میر واعظ عمر فاروق کی واپسی

تحریر : خنیس الرحمان
بھارت نے آج سے چار سال پہلے کشمیر میں آرٹیکل 35Aاور 370ختم کرکے کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کر دیا۔ اس بھارتی اقدام کے بعد وادی کی مکمل صورتحال بدل گئی۔ اس دوران کشمیر میں نقل و حرکت مکمل طور پر بند کردی گئی اور ایسا طویل ترین کرفیو لگایا گیا جس کی مثال آج دن تک نہیں ملتی۔ میڈیا کو بالخصوص مقامی صحافیوں کو کوریج سے روک دیا گیا۔ عالمی نشریاتی اداروں کو کشمیر میں بھارتی حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کو بھی دکھانے پر روک دیا گیا۔ اس دوران کشمیر کی تمام حریت اور سیاسی قیادت کو نظر بند کر دیا گیا اور کئی کشمیری رہنماں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ان میں ایک بڑی اہم متحرک میر واعظ عمر فاروق بھی شامل تھے۔ میر واعظ عمر فاروق سرینگر کی جامع مسجد میں بطور خطیب فرائض سرانجام دیتے ہیں اس سے قبل ان کے والد میر واعظ فاروق بطور میر واعظ کشمیر مرکزی جامع مسجد میں فرائض سرانجام دے رہے تھے،21مئی 1990ء کے دن انہیں قتل کر دیا گیا جس کے بعد عمر فاروق سری نگر کی جامع مسجد کے میر واعظ مقرر ہوگئے اور اس وقت سے اب تک وہ سری نگر کی تاریخی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ پڑھاتے آرہے ہیں۔ اس کی ساتھ ساتھ میر واعظ عمر فاروق کشمیر کی عوامی ایکشن کمیٹی کے سربراہ بھی ہیں اور حریت کانفرنس کے مرکزی رہنماں میں شامل ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق 1990ء سے لے کر اب تک کئی مرتبہ گرفتار ہوچکے ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق عالمی سطح پر سب سے زیادہ با اثر شخصیات کی فہرست مرتب کرنے والے ادارے اردن کے ’ دی رائل اسلامک سٹریٹیجک سٹیڈیز سینٹر‘ کی جانب سے جاری کی گئی دنیا کی 500بااثر مسلم شخصیات کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔
میر واعظ عمر فاروق کو آرٹیکل 35اے ختم ہونے سے ایک روز قبل 4اگست کو نظر بند کیا گیا اور نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ان پر پابندی عائد کی گئی تھی کہ وہ نماز جمعہ بھی نہیں پڑھا سکتے۔ تین سال بعد 2019ء میں بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر مسلط لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی طرف سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ میر واعظ عمر فاروق نے خود ساختہ خانہ نظر بندی اختیار کر رکھی ہے۔ سنہا نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کہتا ہوں کہ میر واعظ کسی بھی جگہ جانے کے لیے مکمل طور پر آزاد ہیں۔ ہم نے میر واعظ عمر فاروق کو سکیورٹی دے رکھی ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر پر مسلط لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے اس
عوے کے بعد انڈین میڈیا نے میر واعظ عمر فاروق کے خلاف پروپیگنڈا مہم چلائی جس کا مقصد میر واعظ کی مقبولیت کو نقصان پہنچانا تھا۔ انڈین میڈیا بار بار کہتا رہا کہ میر واعظ مکمل طور پر آزاد ہیں البتہ وہ خود ساختہ نظری بندی اختیار کیے ہوئے ہیں اس لئے جامع مسجد نہیں جا رہے تاکہ لوگ انہیں مظلوم سمجھیں۔ بھارتی لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کے بیان اور بھارتی میڈیا کے زہر ناک پروپیگنڈے کے بعد میر واعظ عمر فاروق نے26اگست 2022ء کو سرینگر کی جامع مسجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کا اعلان کیا جس پر جامع مسجد کی انتظامیہ نے میر واعظ کی جامع مسجد آمد اور ان کے خطاب کے لیے تیاریوں کوح تمی شکل دی جبکہ عوام الناس انھیں دیکھنے اور سننے کے لیے بے صبری سے انتظار میں تھے۔ لیکن جب تین برسوں سے گھر میں نظر بند میر واعظ عمر فاروق نے اپنے گھر واقع نگین باغ سری نگر سے نکلنے اور جامع مسجد سرینگر جانے کی کوشش کی اور انھیں گھر کے دروازے پر ہی روک دیا گیا۔
میر واعظ عمر فاروق کی طرف سے جموں و کشمیر اور لداخ میں نظربندی کے خلاف اپیل دائر کی گئی تھی جس پر عدالت کی طرف سے بلاجواز نظر بندی پر بھارتی حکام سے وضاحت طلب کی گئی۔ چار سال بعد میر واعظ عمر فاروق کی نظربندی ختم کرتے ہوئے رہائی کے احکامات سنائے گئے۔21ستمبر جمعرات کے دن میر واعظ عمر فاروق کو بھارتی حکام کی طرف سے مکمل آزادی اور خطبہ جمعہ پڑھانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ جمعہ کی نماز سے قبل جامع مسجد تک سخت انتظامات کیے گئے تھے اور میر واعظ عمر فاروق بھی مسجد تک سیکیورٹی کے حصار میں پہنچے۔ اس موقع پر ایک بڑی تعداد ان کے استقبال کے لیے موجود تھی۔ اس دوران استقبال کے لیے موجود لوگوں نے آزادی کے نعرے بھی لگائے۔ دوران خطبہ وہ آبدیدہ ہوگئے اور انہوں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ والد صاحب کی موت کے بعد یہ دور میرے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ رہا۔ انہوں نے خطاب میں سری نگر کی جامع مسجد میں جمع مجمع سے یہ بھی کہا کہ ہمیں علیحدگی پسند کہا گیا، ریاست مخالف اور امن کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا گیا۔ لیکن ہمیں اس سے کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوا اور نہ میری کوئی ذاتی خواہشات ہیں۔ الحمدللہ ہماری حوصلے بلند ہیں، چاہئے ہمیں نقصان اُٹھانا پڑا ہم پھر بھی بات چیت اور امن کی وکالت کرتے ہیں۔ انہوں نے سری نگر کے لوگوں کو یقین دلایا کہ آپ صبر کا دامن تھامے رکھیں، حالات عنقریب ہمارے حق میں بدل جائیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے قید سیاسی و حریت قیادت، نوجوانوں، صحافیوں اور دیگر رضاکاروں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ میرواعظ عمر فاروق کی رہائی پر مقامی کشمیر کی سیاسی قیادت نے بھارت کی طرف سے خوش آئند عمل قرار دیا۔
چند ہفتے قبل کشمیر میں قید جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق ویری اور اہلسنت عالم عبدالرزاق دائودی کی نظر بندی کے احکامات کو بھی ختم کیا گیا۔ یہاں میں یہ بھی بتاتا چلوں کے ان چار سالوں کے دوران کئی کشمیری حریت رہنما دوران حراست انتقال کر گئے، جن میں بابائے حریت سید علی گیلانی، اشرف صحرائی اور الطاف احمد شاہ سمیت مرکزی لیڈر شپ شامل ہے۔ اسی طرح ان چار سالوں کے دوران قیادت کی بڑی تعداد کو حبس بے جا اور انتہائی تکلیف دہ قید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جن میں سیدہ آسیہ اندرابی، ناہیدہ نسرین اور پاکستان کی معاون خصوصی برائے انسانی حقوق مشعال حسین ملک کے شوہر یاسین ملک ودیگر شامل ہیں۔ پاکستان کی نگرا ن حکومت اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو اقوام متحدہ میں اس حوالے مضبوط آواز اٹھانا ہوگی۔
—





