تازہ ترینخبریںسیاسیات

وہ وقت جب نیب کی انکوائری کی انکوائری ہوئی

پاکستان کے سینئیر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے ماضی کے اوراق پلٹتے ہوئے ایک دلچسپ قصہ اپنے حالیہ کالم کی زینت بنایا ۔

جس میں سینئیر صحافی دلچسپ قصہ سناتے ہوئے لکھتے ہیں کہ صدر مملکت نے چیئرمین نیب کو غصے سے گھورتے ہوئے کہا کہ مجھے پروا نہیں کہ تم نے اس انکوائری رپورٹ میں کیا لکھا ہے، میں تو اسے پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا۔ پھر انہوں نے اس انکوائری رپورٹ کو پرے پھینک دیا۔ اپنی اس توہین پر چیئرمین نیب اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے بھی بڑے تلخ لہجے میں صدر سے کہا کہ آپ کوئی نیا چیئرمین نیب ڈھونڈ لیں میں آپ کیساتھ کام نہیں کرسکتا۔

اس صدر کا نام جنرل پرویز مشرف تھا جس نے 1999ء میں بڑے فخر کیساتھ نیب بنایا تھا اور جس چیئرمین نیب نے جنرل پرویز مشرف کی خوشنودی کیلئے اپنا ضمیر فروخت کرنے سے انکار کیا اسکا نام لیفٹیننٹ ریٹائرڈ شاہد عزیز تھا۔ یہ واقعہ شایدعزیز نے اپنی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ میں خود تحریر کیا تھا۔ یہ کتاب بہت سی خوفناک کہانیوں پرمشتمل تھی۔ پہلے اس کتاب کو مارکیٹ سے غائب کیا گیا پھر یہ کتاب لکھنے والا بھی لاپتہ ہوگیا۔ شاہد عزیز نے اس کتاب میں لکھا کہ جب وہ کور کمانڈر لاہور تھے تو انہوں نے ڈی ایچ اے میں مبینہ بدعنوانیوں کی انکوائری کرائی تھی۔

اس انکوائری سے جنرل پرویز مشرف خوش نہیں تھے لیکن انہیں اندازہ تھا کہ شاہد عزیز دبائو میں نہیں آتے، لہٰذا انہیں نیب کا سربراہ بنا دیا گیا۔ جس انکوائری رپورٹ پر جنرل پرویز مشرف برہم ہوئے یہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق تھی۔ نیب نے شاہد عزیز کی نگرانی میں کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد ٹھوس شواہد کی مدد سے یہ پتہ لگایا تھا کہ پٹرول کی قیمتوں کا تعین بظاہر اوگرا کرتا ہے لیکن حقیقت میں یہ فیصلہ پرائیویٹ آئل کمپنیاں کرتی ہیں جو ناجائز منافع کمانے کیلئے عوام پرضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالتی ہیں۔ نیب نے 2006ء میں اوگرا کی 81ارب روپے کی کرپشن کا سراغ لگایا۔

اس وقت کے سیکرٹری پٹرولیم احمد وقار اور چیئرمین سی بی آر عبداللہ یوسف سے لیکر وزیر اعظم شوکت عزیز تک ہر کسی نے شاہد عزیز پر دبائو ڈالا کہ اوگرا کے خلاف تحقیقات بند کر دو۔ آخر میں ملک کا فوجی صدر بھی آئل مافیا کا محافظ بن گیا تو شاہد عزیز نے 13جون 2006ء کو انکوائری رپورٹ سرکاری طور پر وزیر اعظم کو بھجوا دی اور اس کی ایک نقل صدر پاکستان کو بھیجی جس پر صدر صاحب سیخ پا ہوگئے۔ پھر اس انکوائری کا اثر زائل کرنےکیلئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر ڈاکٹر عشرت حسین کو لایا گیا۔

انہوں نے نیب کی انکوائری کی انکوائری کر ڈالی۔ ڈاکٹرعشرت نے دسمبر 2006ء میں نیب کے دعوئوں کو مسترد کرتے ہوئے بڑی بڑی پرائیویٹ آئل کمپنیوں اور اوگرا کے گٹھ جوڑ پر پردہ ڈالنے کیلئے کہا کہ کچھ سرکاری اداروں نے غلطیاں ضرور کی ہیں لیکن ان غلطیوں کے پیچھے بدنیتی نہیں تھی۔ نیب کے سربراہ شاہد عزیز نے ڈاکٹر عشرت حسین کی رپورٹ کو مسترد کردیا اور آخر کار چھٹی لیکر گھر بیٹھ گئے۔ 2007ء میں انہوں نے استعفیٰ دیدیا۔

جواب دیں

Back to top button