
سی ایم رضوان
سینیٹر سراج الحق کا یہ کہنا کس قدر سچ، موجب تفکر اور باعث شرمندگی ہے کہ بجلی کے بلوں کی اقساط کروانے کے لئے بھی حکومت آئی ایم ایف سے اجازت لینے پر مجبور ہو گئی ہے۔ بقول شاعر ہماری ہر حکومت کو لگ گئی بے اختیاری۔ عمران خان اور شہباز شریف کی حکومتیں اور طرح سے بے اختیار تھیں جبکہ اب نگران حکومت ایک تو ویسے ہی بے اختیار ہوتی ہے اور دوسرا موجودہ نگران حکومت کچھ زیادہ ہی بے اختیار ہے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی عوام کے لئے کچھ نہیں کر سکتی اور رو اس لئے رہی ہے کیونکہ تھالی میں کچھ نہیں ہے۔ حالانکہ جب یہ آئے تھے تو ان کا پروگرام یہ تھا کہ تھوڑا زیادہ عرصہ نگران حکومت چلا کر معیشت کو تھوڑا سنبھالا دے کر اور ایک بار سب کو اچھی طرح رگڑا دے کر بچے کھچے عناصر کو الیکشن میں پھینکا جائے گا پھر جسے دے مولا لیکن یہاں نظر آیا تباہ شدہ معیشت کا رولا کہ چاہ کر بھی معیشت کو استحکام دینا ناممکنات میں سے ہے۔ سیاسی استحکام بھی معیشت سے مشروط ہے لہٰذا اب عافیت اسی میں سمجھی گئی ہے کہ جتنا جلدی ہو سکے انتخابات کروا کر کاسہ آئندہ منتخب سیاستدانوں کے ہاتھ میں پکڑایا جائے اور کل کلاں سیاستدان خود ہی اعلان کریں کہ معیشت تباہ ہو گئی آجائو سیاستدان اور قوم سبھی مل کر دنیا بھر میں بھیک مانگتے ہیں۔ تبھی تو کل شہباز شریف نے لندن میں ایک پریس بریفنگ میں جہاں اس خبر کی تجدید کی کہ نواز شریف 21اکتوبر کو لازماً پاکستان واپس آئیں گے وہاں یہ بھی انتہائی چالاکی سے کہہ دیا کہ نواز شریف گو کہ ایک معمار کی حیثیت سے آ رہے ہیں مگر معاملات کی درستگی میں وقت لگے گا یعنی اگلی حکومت گو کہ مسلم لیگ ن کی ہو گی مگر عوام کو سکھ، چین اور سہولت نام کی کوئی چیز آئندہ دور حکومت میں بھی نہیں ملے گی۔ جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔ جیسا اقبالی جذبہ تو شاید ہمیں اپنی زندگی میں دیکھنا نصیب نہ ہو لیکن دہقاں کو بھوک سے مرتا ہم دیکھ رہے ہیں۔
بہرحال اگلی سردیوں کے جنوری فروری کی ٹھنڈ میں انتخابات کی گرم جوشی دیکھنا یقینی ہو گیا ہے۔ اس یقین کے ساتھ ہی ہماری مین سٹریم جماعتوں نے انتخابات کے لئے اپنے اپنے بیانیے بھی متعارف کروانا شروع کر دیئے ہیں۔ شریک چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے چند روز قبل 90روز میں عام انتخابات کا مطالبہ کیا تھا پھر گزشتہ روز جب الیکشن کمیشن نے جنوری کے آخری ہفتے میں الیکشن کا اعلان کیا تو وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے اور اسے مبہم اور قواعد، ضوابط پر دوہری پالیسی قرار دیا اور 90روز کا مطالبہ دہرایا۔ پھر یہ بھی کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی پارٹی کے تیس سالہ اعمال کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری ہے اور پیپلز پارٹی کا موقف ہے کہ ہماری کوئی سیاسی دشمنی نہیں ہے، حالانکہ ن لیگ کے خلاف ان کا ہر کارکن زہر اگل رہا ہے۔ یہ جھوٹا موقف بھی دیا کہ ہمارا مقابلہ مہنگائی اور بیروزگاری سے ہے۔ یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی کی تاریخ ہے کہ اس نے ہمیشہ عوام کی خدمت کی ہے، عوام کو مشکلات سے نکالا ہے اور پسماندہ طبقات کا خیال رکھا ہے اور پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپنی کارکردگی سے یہ ثابت کیا ہے کہ ہماری جماعت عوام دوست ہے۔ جیل میں موجود سیاستدانوں کو انہوں نے مشورہ دیا کہ ’’ گھبرانا نہیں ہے‘‘۔ ان کا یہ کہنا بھی جھوٹ تھا کہ پیپلز پارٹی کے خلاف پروپیگنڈا مہم ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے چلتی آرہی ہے اور ہر بار کردار کشی کرنے والوں کو اپنی کارکردگی سے منہ توڑ جواب دیا ہے۔ تھوڑا سا گول مول مسکا انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بھی لگایا کہ جن کٹھ پتلیوں پر 30برس محنت کر کے سامنے لایا گیا انہوں نے عسکری تنصیبات پر حملے کیے، کور کمانڈر ہاس، جی ایچ کیو پر حملے کیے، اب ان حملہ کرنے والوں کو بھی سبق سکھانا ہے کہ خبردار کوئی بھی سیاستدان یا اس ملک کا شہری ہمارے اثاثوں اور اداروں پر اس طریقے سے حملہ نہ کریں۔ کٹھ پتلیاں بنانے والوں کے لئے بھی واضح پیغام ہے کہ آپ کو بھی پاکستان کے عوام خبردار کرتے ہیں کہ ہمارے اوپر اس قسم کے تجربے کرنا بند کریں، اگر عوام میاں نواز شریف کو منتخب کرتے ہیں تو انہیں قبول کرنا چاہیے اور اگر عوام پیپلز پارٹی کو منتخب کرتے ہیں تو سب کو یہ قبول کرنا چاہیے اور اگر عوام تحریک انصاف کو بھی منتخب کریں تو اس کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ حالانکہ یہ خبر بھی گردش کر رہی ہے کہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سے اتحاد کرنے کا سوچ رہی ہے۔ بہرحال ایک طوطے کی طرح رٹی رٹائی بیان بازی کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ پیپلز پارٹی عوام کی نمائندگی کرتی ہے اور عوام کی پہنچ نہ عدلیہ کے پاس ہے اور نہ ہی آرمی چیف کے پاس اس لئے عوام اپنے مسائل بھی ہمیں بتاتے ہیں اور عوام اس وقت چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم مہنگائی کے سونامی میں ڈوب رہے ہیں۔ مزے دار بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے یہ بھی کہا کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے حوالے سے جو بھی پابندیاں اور قوانین سندھ پر لاگو ہیں وہ پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر بھی لاگو ہونی چاہئیں۔ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے جاری کام کی بندش پر تنقید کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا کہ اس کام پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں وہ ختم کی جائیں اور سیلاب متاثرین کے لئے جاری کام کو پھر سے شروع کیا جائے یہاں اس نقطہ پر بھی غور ضروری ہے کہ نگران حکومت آنے کے بعد جو سیاسی اور مالی فائدے ان امدادی منصوبوں کے چل جلاو سے پی پی پی کو مل رہے تھے وہ اب بند ہو گئے ہیں اور بلاول کا غصہ الیکشن کمیشن پر نکل رہا ہے۔ یعنی پیپلز پارٹی کا بیانیہ خود اس کی کارکردگی کی نفی کر رہا ہے۔ آصف علی زرداری اس بیانیہ کی نفی اس طرح کر رہے ہیں کہ وہ ق لیگ کے روح رواں چودھری شجاعت حسین کے پاس جا بیٹھے ہیں اور دونوں کا مشترکہ بیانیہ میڈیا میں چل رہا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی طاقتوں ( کم از کم پی ڈی ایم کی حد تک) مفاہمت کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔
اسی طرح ن لیگ کے اپنے مسائل ہیں۔ گو کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد حاصل ہے مگر جس طرح ماضی میں اک واری فیر کی گردان سنائی دیتی تھی وہ اب شہباز شریف کی سابقہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث دور کہیں ماضی کے صحرائوں میں گم ہو گئی ہے۔ گو کہ مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے لئے نواز شریف نے گزشتہ روز کھلنڈروں کے ٹولے کے احتساب کی بات کی ہے اور ریٹائرڈ جرنیلوں اور ریٹائرڈ ججوں کے نام لے کر ان کے خلاف کارروائی کی بات کی ہے۔ اس بات کا اثر کسی اور پر تو شاید ہی کچھ ہوا ہو مگر اس قدرے سخت بیان کی بازگشت سن کر نرم دل شہباز شریف ہکلا کر ایک رات میں ہی پاکستان سے برطانیہ اس طرح گئے ہیں جس طرح بندہ لاہور سے شیخوپورہ جاتا ہے لیکن نواز شریف کی کوشش یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد کے ساتھ ساتھ اس کے چند ریٹائرڈ عناصر کے خلاف بیانیہ بنایا جائے۔ شاید عوام اسے پذیرائی دے دیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کے چند عناصر پر محض اس لئے تنقید کرتی آئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہو جائے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ خود مشکلات کا شکار ہے کہ جس معیشت کے بل بوتے پر وہ سیاستدانوں کو اب تک انگلیوں پر نچاتے آئے ہیں اب وہ معیشت ہی جواب دے گئی ہے حتیٰ کہ اسی معیشت کی خستہ حالی پر نواز شریف اسے بلیک میل کر رہے ہیں کہ پہلے ان کی مرضی کا احتساب کرو تو پھر وہ معیشت کو استحکام دینے کے لئے اقتدار میں آئیں گے۔
بہرحال ایک طرف سیاسی جماعتوں کے بیانیوں کا موسم بہار ہے تو دوسری طرف ملکی معیشت تباہی سے دوچار ہے۔ اس کے برعکس عوام میں جس قدر جوش انتخابات کو لے کر ہے سٹیک ہولڈرز پر اتنی ہی اوس پڑی ہوئی ہے اور نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والی صورتحال ہے۔ گو کہ حکومتی ایوانوں میں عیاشی کے سارے سامان موجود ہیں مگر عوام کو دینے کے لئے لولی پاپ آئی ایم ایف نے چھین لیا ہے اور اب کی بار سیاست یا حکومت نہیں معیشت عالمی استعمار کے پنجہ استبداد میں آئی ہوئی ہے۔ ان حالات میں آنے والے الیکشن بہت بڑی خرابی لے کر آ رہے ہیں۔ اللّٰہ ملک و قوم کی حفاظت فرمائے۔





