سلفی کے شوق نے رسوا، سوا کیا

تحریر : سیدہ عنبرین
سیاسی جلسوں اور کبھی کبھار مشاعروں میں یہ منظر نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعت کا سربراہ خطاب کرنے اُٹھے یا صدر محفل اپنا کلام سنانے کیلئے مائیک پر تشریف لائیں تو سامعین ڈھونڈے سے نظر نہیں آتے مجبوراً پنڈال کی خالی کرسیوں سے خطاب کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا، جنرل اسمبلی کے خطاب کے موقع پر بھی کچھ ایسی ہی صورت نظر آئی، جنہیں کوئی کام یاد نہ آیا حتیٰ کہ واش روم جانے کی ضرورت پیش نہ آئی بس وہی ہال میں نظر آئے لیکن نگرانی کیلئے لائے گئے سے اظہار لاتعلقی کرنے کیلئے کوئی اپنے آئی فون میں محو نظر آیا تو کوئی قریب بیٹھے ہوئے کسی مندوب سے گفتگو کرتا نظر آیا، بڑی وجہ یہی تھی کہ کسی بھی بین الاقوامی فورم پر نمائندگی کیلئے جس مینڈیٹ کی ضرورت ہوتی ہے جو حقیقی قد کاٹھ کی نشان دہی کرتی ہے وہ پشت پر نہ تھا ایسے میں کوئی بات سنتا تو کیوں سنتا اور جب بات ہی نہیں سنی گئی تو اس کا اثر کسی نے کیا قبول کرنا ہے، کانوں میں ٹوٹیاں لگائے بیٹھے جتنے بھی تھے انہیں اس گفتگو میں کوئی دلچسپی نہ تھی وہ یہ تقریر اس سے قبل کئی مرتبہ سن چکے تھے کہ کشمیر ایک متنازعہ مسئلہ ہے افغانستان میں سلگتی ہوئی صورتحال کا سامنا ہے اور اکنامک چیلنجز کا سامنا ہے، کچھ عجب نہیں کانوں میں ٹوٹیاں لگائے ہال میں بیٹھے مندوبین نے اپنی ٹوٹیاں بند کر رکھی ہوں کہ تقریر کے آخری حصے میں مقرر کشکول نکال کر روسٹرم پر نہ رکھ دے اور آنسوئوں کی برسات میں کوئی المیہ راگ نہ شروع کر دے۔ ایسے اجلاس جہاں دنیا کے اہم ممالک سے ان کے سربراہان شرکت کر رہے ہوں انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے مختلف ملاقاتیں مستقبل میں طویل ملاقاتوں کی راہ ہموار کرتی ہیں جن کے بطن سے بعد ازاں معاہدے جنم لیتے ہیں جو ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ علاقائی اور ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن جنرل اسمبلی کے اس اجلاس کے موقع پر نگران وزیر اگر کسی سے ملاقات کرتے نظر آئے ہیں تو ان میں ترک لیڈر ہی قابل ذکر ہیں بظاہر تو دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آتے ہیں لیکن ایک چہرہ جذبات سے عاری مکمل سپاٹ ہے ایک اور تصویر میں ایک خاتون راہنما اپنا ہاتھ چھڑانے کی بھرپور کوششیں کرتی نظر آتی ہیں لیکن نگران نے ان کا ہاتھ دونوں ہاتھوں سے یوں گرفت میں لے رکھا ہے کہ چھوڑنے پر آمادہ نظر نہیں آتے تنگ آکر وہ توجہ ایک اور مبذول کراتی ہیں کہ ذرا دوسری طرف بھی نظر ڈالیں تو جواب دیا جاتا ہے مجھے معلوم ہے اِدھر اُدھر نہ دیکھیں نہ ہی ہاتھ چھڑائیں، خاتون محترم کے چہرے پر پریشانی نظر آتی ہے سوچتی ہونگی میرا ہاتھ کن ہاتھوں میں آگیا ہے، انہیں یقینا اس موقع پر اندازہ ہوا ہوگا کہ ’’ جن جھپا‘‘ کسے کہتے ہیں، ہر سربراہ مملکت کو اس قسم کے اجلاس میں شرکت سے قبل اہم معاملات اور اس پر اپنے موقف کے حوالے سے بریف کیا جاتا ہے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کس کس سے ملاقات طے ہے کس کس سے نہیں اور کس کس سے ملاقات کا چانس خود آگے بڑھ کر حاصل کریں حتیٰ کہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ کون کون آپ کی شکل دیکھتے ہی منہ پھیر کر بھاگ اُٹھے گا آپ نے تیزی سے بڑھ کر جن جھپا ڈالنا ہے، اس معاملے میں ہمیں بھارتی وزیراعظم