بہت دیر کی مہربان یہ اقدام کرتے کرتے

محمد ناصر شریف
قوموں کی زندگی میں ایسے کئی موڑ آتے ہیں جہاں سے وہ دائیں یا بائیں مڑ جاتی ہیں یا اندیشوں کا سامنا کرتے ہوئے امکانات کے رخ پر آگے بڑھتی ہیں۔ یہ سبھی سمتیں اُنہیں اچھے، برے دونوں طرح کے تجربات سے گزارتی ہیں۔ پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی مختلف تجربات سے گزر رہا ہے۔ ملک عزیز کے عوام پرآزمائشوں کی رات طویل ہوتی جارہی ہے۔ ملک کے لیے کچھ کر گزرنے اور نجات دہندہ سمجھے جانے والوں سے مزید بحران ہی ملے۔ پھر ان نجات دہندگان سے نجات بھی ایک بڑا مسئلہ رہا اور قوم نے تخت سے تختے کا سفر بھی بارہا دیکھا۔ اور آئندہ بھی یہ عمل جاری رہے گا۔ اس تمام صورت حال کے باوجود قوم مایوس نہیں، اسے اپنے رب تعالیٰ سے پوری امید ہے کہ وہ اس ملک میں وہ سحر طلوع فرمائیں گے جس کو اندیشہ زوال نہ ہو۔ گزشتہ دنوں ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں غیرقانونی مقیم افراد کے حوالے سے فیصلے کیے گئے اور یہ فیصلے تواتر کے ساتھ ان افراد کی جانب سے ملک دشمن کارروائیوں میں ملوث ہونے کے سبب کیے گئے۔ جس میں ملک کو نقصان پہچانے کے لیے اناج،ڈالر،اسلحہ اور دیگر اشیا کی اسمگلنگ،دہشت گردی اور وطن عزیز میں جرائم کی وارداتیں شامل ہیں۔ جنوری2023سے اب تک ملک میں 24خودکش حملے ہوئے ہیں۔ ان 24میں سے 14حملے افغان شہریوں نے کیے ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان سرزمین سے ہم پر حملے ہوتے ہیں اور افغان شہری اس میں ملوث ہیں۔ پاکستان میں افغان شہریوں کی کل تعداد 4.4ملین ہے ان میں سے 1.40ملین رجسٹرڈ ہیں جبکہ 1.73ملین کہیں رجسٹرڈ نہیں ہیں، افغان کارڈ ہولڈرز کی تعداد 0.85ملین ہے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کی زیرصدارت نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف، متعلقہ وفاقی وزرا، صوبائی وزرائے اعلی اور قانون نافذ کرنے والے تمام سول اور عسکری اداروں کے سربراہان شریک تھے۔ اجلاس میں حکومت نے ملک میں موجود تمام غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس حوالے سے 31اکتوبر کی ڈیڈ لائن دی ہے۔ یکم نومبر سے وفاقی اور صوبائی قانون نافذ کرنے والے ادارے تمام غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کی گرفتاری اور جبری ملک بدری یقینی بنانے کیلیے تمام ممکنہ اقدامات کریں گے۔ یکم نومبر سے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کے کاروبار، جائیدادیں ضبط کرلی جائیں گی اور غیر قانونی کاروبار کرنے والوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔اجلاس کے اہم فیصلوں میں پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کا انخلا، بارڈر پر آمدورفت کے طریقہ کار کو ایک دستاویز کی صورت میں منظم کرنا ( جس میں بارڈر سے نقل و حرکت کی اجازت صرف پاسپورٹ اور ویزا پر دی جائیگی) اور غیر قانونی غیر ملکی افراد کی تجارت اور پراپرٹی کے خلاف سخت کارروائی کرنا شامل ہے۔ وزارت داخلہ کے تحت ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی گئی جو جعلی شناختی کارڈز، کاروبار اور پراپرٹی کی جانچ پڑتال کریگی تاکہ غیر قانونی شناختی کارڈ اور املاک کا تدارک کیا جاسکے۔ فورم نے بڑھتی ہوئی غیر قانونی سرگرمیوں بشمول منشیات اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی،اشیائے خورونوش اور کرنسی کی اسمگلنگ، غیر قانونی رقوم کی ترسیل اور بجلی چوری پر جاری کارروائیوں کو مزید بڑھانے اور موثر کرنے کا اعادہ کیا اور اس بات کو اجاگر کیا کہ طاقت کا استعمال صرف اورصرف ریاست کا دائرہ اختیار ہے اور کسی بھی شخص یا گروہ کو طاقت کے زبردستی استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ملک میں کسی بھی قسم کے سیاسی مسلح گروہ یا تنظیم کی ہرگز کوئی جگہ نہیں اور اس قسم کی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔ ریاست کسی کو مذہب کی من پسند تشریح کرکے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیگی۔ اقلیتوں کے حقوق اور مذہبی آزادی، اسلام اور پاکستان کے آئین کا حصہ ہیں اور ریاست اس کو یقینی بنائے گی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ریاست قانون کے مطابق طاقت کا بھرپور استعمال کریگی۔ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اجلاس میں زور دے کر کہا کہ ایک پاکستانی شہری کی جان و مال اور فلاح و بہبود کسی بھی دوسرے ملک اور کسی بھی دنیاوی مفاد سے مقدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ اسے کھڑا ہونا ہیے ہمیں متحد ہوکر چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہے۔ ریاست کی رٹ کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا اور ریاستی رٹ قائم کرنے کے لئے ہر حد تک جائیں گے۔ اجلاس کے دوران آرمی چیف کی جانب سے پڑھا جانے والا علامہ اقبالؒ کا یہ شعر ’’ نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندوستان والو۔۔۔ تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘، اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ آرمی چیف کو صورتحال کا مکمل ادراک ہے اور وہ تمام بحرانوں کے سامنے کھڑے ہونے کیلیے تیار ہیں۔ ادھر حکومت نے نادرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام جعلی شناختی کارڈز کی منسوخی کو فوری طور پر یقینی بنائے اور اگر کسی کی شناخت میں شک ہو تو اس کی تصدیق کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے۔ نگران حکومت کے اقدامات سے متعلق تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’ بہت دیر کی مہربان یہ اقدام کرتے کرتے‘‘، یہ اقدام افغان جنگ کے خاتمے کے فوری بعد ہوجانا چاہیے تھا لیکن اندرونی اور بیرونی بااثر حلقوں کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوا لیکن دیر آید درست آید کے مصداق اسے ایک احسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان و دیگر ممالک کے شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے سے متعلق اقدامات پہلی مرتبہ نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی کارروائیاں کی گئیں مگر یہ معاملہ مکمل طور پر کبھی حل نہیں ہو سکا۔ افغانستان میں پاکستان کے سابق قونصل جنرل ایاز وزیر کے مطابق جس طرح پاکستان میں بسنے والے افغان باشندوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کارروائیاں کرر ہے ہیں اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت نے ان کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا پلان بنا لیا ہے۔ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک حاصل کر رکھے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجنا آسان نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ایک تفصیلی اور مکمل پلان کی ضرورت ہو گی۔سابق حکومتوں نے بھی بہت بڑے بڑے فیصلے کیے لیکن جب بات عمل درآمد کی آئی تو ان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی، لیکن اب صورت حال بہت مختلف ہے اگر نیشنل ایکشن پلان کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوا تو اس امر کا قوی امکان ہے جس کا اشارہ آرمی چیف نے اپنے خطاب میں بھی کیا یعنی ’’ تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں‘‘ آپ کا ازلی دشمن تو کب سے اس تاک میں بیٹھا ہے کہ آپ کو دنیا کے سامنے ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کرے اور ایک بار پھر اپنا غاصبانہ قبضہ کرکے آپ کر زیر کرے۔





