدمات جھوٹے ہوتے ہیں تو مقدمات کا سامنا کرکے عدالتوں سے بریت لینے کی بجائے این آر او کے کیوں خواہاں ہوتے ہیں؟ نیب مقدمات کوئی آصف زرداری اور شریف خاندان کے خلاف نہیں بلکہ کئی سو دیگر لوگوں کے خلاف بھی ہیں۔ یہ بات باعث شرم ہے بیرون ملکوں اور ہوائی اڈوں پر پاکستانیوں کے گروہ ایسے لوگوں کے خلاف چور چور کی صدائیں لگاتے دکھائی دیتے ہیں جس سے نظریں شرم کے مارے جھک جاتی ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنائے عمران خان تو ایسے درمیان میں آگیا۔ عمران خان کا گنا اتنا ہے اس نے برسوں سے زیر التواء مقدمات کی سماعت کا آغاز کیا۔ پی ٹی آئی کے دور میں شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کے خلاف منی لانڈرنگ کا مقدمہ بنا جس میں انہوں نے اپنے خلاف فردجرم نہیں لگنے دی۔ وہ بے گنا ہ ہوتے تو عدالت کا سامنا کرکے بریت لیتے انہوں نے بھی نیب ترامیم کا سہارا لیا جو اس امر کا غماز ہے دال میں کچھ تو کالا ہے۔ سیاست دانوں میں شاہد خاقان عباسی وہ واحد سیاست دان ہیں جنہوں نے نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ دراصل جنرل پرویز مشرف مرحوم نے اپنے دور میں مبینہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کو این آر او دے کر ملک وقوم سے بڑی زیادتی کی ورنہ ان کے خلاف مقدمات چلتے تو یہ بات یقینی تھی بہت سے سیاست دان جیلوں میں ہوتے۔ جنرل مشرف نے جس جوش و جذبے سے نیب کا ادارہ قائم کیا تھا وہ اسی جوش و جذبے سے مقدمات کی سماعت کراتے تو آج نہ عدالتوں پر کام کا غیر
ضروری بوجھ ہوتا اور نہ سیاسی رہنمائوں کو نیب ترامیم کرنے کی ضرورت ہوتی۔ اعلیٰ عدلیہ میں کئی ہزار زیر التواء مقدمات سیاست دانوں کے مقدمات کی وجہ سے ہیں۔ سپریم کورٹ کو سیاست دانوں کے مقدمات سے فراغت نہیں ہوتی۔ اب نئے منصف اعلیٰ نے مقدمات کی سماعت میں تیزی لانے کے لئے جس عزم کا اظہار کیا ہے اس سے امید کی جا سکتی ہے اب مقدمات کو زیر التواء رکھنے کی روایت نہ صرف ختم ہو جائے گی بلکہ مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر نہیں ہونے دی جائے گی۔ عجیب تماشا ہے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بنا کر زیر التواء رکھ لئے جاتے ہیں۔ بعض سیاست دانوں نے اپنے وکلاء کی وساطت سے اپنے خلاف مقدمات کو کئی سال زیر التواء رکھنے کا ریکارڈ قائم کیا ۔ ہم مقدمات زیر التواء رکھنے اور رکھوانے کی تفصیلات میں جائیں تو بھونچال آجائے۔ اب وقت آگیا ہے مقدمات کی سماعت میں غیر ضروری التواء کا رواج ختم کر دیا جائے اور نیب مقدمات کا چالان اور ان کی سماعت قانون میں دیئے گئے عرصہ میں یقینی بنائی جائے تو نیب عدالتوں پر کام کا بوجھ کم ہو سکتا ہے۔ تاسف ہے عوام کا درد رکھنے والے سابق وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے خلاف منی لانڈرنگ کیس میں فرد جرم نہیں لگنے دی بلکہ التواء لے کر اپنے خلاف مقدمے کو طوالت دیتے رہے۔ شائد انہیں اپنے وزیراعظم بننے کا انتظار تھا ۔ انہوں نے اپنے اور خاندان کے دوسرے لوگوں کے خلاف مقدمات ختم کرنے کے لئے نیب قوانین میں ترامیم کا کام اپنی پہلی ترجیحات میں کیا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس جناب عمر عطاء بندیال نے نیب ترامیم کالعدم قرار دے کر ملک اور عوام پر بڑا احسان کیا ورنہ کھربوں میں کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کی مقدمات سے جان بخشی ہو چکی ہوتی۔ جیسا کہ منصف اعلیٰ نے مقدمات کی سماعت میں تیزی لانے کا عزم ظاہر کیا ہے اس سے امید کی جاسکتی ہے ہمارا ملک ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں جرم کرنے والوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جائے گا ۔

جواب دیں

Back to top button