
سی ایم رضوان
ادھر ہائی ویز یا کارپوریشن والے اربوں روپے لگا کر کوئی شاہراہِ یا سڑک بنا کر منصوبہ مکمل کر کے گھر نہیں پہنچتے کہ دوسری طرف سے سیوریج یا واٹر سپلائی والے آ دھمکتے ہیں کہ ہم نے پائپ ڈالنے کے لئے کھدائی کرنی ہے اور پھر وہ بلا جھجک اور بے دریغ توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں اور شام سے پہلے پہلے اربوں روپے برباد کر دیتے ہیں۔ وہ نہ آئیں تو سوئی گیس پائپ یا ٹیلیفون لائنز بچھانے والے اسی طرح کی کھدائی کرنے کے لئے آجاتے ہیں اور پھر دے مار ساڑھے چار۔ اچھی بھلی سڑک گھنٹوں میں کھنڈرات میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ تماشا برسات کے عین درمیان لگایا جاتا ہے اور پھر بارشوں سے ایسے کھڈے پڑتے اور ایسے جوہڑ بنتے ہیں کہ عوام چیخ اٹھتے ہیں۔ اس ضمن میں سارا قصور ان منصوبہ سازوں اور ارباب بست و کشاد کا ہوتا ہے جو اندھوں کی طرح منصوبے بناتے اور ان پر اندھا دھند عمل کرواتے ہیں۔ گو کہ ان منصوبہ سازوں کو بڑی تنخواہیں اور مراعات صرف اسی مقصد کے تحت دی جاتی ہیں کہ وہ درست اقدامات مناسب وقت پر کروائیں مگر مال مفت دل بے رحم کے مصداق یہ کھاتے تو عوام کا ہیں لیکن دشمنی بھی عوام کے ساتھ ہی نبھاتے ہیں۔ پچھلے سالوں میں ملک کی متعدد مصروف ترین اور اہم شاہراہوں اور سڑکوں کا بیٹھ جانا اور ان میں جان لیوا گڑھے بن جانا ہمارے اسی منصوبہ بندی سیکٹر کی ایسی ہی بداعمالیوں کا شاخسانہ ہے۔ دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ اسی طرح کی غیر وقتی اور غیر موزوں اکھاڑ پچھاڑ، توڑ پھوڑ اور فیصلہ سازی اہم ترین اور حساس ترین ملکی عدالتی، آئینی، قانونی اور انتظامی معاملات میں بھی پچھلے 75سالوں سے جاری ہے اور یوں جب بھی حساب لگایا جاتا ہے تو بقایا یہی بچتا ہے کہ ہم نے ہر سال کے اختتام پر، ہر اہم سنگ میل پر اور ہر اہم سبکدوشی اور تعیناتی پر ہمیشہ سے ہی ترقی معکوس کی ہے یعنی ہم ازل سے ہی پیچھے کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے عدالتی فیصلوں نے بھی الا ماشاء اللہ ہمیشہ یہی اشارہ دیا ہے کہ ہم قانون کو موم کی ناک سمجھتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق جس طرف چاہے موڑ لیتے ہیں اور یہ کار گناہ کوئی اور نہیں خود قانون کے پنڈت اپنے قلم سے کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے تازہ مثال سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان عمر عطاء بندیال کی ملازمت کے آخری روز کا فیصلہ ہے۔ جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے حالیہ نیب ترامیم کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اس بارے میں ماضی کی طرح ایک بار پھر قانونی ماہرین کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اعلیٰ عدالت نے اپنے فیصلے کے ذریعے پارلیمان کے دائرہ اختیار میں مداخلت کی ہے جب کہ کچھ کا خیال ہے کہ عدالت نے آئین کے تحت فیصلہ سنایا ہے۔ یہ آرا کا تفاوت بھی ایک علیحدہ تماشا ہے کہ جو جس ڈیرے سے مال پانی کھاتا ہے اسی ڈیرے کی حمایت میں بول رہا ہوتا ہے۔ یعنی آئین، اصول اور ضوابط کو دونوں جانب سے ہی ثانوی حیثیت دے دی گئی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جمعہ کو نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے مذکورہ نیب ترامیم کی بیشتر شقیں کالعدم قرار دیتے ہوئے ترامیم سے قبل نیب میں چلنے والے مقدمات بحال کر دیئے ہیں اور 50کروڑ روپے کی حد تک کے ریفرنس نیب دائرہ کار سے خارج قرار دینے کی شق کالعدم قرار دے کر گویا پارلیمنٹ کی بالادستی پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے عوامی عہدے رکھنے والوں کے ریفرنس ختم کرنے کی شق تو کالعدم قرار دے دی لیکن سروس آف پاکستان یعنی فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی سے وابستہ افراد کا استثنیٰ برقرار رکھا ہے۔ بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا ہے کہ عدلیہ کو پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس فیصلے پر نظرثانی نہ کی گئی تو اس سے پاکستان کے چھ سابق وزرائے اعظم اور ایک صدر کی خلاف کیس دوبارہ کھل جائیں گے۔ ان میں آصف علی زرداری، نواز شریف، شہباز شریف، یوسف رضا گیلانی، شاہد خاقان عباسی، راجا پرویز اشرف اور شوکت عزیز شامل ہیں۔ اس فیصلے کے تحت نیب کو پابند بنایا گیا ہے کہ وہ کرپشن مقدمات سات روز کے اندر کھول دے جبکہ قانون یہ کہتا ہے کہ نظرِثانی کی اپیل دائر ہو سکتی ہے، لیکن موجودہ قانون کے تحت وہی ججز یہ اپیل سنیں گے جنہوں نے فیصلہ سنایا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق ضروری نہیں کہ یہ پابندی پوری کی جائے کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان ریٹائر ہو چکے ہیں جب کہ ایک جج نے اختلافی نوٹ لکھا ہے۔ لہٰذا نئے چیف جسٹس ہی اس پر بینچ بنائیں گے۔
ملک میں آئین و قانون کا تماشا دیکھنے اور مخصوص مفادات کا لالچ رکھنے والے بعض ماہرین قانون کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ حتمی ہے لیکن قانون کے آرٹیکل 188کی موجودگی میں چونکہ وہ یہ حتمی رائے بھی نہیں دے سکتے اس لئے مجبور ہو کر یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 188کے تحت اس پر نظرِ ثانی کی اپیل دائر کی جا سکتی ہے لیکن آگے پھر منافقت کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہے اور یہ بھونڈی دلیل بھی دے رہے ہیں کہ اس نظرثانی اپیل کا اسکوپ بہت محدود ہو گا۔ اُن کے بقول یہ ضروری نہیں ہے کہ نظرِ ثانی کی اپیل وہی ججز سنیں جو پہلے فیصلہ سنا چکے ہیں۔ یہ چیف جسٹس کی صوابدید ہے کہ وہ نظر ثانی کی اپیل میں کتنے رُکنی بینچ بناتے ہیں۔ اب نئے چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ وہ اس صورتِ حال میں کیا فیصلہ کرتے ہیں۔ بہرحال قوم کی نظریں 75سالوں کی طرح اب بھی سپریم کورٹ پر لگی ہیں۔
یہ بھی شنید ہے کہ نگران وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ بھی نیب ترامیم سے فائدہ اُٹھانے والوں میں شامل ہیں، ایسے میں جھوٹی تبدیلی کے جھوٹے دعویداروں کی جانب سے یہ سوال بھی اُٹھے گا کہ کیا اُنہیں نگران وزیرِ اعظم ہونا چاہیے؟
