لیسکو، فیسکو، گیپکو اور میپکو بمقابلہ بجلی چور

تحریر : فیا ض ملک
بجلی کے بھاری بلوں نے متوسط طبقے کو تباہ حال کر دیا، ایک شخص گھر کا کرایہ دے، یا بچوں کی فیسیں ؟ راشن کہاں سے لائے ، بیمار ہو تو علاج کی سکت نہیں ، جائے تو جائے کہاں ؟ بجلی بلوں کے جھٹکوں سے پریشان عام آدمی اپنی محدود آمدن میں کیسے گزارا کر رہا ہے؟ بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے عام آدمی کے ہوش اڑا دئیے، مہنگائی سے پریشان لوگ کسی نہ کسی طرح گزر بسر کر رہے تھے ، لیکن بھاری بھرکم بجلی بلوں کی وجہ سے سفید پوشی کا بھرم بھی ٹوٹ گیا، ایسی ہی کہانی لاہور کی شاداب کالونی میں مقیم محسن عدنان کے خاندان کی ہے ، تین بچوں کا باپ محسن عدنان پان شاپ چلاتا تھا۔ لیکن ناقابل برداشت بجلی بلوں کی وجہ سے اسے دکان بند کرنا پڑی۔ اب بیروزگار ہے ، گھر کا خرچہ، بجلی کا بل اور دیگر ضروریات زندگی پوری کرنے سے قاصر ہے، تنگدستی کی وجہ سے وہ بچوں کو سکول سے اٹھانے پر مجبور ہو گیا، گھر میں پکانے کیلئے کچھ نہیں، بچے دودھ مانگتے ہیں اور پیسے نہیں، دو ماہ سے گھر کا کرایہ نہیں دیا، مالک مکان گھر خالی کرا رہا ہے، بجلی کا بل کہاں سے دیں ؟ یہ صرف ایک گھر کی نہیں بلکہ اب تو گھر گھر کی یہ کہانیاں ہیں ،بجلی بلوں سے تنگ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ کسی طرح وہ غاروں کے زمانے میں واپس چلے جائیں، جہاں انہیں بجلی کی ضرورت ہی نہ رہے۔ بہرحال یہ ایک تلخ حقیت ہے کہ مہنگائی کی حالیہ لہر نے عام آدمی کے زندگی اجیرن کر رکھی ہے لیکن بجلی بلوں میں ہوشربا اضافے نے گھروں کے چولہے ہی ٹھنڈے کر دئیے ہیں، عوام کی جانب سے بجلی کے بھاری اور ناقابل برداشت بلوں کے خلاف زبردست احتجاج کے بعد حکومت نے ملک بھر میں بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کے آغاز کا دعویٰ کیا ہے اور بجلی کی تقسیم کی ذمہ دار کمپنیوں لیسکو، فیسکو، گیپکو اور میپکو نے سیکڑوں بڑے اور با اثر بجلی چوروں کا سراغ لگا کر ان کیخلاف کارروائی کا معدہ قوم کو سنایا ہے، ماضی کے واقعات اور حالات کو دیکھیں تو یقین کرنے کو جی تو نہیں چاہتا لیکن کہا یہی جارہا ہے کہ حکومت نے بجلی چوروں کے خلاف بلاامتیاز کریک ڈائون شروع کر دیا ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں بجلی چوروں کو گرفتار کرکے انکے خلاف مقدمات درج کئے گئے جبکہ کریک ڈائون کا سلسلہ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہے، یقینا حکومت کا یہ فیصلہ قابل تحسین کے زمرے میں آتا ہے کہ اب ملک بھر میں بجلی چوروں کیخلاف کریک ڈائون کرکے انکے خلاف خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے، تاہم اگر صرف بجلی چوروں کیساتھ ساتھ ان سہولت کاروں کیخلاف بھی سخت اقدام اٹھائے جائیں جن کی مدد سے ’ مٹھی گرم کرکے‘ کنڈہ کلچر کا رواج قائم ہوا تھا تو یقین جانئے بڑے بجلی چوروں کی وارداتوں کو روکا جا سکتا ہے، صورتحال کا یہ پہلو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ حکومت کے اس طرح کے اقدامات کی تشہیر کا مقصد عوام کے احتجاج کو سرد کرنے اور اس کا رخ موڑنے کے سوا
کچھ نہیں، ورنہ بجلی چوروں کیخلاف اس طرح کے وقتی آپریشن ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بھی کئے جاتے رہے ہیں جو وقت گزرنے کیساتھ ساتھ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور بجلی چوروں اور ان کے سہولت کاروں کا کام حسب معمول جاری رہتا ہے۔ اس ضمن میں بجلی چوری کا انسداد یقینا اہم ہے مگر اس مقصد کیلئے آپریشن مستقل ہونا چاہئے وقتی نہیں اور اس کا منطقی نتیجہ قوم کے سامنے آنا چاہئے ،بہر حال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بجلی چوروں کیخلاف ایکشن کے سلسلہ کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھنا بھی کوئی آسان کام نہیں ہے، کیونکہ بجلی چوروں کو ملک بھر میں واپڈا اور ڈسکوز کے ملازمین اور افسران کا تعاون حاصل ہے اور وہ یہ کام اس پیسے کیلئے کرتے ہیں جو انھیں رشوت کے طور پر دیا جاتا ہے۔ واپڈا کے افسران کے ملوث ہونے کی وجہ سے کہیں 60فیصد، کہیں 80فیصد بجلی کی چوری ہو رہی ہے، بجلی چوری کا سب سے زیادہ 489ارب روپے کا نقصان پشاور ،کوئٹہ، حیدر آباد، سکھر اور قبائلی علاقہ جات میں ہوتا ہے، جن علاقوں میں تیس سے ساٹھ فیصد نقصان ہے، واپڈا کے ذیلی اداروں یعنی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے 60سے 80فیصد اہلکار ( لائن مینوں سے لیکر اوپر کی سطح کے افسران) اس دھندے میں ملوث ہیں، اگر پاور ڈویژن کے ذمہ داران واقعی بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انھیں یہ دیکھنا ہوگا کہ انکے اپنے کتنے لوگ اس بجلی چوری میں ملوث ہیں اور ان کیخلاف سخت کارروائی کر کے ایک مثال قائم کرنا ہوگی۔ اگر اس طریقہ کو اختیار نہیں کیا جاتا تو پھر ممکن ہے وقتی طور پر بجلی چوری رک جائے لیکن مستقل بنیادوں پر ایسا نہیں ہو پائے گا۔ اس ضمن میں اہم سوال یہ ہے کہ اس بیماری کے ناسور کی شکل اختیار کرنے سے پہلے اس کے علاج پر توجہ کیوں نہیں دی گئی ،کیا چوری کا یہ سارا دھندہ تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکاروں کے تعاون کے بغیر ممکن ہے، کیونکہ اگر تقسیم کار کمپنیوں کے ذمہ دار حکام چوری اور سینہ زوری روکنے میں سنجیدہ ہوتے تو خرابی اس انتہا کو پہنچنے سے بہت پہلے چوروں، ان کے سرپرستوں اور سہولت کاروں کو کیفر کردار کو پہنچایا جا تا اور اس کیلئے عوامی احتجاج، ملک گیر ہڑتال اور اس کے نتیجے میں وفاقی حکومت کی ہدایات کا انتظار نہ کیا جاتا۔ اس لیے بجلی چوری روکنے کیلئے سب سے اہم اقدام ان اہلکاروں کیخلاف سخت کارروائی پر توجہ دینا ہے اگر ان سہولت کاروں اور بدعنوانی و چوری میں شراکت داروں کو نشان عبرت بنا دیا جائے تو بجلی چوری روکنے میں دیر نہیں لگے گی، یوں جب بجلی اداروں کے بڑے سے چھوٹے تک گندگی کے اس تالاب میں ہاتھ دھونے بلکہ نہانے میں مصروف ہو تو مہنگی ہوتی ہوئی بجلی کے بلوں کی تاب نہ لا سکنے والے غریبوں کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا، کہ وہ بھی اس غیر قانونی دھندے میں شامل ہو کر بجلی چوری کریں، اگرچہ یہ نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی طور پر بھی نہ صرف غلط بلکہ ملک و قوم کے مفادات کیخلاف ہے مگر جب وہ یہ دیکھتے ہیںکہ ’ طاقتور‘ لوگ ملی بھگت سے بجلی کمپنیوں کے اوپر سے لیکر نیچے تک افسروں اور اہلکاروں کو خوش رکھ کر دن رات مفت کی بجلی سے مستفید ہو رہے ہیں تو وہ اپنی ’ معمولی‘ چوری یعنی ایک دو پنکھے، دو تین ٹیوب لائٹ چلانے کیلئے کی جانیوالی بجلی چوری کوچوری نہیں بلکہ اپنا حق سمجھتے، دوسری بات یہ ہے کہ حکومت کا زور صرف عوام پر ہی چلتا ہے اور جن علاقوں میں چوری کی جاتی ہے وہاں قانون کا احترام کرنیوالے ان صارفین کے بلوں میں جو باقاعدگی کے ساتھ بل ادا کرتے ہیں۔ اس چوری ہونیوالی بجلی کے اضافی یونٹ ڈال کر کمپنی کے نقصان کو تو پورا کر لیا جاتا ہے مگر اب سوال یہ بھی ہے کہ اسکی گنجائش کس قانون میں موجود ہے اور کس بنیاد پر کمپنیوں کویہ حق حاصل ہے کہ وہ ناجائز اضافی یونٹ ان قانون کا احترام کرنیوالوں کے ذمہ ڈال کر انہیں عذاب میں مبتلا کریں؟ مگر کیا کامیاب کریک ڈائون کے بعد بجلی کی قیمتیں بل ادا کرنے والے صارفین کیلئے کم ہو جائیں گی؟ چوری ہمیشہ سے ہوتی آ رہی ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں بھی بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈائون کا آغاز کیا گیا مگر یہ عمل وقتی ہوتا ہے جس میں تسلسل نہیں ہوتا۔ اگر یہ کریک ڈائون جاری رہتا ہے تو ہو گا یہ کہ کچھ عرصے کیلئے حکومت کی ریکوری بہتر ہو جائے گی مگر کیا چھ ماہ بعد حکومت اس سلسلے کو جاری رکھ پائے گی؟ ان تمام سوالات کے جوابات تادم تحریر ہنوز طلب ہے، بجلی چوری ایک قومی المیہ بن چکا ہے جس کیخلاف متعلقہ اداروں اور شہریوں کو جدوجہد کرنا چاہئے تاکہ قانون پر عملدرآمد کرنیوالے افراد کو بجلی چوروں کی وجہ سے تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے، بجلی چوری کو عمل کو روکنے کیلئے کسی خاص وقت کا انتظار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے تبھی اس کے تھوڑے بہت فوائد سامنے آئیں گے، ایک یا دو ماہ کا کریک ڈائون اور اس کے بعد خاموشی مسئلے کا حل نہیں ہو گی۔