مودی اکثر ایسے ہی جن جھپے ڈالتے نظر آتے ہیں، دنیا کے بیشتر اہم ممالک ہماری جن جھپا ٹیکنالوجی کو بھانپ گئے ہیں اور اس سے بچنے کی کوششیں کرتے ہیں صرف چینی قیادت ہمیں اس کی اجازت دیتی ہے وہ بھی اب بادل نخواستہ کیونکہ ہمارا چال چلن ان کی نظروں میں مشکوک ہو چلا ہے وقت نے ثابت کیا کہ ہم سے زیادہ مطلبی کوئی نہیں ہماری وقتی ضرورت جو بھی جہاں سے پوری کر رہا ہو ہم اس کے ہوتی ہیں ضرورت پوری ہونے اور وقت گزر جانے کے بعد اِدھر سے پلٹ جانے میں دیر نہیں کرتے جدھر عطار کا وہی لونڈا بیٹھا ہوتا ہے جس کے سب ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ بیمار ہوچکے ہیں، ایک چینی، ڈپلومیٹ نے کہیں کسی محفل میں پاکستان کو طوائف الفطرت تک کہا، جن ذرائع نے یہ خبر دی اُنہوں نے پاکستان کے اس طرز عمل پر افسوس کا اظہار کیا اور بتایا کہ پاکستان کو اپنے اس طرز عمل سے مستقبل میں بڑے نقصان کا خدشہ ہے، جنرل اسمبلی کے حالیہ اجلاس کے موقع پر اہم سربراہان موجود نہ تھے جن میں چینی صدر شی پنگ، روس کے صدر پوتن ، فرانس کے صدر میکرون ، برطانیہ کے وزیراعظم سنک اور بھارتی وزیراعظم مودی شامل
ہیں، جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ ہمیں ماضی کی بڑی جنگوں اور غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے دنیا کو آج بھی جنگوں اور خوراک کی قلت کا سامنا ہے، انتوینو گوہرتس کی منافقانہ تقریر پر کسی نے سوال نہ اُٹھایا کہ ایران پر ناجائز پابندیاں ہورہی تھیں، عراق پر دنیا حملہ آور ہورہی تھی اور تیل کے ذخائر پر جب قبضے کئے جارہے تھے، افغانستان میں لیھتم کے ذخائر کی چکا چوند امریکہ کو، یورپ کو وہاں کھینچ لائی تھی کشمیر پر بھارتی قبضہ مستحکم کرایا جارہا تھا اور فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جارہا تھا، اقوام متحدہ اس وقت کیوں سوئی رہی بلکہ ان حملوں کی اجازت دیتی رہی انہیں جائز سراسر جائز کیوں قرار دیتی رہی ترکیہ کے صدر نے مسئلہ کشمیر کا ذکر چھیڑا تو سب یملے بن گئے۔ نگران وزیراعظم سے اس موقع پر کسی اہم ملک کے مندوبین نے سائیڈ لائن ملاقات نہیں کی، امریکی کاروباری شخصیت بل گیٹس سے مصافحہ کرنے کا موقع ضرور ملا ہے جو آج کل مچھر پال کر ایک نئی بیماری اس کے ذریعے پھیلانے پر کام کر رہا ہے پہلے یہ بیماری پھیلائی جائیگی پھر اس کے علاج کیلئی دوا بناکر مارکیٹ اسی طرح کی جائیگی جسے کرونا ڈرامے میں کیا گیا تھا، امریکہ اور یورپ اب اسی طرح کے ڈراموں سے قوموں کا لہو نچوڑیں گے کیونکہ ان کا اسلحہ اب اتنا نہیں بک رہا جتنا وہ ماضی میں بناتے اور کمزور و بیوقوف ملکوں کو ان کے دشمنوں سے ڈرا کر اپنے دفاع کیلئے بیچا کرتے تھے، چھوٹے ملکوں نے تباہ کن جنگوں سے یہی ایک سبق سکھا ہے جو بہت اچھا ہے، کاش ان کے حکمران وطن سے محبت کا سبق بھی پڑھ لیں اور دشمنوں کے آلہ کار یا سہولت کار نہ بنیں، حرص، شوق اقتدار خون میں سرایت کر جانے والی بے ایمانی انہیں اِدھر آنے نہیں دیتی۔ دو اہم سکھ راہنمائوں کا بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں قتل کے بعد بھارت کو دنیا بھر میں رسوائیوں کا سامنا ہے، کلبھوشن کے پکڑے جانے، ابھی نندن کے گرائے جانے کے بعد ہمیں اس معاملے پر بھارت کو ننگا کرنا چاہیے لیکن یہ اس وقت ہی ہو پائے گا جب ہم سلفیاں بنانے اور انہیں اپ لوڈ کرنے کے شوق سے باہر آئینگے، سلفی کے شوق نے رسوا، سوا کیا۔