لیکن شاید یہ سوال کل تک ان کے دلوں میں ہی دم توڑ جائے۔ تاہم جمہوریت کے یکطرفہ دلدادہ ان کم عقل یوتھیوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو ترامیم الوداعی جمعہ لگا کر ختم کی گئی ہیں ان ترامیم کے تحت حراست میں لئے گئے کسی بھی شخص کو نیب 24گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کرنے کا پابند تھا۔ واضح رہے کہ مذکورہ نیب ترامیم کے تحت کئی کیس دیگر عدالتوں کو منتقل بھی کر دیئے گئے تھے لیکن سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر غیر ممکنہ عملدرآمد کے بعد یہ سارا عمل رک جائے گا۔ نیز نیب ترامیم میں کسی بھی ملزم کے خلاف ریفرنس یا کیس دائر ہونے کے ساتھ ہی اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا تھا۔ نیب کو گرفتاری سے قبل ثبوت کی دستیابی یقینی بنانا ہوتی تھی لیکن اس فیصلے کے مطابق اب پھر بارثبوت ملزم کی جانب سے پیش کئے جانے کی بھونڈی شرط زندہ ہو گئی ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ ترمیمی بل میں ملزم کے اپیل کے حق کے لئے مدت میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ پہلے ملزم کسی بھی کیس میں 10دن میں اپیل دائر کر سکتا تھا لیکن اس فیصلے کے بعد اب کوئی بھی ملزم اپنے خلاف دائر کیس پر ایک ماہ میں اپیل دائر کر سکے گا۔
القصہ جس طرح یاجوج ماجوج کے قصے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ انسانوں پر حملہ آور ہونے کے لئے اپنے رستے میں حائل ایک سیسہ پلائی دیوار کو روز اس قدر چاٹ لیتے ہیں کہ اگر سورج غروب نہ ہو تو وہ رات کو انسانوں پر حملہ آور ہو جائیں بالکل اسی طرح پاکستان پر بھی ہر دور میں تقریباً ہر تعیناتی پر ایک ایسا قوی ہیکل اور جسیم دیمک کی نوعیت کا طاقتور کیڑا مسلط ہو جاتا ہے جو اپنے اختیار کے سارے عرصہ تک ملک کے رگ و ریشہ کو بری طرح سے چاٹتا رہتا ہے لیکن پاکستان کی محافظ کوئی غیر مرئی طاقت اسے عین اس وقت دور کر دیتی ہے جب وہ نظام کو ہڑپ کر جانے کے قریب ہوجاتا ہے۔ یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ قوم کے کسی حقیقی محافظ کو دوبارہ سے آ کر تعمیر و مرمت کا کام اسی نقطے سے شروع کرنا پڑتا جس نقطے پر ہم نے آزادی حاصل کی تھی یا جس نقطے تک مذکورہ دیمک ٹائپ عناصر ملک کو پہنچا کر اپنے انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے حوالے سے بھی اللّٰہ تعالیٰ نے اسی نوعیت کا کرم کیا ہے کہ پچھلی کئی دہائیوں سے فیصلوں کی صورت میں تخریب اور نا انصافیوں کا جو عمل جاری تھا وہ اب روک دیا گیا ہے اور بفضل تعالیٰ قانون کے ایک ایسے حقیقی محافظ کے ہاتھ میں قلمدان آیا ہے جو کم از کم قانون کی بالادستی کے لئے کام کرے گا۔ قانون کے اس محافظ کی موجودگی میں اور ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے دیانتدار محافظ کی موجودگی میں اگر اللّٰہ تعالیٰ جمہوریت اور انسانی حقوق کا بھی کوئی ایسا ہی محافظ عطاء کر دے تو یہ اللّٰہ خالق کائنات کا پاکستان اور اس کے عوام پر خاص کرم اور فضل ہو گا اور ملک ترقی کی شاہراہِ پر گامزن ہو جائے گا۔ وگرنہ عدلیہ اور فوج کے علاوہ ملک کے دیگر شعبوں میں تباہی کی حامل دلچسپیاں تو چل ہی رہی ہیں۔





