عقیدت کے نام پر بے ادبی

رفیع صحرائی
محبت تمام جذبوں پر حاوی ایک ایسا جذبہ ہے جس میں سود و زیاں کا حساب نہیں دیکھا جاتا۔ محبوب کی خوشی اور خوشنودی کے لیے محب ہمہ وقت حاضر اور ہر قسم کے حکم کی بجا آوری کو تیار ملتا ہے۔ محبت سے اگلا مرحلہ جنون کا ہے جہاں بندہ دنیا اور دنیاداروں کے ساتھ ساتھ خود سے بھی بیگانہ ہو جاتا ہے۔ تب نہ سر کٹ جانے کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی سُولی کی پروا ہوتی ہے۔ مقصدِ حیات صرف محبوب کی رضا بن جاتا ہے۔
اگر مذہب کا معاملہ ہو تو ہماری محبت واقعی جنون تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم پاکستانی ویسے بھی محبت کے معاملے میں بہت شدید بلکہ شدت پسند واقع ہوئے ہیں۔ مذہبی معاملات میں یہ شدت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری مذہبی جنونیت کو دیکھتے ہوئے اس کا بے دریغ استحصال کیا جاتا ہے۔ سیاستدان اپنی سیاست کو مذہبی رنگ اور سیاسی بیانات کو مذہبی ٹچ دے کر عوام کے جذبات سے کھیلتے اور دل ہی دل میں ان کی معصومیت پر ہنستے ہیں۔ مذہب کے نام پر ہم پاکستانی کٹ مرنے کو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ ہم اس کے لیے پاسبانِ عقل کو ایک طرف کر کے نعروں کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں۔ مذہب سے لگائو اور جنونیت بے شک ایمان کی پختگی کی علامت ہے۔ دینی غیرت و حمیت نہ ہو تو یہ ایمان کی کمزوری کا اظہار ہے مگر بدقسمتی سے بعض معاملات میں ہم نے دین کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور محبت و جنونیت کو اپنا لیا ہے۔
تین سال پہلے فرانس کے ایک بدبخت شخص نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے جب گستاخانہ خاکے بنائے تو مسلم امہ میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ تمام عالمِ اسلام سراپا احتجاج بن گیا۔ یہی حال چند ماہ پہلے قرآن پاک جلائے جانے کے واقعہ پر ہوا تھا۔ خصوصاً پاکستانیوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ایسا کیوں نہ ہوتا، ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہمیں جان، مال، اولاد، ماں باپ ہر ایک سے بڑھ کر پیارے اور عزیز ہیں۔ آپ کی حرمت پر کٹ مرنا ہر پاکستانی اپنے لیے عین سعادت سمجھتا ہے۔ اور سمجھنا بھی چاہیے کہ ایمان کی تکمیل کے لیے یہ بنیادی شرط ہے۔
اب محبت اور عقیدت کے دوسرے پہلو پر بھی غور کئے لیتے ہیں۔ دنیاوی محبت میں ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ محبوب کے ایک اشارہ ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ لوگوں نے اپنے محبوب کی خاطر اپنا عقیدہ، زندگی کا چلن حتیٰ کہ مذہب اور دین تک تبدیل کر لیا۔ کسی نے وطن چھوڑ دیا تو کسی نے والدین اور دیگر پیاروں کو چھوڑ دیا۔ محبوب نے جو کہا محب اسی رنگ میں رنگ گیا۔ دین سے برگشتہ نوجوان پانچ وقت کا نمازی بن گیا۔ یہ دنیاوی محبت و عشق کی مثالیں ہیں۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم پاکستانی جو عشقِ رسول کے مدّعی ہیں کیا ہم بھی اپنے محبوب کی خواہشات اور تعلیمات کا اسی قدر پاس رکھتے ہیں جتنا دنیادار لوگ اپنے دنیاوی عشق میں رکھتے ہیں؟۔ کیا ہماری زندگی کا چلن بھی ہمارے محبوب کی اطباع اور پیروی کے مطابق ہے۔ بدقسمتی سے جواب نفی میں ملتا ہے۔ مزید غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ہم ایسے منافق لوگ ہیں جو دوسرے مذاہب کے لوگوں کی طرف سے کی گئی توہینِ رسالت اور اسلامی شعائر کی خلاف ورزی پر سیخ پا ہو کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ جلوس نکالتے ہیں، جلسے کرتے ہیں، سڑکیں بلاک کرتے ہیں اور سرکاری و غیر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا ثوابِ دارین کا موجب سمجھتے ہیں مگر خود دن رات بڑے دھڑلے سے توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب کے مرتکب ہوتے ہیں اور اسے نیکی سمجھ کر باعثِ برکت و ترقی سمجھتے ہیں۔ میں نے ایک سی ڈیز بیچنے والے کی دکان کا سائن بورڈ دیکھا، لکھا تھا ’’ بسم اللّٰہ میوزک سینٹر‘‘ استغفراللہ، گستاخی کی اس سے بڑھ کر انتہا کیا ہو گی کہ موسیقی جیسے غیر اسلامی کام کی تشہیر کے لیے بھی اللّٰہ کا نام استعمال کیا جائے۔ کپڑے کی دکان والے نے اپنے کاروبار کی تشہیر کے لیے گاہکوں کو کپڑا ڈال کر دینے والے شاپر پر لکھوا رکھا تھا، ’’ محمد فیبرکس‘‘ ۔ جانے دکان کا مالک کتنا پکا مسلمان ہو گا جس نے ’’ محمد‘‘ کے نام سے دکان بنائی اور شاپنگ بیگز سے بھی محبت کا ثبوت دیا مگر خیر و برکت کے لالچ نے ادب پسِ پشت ڈال دیا۔ اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ گھر میں لے جانے کے بعد اسی شاپنگ بیگ کو ان پڑھ گاہک جوتے ڈالنے کی کام میں بھی لا سکتا ہے یا اس میں کوڑا ڈال کر کچرے کے ڈھیر پر بھی پھینک سکتا ہے۔
پاکستان دنیا کا شاید واحد ایسا ملک ہے جس میں دودھ دہی، فوٹو سٹیٹ، ریسٹورنٹ، اسٹیٹ ایجنسی، بیکری، سیلون، کریانے اور ادویات سمیت درجنوں کاروبار ایسے ہیں، جن کے نام مکہ، مدینہ، رحمان، صحابہ کرام، انبیا اور اسلامی ناموں پر رکھے جاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہم اسلام کا بول بالا اور خدمت کس انداز سے کرنا چاہتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ محبت ہے، برکت کا لالچ ہے یا مارکیٹنگ ہے مگر کسی بھی کاروباری، تاجر یا دکاندار کو ان ناموں کی بے ادبی کا کبھی خیال نہیں آیا۔ کتنا ثواب اور بلند درجہ ملتا ہو گا ان کو جب مدینہ جنرل سٹور، مکہ بیکری، حسینی دوا خانہ اور محمدیہ پنسار سٹور کے شاپر اور پیکنگ کے ڈبے کچرے کے ڈھیروں پر جاتے ہوں گے۔ کوئی کتنی احتیاط کرے؟ کیا کسی نے سوچا کہ لاکھوں کی تعداد میں پرنٹ شدہ مقدس ناموں والے یہ شاپنگ بیگز کہاں جاتے ہوں گے؟ آپ نے انگریزی یا اردو میں شاپر پر مقدس ہستی کا نام لکھوایا اور کسی ان پڑھ نے اس میں جوتے ڈال کر رکھ دئیے تو قصور کس کا ہوا؟۔ ہم فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرنے کے لئے سڑکیں بند کر کے، املاک کو تباہ کر کے اپنے ہی بھائیوں کے سر پھاڑتے ہیں پہلے خود اپنے عمل سے تو ثابت کریں کہ ’’ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں‘‘۔ سعودی عرب میں دکانوں کے نام مقدس ہستیوں یا جگہوں کے ناموں پر رکھنے پر پابندی ہے مگر ہمارے ہاں اسلام اور مقدس ہستیوں سے محبت کا ثبوت ہی صرف ان ناموں کا کاروباری مقاصد کے لیے استعمال رہ گیا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شاپنگ بیگز، ہینڈ بلز، اور اشتہارات پر ان ناموں کی پرنٹنگ پر پابندی لگائے۔
کنگن پور میں میرے ایک شاعر و ادیب دوست ایم ریاض قیصر رہتے ہیں۔ یہ جب گلی یا بازار سے گزر رہے ہوں تو ان کی نظر ہمیشہ زمین پر رہتی ہے۔ کسی بھی جگہ مقدس عبارت پر مبنی کوئی کاغذ، بچوں کے کھیلنے کے لیے پرنٹ کیا گیا جعلی کرنسی نوٹ ( اس پر قائدِ اعظمؒ کی تصویر ہوتی ہے) یا خصوصاً اگست کے مہینے میں قومی پرچم والی جھنڈیاں زمین پر پڑی نظر آ جائیں تو یہ اسے اٹھاتے ہیں۔ چوم کر آنکھوں سے لگاتے ہیں اور کاغذ کو صاف کر کے جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ گزشتہ روز ملاقات ہوئی تو آبدیدہ ہو کر کہنے لگے ’’ آخر حکومت جعلی کرنسی اور جھنڈیوں کی پرنٹنگ پر پابندی کیوں نہیں لگاتی؟ اور اگر پابندی لگانا ممکن نہیں تو ان کی بے حرمتی کرنے والوں کے لیے سزائیں تو تجویز کر ہی سکتی ہے‘‘۔





