Column

سامری کی آمد اور بچھیا کی پرستیش

سیدہ عنبرین
اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کو کوہ طور پر بلایا تو انہوں نے اپنے بھائی کو اپنا جانشین مقرر کیا، حضرت ہارون علیہ السلام بھی اللہ کے بنیٌ تھے، انہوں نے بنی اسرائیل سے کہا کہ تمہارے پاس فرعونیوں کا مال و متاع زیور بطور امانت موجود ہے، یہ تم پر حلال ہے نہ تم اسے واپس کر سکتے ہو کہ فرعون تو ساتھیوں سمیت غرق ہوچکا پس اب اس مال سے دور ہو جائو۔ پھر ایک گڑھا کھود کر سب کچھ اس میں دفن کر دیا گیا۔ سامری یہ دیکھ رہا تھا رات گئے وہ اٹھا اس نے تمام زیورات جمع کئے انہیں اپنے گھر لاکر پگھلایا اور ایک بچھڑا تیار کیا جس میں ہوا داخل ہوتی تو وہ بیل کی آواز نکالتا نظر آتا، سامری نے بنی اسرائیل سے کہا یہی تمہارا، میرا، موسیٰ علیہ السلام کا معبود ہے، یوں اس بچھڑے کی پرستیش شروع ہو گئی، نبی اللہ حضرت ہارون علیہ السلام نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ باز نہ آئے۔ حضرت موسیٌ کوہ طور سے واپس آئے تو انہیں یہ دیکھا کر بہت تکلیف ہوئی کہ ان کی قوم سونے سے بنے بچھڑے کی پرستیش کر رہی ہے اور اسے چھوڑنے پر آمادہ نہیں، سامری سے باز پرس کی تو اس نے کہا کہ میں نے وہ کیا جو میرے دل کو اچھا لگا۔
سامری کو خدا کی طرف سے سزا ملی وہ ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہو گیا جب کوئی اسے چھو لیتا تو وہ شخص اور سامری شدید بخار میں مبتلا ہو جاتے، پس وہ جنگل کی طرف نکل گیا، اس نے حیوانوں کیساتھ ان جیسی زندگی بسر کی۔ انسانوں کو گمراہ کرنیوالوں کو ایسی ہی سزائیں ملتی ہیں، مگر کب اس کا فیصلہ قادر مطلق کرتا ہے، سامری تاریخ کا ایک کردار تو ہے ہی یہ ایک فطرت بھی ہے، ہر دور ہر زمانے میں سامری فطرت لوگ موجود ہوتے ہیں وہ اپنے زمانے میں انسانوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں منع کرنے کے باوجود اس فعل سے باز نہیں آتے، وہ اپنے زمانے اپنی سوچ کے مطابق کوئی نہ کوئی بچھڑا بنا لیتے ہیں پھر قوم سے کہتے ہیںکہ اب اس کی پرستیش کرو یہی ہمارا تمہارا خدا ہے۔
خبر گرم ہے کہ ہمارا سامری آنے والا ہے، اس کے استقبال کی تیاریاں شروع ہو چکی ہیں، یہ سامری جسمانی طور پر ملک سے باہر چلا گیا تھا لیکن اس کی باقیات یہیں موجود تھیں، وہ انہیں ہدایات جاری کرتا رہتا تھا اس کے حکم کے مطابق ان احکامات پر بھی من و عن عمل کیا جاتا تھا، کہا جا سکتا ہے وہ جا کر بھی کہیں نہیں گیا تھا، ستم بالائے ستم اس نے اپنی قوم کیلئے ایک بچھیا بھی تیار کی جو بظاہر تو گوشت پوست کی تھی لیکن ہر وقت سونے اور جواہرات سے لدی نظر آتی تھی، اس کا لباس پوشاک کہنے کو تو قیمتی کپڑے سے تیار ہوتے تھے، درحقیقت یہ سب کچھ قوم کے ہر فرد کی کھال اتار کر بنایا گیا تھا، قوم کی کھال اتارنے کے متعدد منصوبے تھے، جن میں ایک منصوبہ ایسا ہے جو آنے والے پچاس برس تک اہل پاکستان کی کھال انتہائی چابکدستی اور وحشیانہ طریقے سے اتارتا رہے گا۔ لوگ چلاتے رہیں گے لیکن ماہر کھال اتار قصابوں پر ان کی چیخوں کا کوئی اثر نہ ہوگا، کیونکہ سامری کے تابع فرمان ہی نہیں اسکا خاندان ہیں، منصوبے کا نام اب راز نہیں ہے یہ پاور پراجیکٹس ہیں جنہیں کپیسٹی چارجز کی مد میں کئی ارب ڈالر دیئے جاچکے ہیں اور آئندہ بھی دیئے جاتے رہیں گے، لہذا ملک میں جتنا چاہے ڈالر اور اسکی قیمت پر کنٹرول کر لیں جہاں جہاں سے چاہے غیر قانونی ڈالر ڈھونڈ لیں یہ ڈالروں کے انبار نہایت قانونی معاہدوں اور طریقوں سے سامری کے کئے گئے معاہدوں کے مطابق پرائیوٹ پاور پراجیکٹس چلانے والوں کے اکائونٹ میں جاتے رہیں گے اور انکی خوشحالی میں اضافہ کرتے رہیں گے۔
سامری کا دوسرا بڑا پراجیکٹ قوم کے خون پیسنے کی کمائی اور ٹیکسوں سے بنائے گئے قومی اثاثوں کی فروخت ہی اسے خریدنے والے بھی سامری قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، گزشتہ پینتالیس برس میں سامری اور اس کا خاندان کئی ایک ناکام پراجیکٹ کو کامیاب نہ بنا سکا، البتہ کامیاب پراجیکٹس کو ناکام بنانے میں اسے ملکہ حاصل ہے، اب اگر وہ آتا ہے تو ساتھ میں دو دھاری تلوار لیکر آئے گا اور زیادہ بے رحمی سے اہل وطن کی وطن زیادہ تیز رفتاری سے اتارے گا۔
سامری کے قبیلے والے قوم کو باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ سامری آئے گا تو تمہاری پریشانیاں ختم ہوجائیں گی لیکن قوم خوب سمجھتی ہے کہ سامری اگر آگیا تو ملک پر ایک نیا عذاب آئیگا لہذا وہ اسکے استقبال کیلئے تیار نہیں۔ ایک دور تھا جب غریب آدمی بریانی کی پلیٹ کے عوض جہاں کا حکم ہوتا وہاں پہنچ جاتا تھا مگر اب نہیں، اب اس کا مسئلہ صرف بریانی کی ایک پلیٹ سے حل نہیں ہوتا نظر آتا، عین ممکن ہے اسے اس پکوان سے اب رغبت نہ رہی ہو یا اسے یقین ہو چکا ہو کہ مری ہوئی مرغی سے تیار کردہ بریانی صحت نہیں بیماری تحفے میں لاتی ہے، وجہ کچھ بھی ہو استقبال کیلئے ریوڑ اکٹھا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔
ریوڑ کی دلچسپی بڑھانے کیلئے گڈریوں کیلئے ایک مہنگی موٹر سائیکل کا انعام بھی رکھا گیا ہے لیکن ریوڑ پھر بھی تیار نہیں ہو رہا، بے زبان جانوروں نے زبان کا درست استعمال شروع کر دیا ہے پہلے وہ صرف اپنی زبان سے ناک صاف کرتے نظر آتے تھے اب سوال کرتے نظر آتے ہیں کہ بھائی گڈریا، تمہیں تو موٹر سائیکل مل جائیگی کیا ہمیں صرف سائیکل کے ایک پہیے پر ٹرخایا جائیگا، گڈریا انہیں جھانسا دینی کی پوری کوشش کر رہا ہے وہ کسی جھانسے میں نہیں آ رہے، گڈریا انہیں دھمکا رہا ہے، وہ کسی دھمکی سے خوفزدہ نہیں ہو رہے، اب گڈریا اعلیٰ خود میدان میں آیا ہے اور کہتا ہے میں دیکھتا ہوں کون نہیں آتا اور کیوں نہیں آتا۔
پرانے کھاتے کھولے جارہے ہیں اور حساب کیا جارہا ہے کہ کس کس کو کب اور کتنا چارہ ملتا رہا، حساب سامنے رکھا جائے گا اور وعدہ کیا جائیگا کہ آئندہ بھی ہمارے کھونٹے سے بندھے رہو گے تو دنیا بے شک بھوک سے مرجائے، تمہیں ہرا ہرا اور سرسبز و تازہ ہی ملے گا بلکہ تمہیں دوسروں کے سامنے رکھا لوٹ لینے، چھین لینے کی آزادی بھی میسر ہو گی۔ بتایا گیا ہے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے کیلئے ڈیٹا ایپلیکشن لانچ کردی گئی ہے، حاضریاں لگیں گی، تمام کوششوں کے باوجود کامیابی نظر نہیں آرہی، لہذا ہدف دس لاکھ کی بجائے پانچ لاکھ کر دیا گیا ہے ، مرکزی قیادت سے کھانے پینے اور پٹرول کا خرچ مانگ لیا گیا ہے جبکہ ہر دور میں خرچہ مرچہ اٹھانے والے اب غیر حاضر ہیں کیونکہ انہیں یقین نہیں کہ سامری آ بھی رہا ہے یا نہیں اور اگر آ بھی رہا ہے تو وہ سامری کی بنائی ہوئی بچھیا کی پرستش کرنے پر تیار نہیں۔

جواب دیں

Back to top button