جی سی یونیورسٹی میں روڈ سیفٹی سیمینار

فیاض ملک
گزشتہ دنوں لاہور شہر تاریخی درس گاہ جی سی یونیورسٹی میں موٹر وے پولیس کے زیر اہتمام ہونیوالے روڈ سیفٹی سیمینار میں شرکت کیلئے انسان دوست پولیس آفیسر شہباز عالم کی جانب سے دعوت نامہ موصول ہوا اور اس کے ساتھ محبت سے لبریز فون کال بھی، کہ بھائی ہر صورت اس میں شرکت کرنی ہے غیر حاضری کی کوئی گنجائش نہیں ہے، شہباز عالم کی محبت اور پاکستان کی قدیم جامعات میں شامل جی سی یونیورسٹی کی تاریخی حیثیت کا سحر مجھے کھینچ کر اس بخاری آڈٹیوریم میں منعقد اس تقریب میں لی گیا جہاں پر وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر اصغر زیدی کے ساتھ ڈی آئی جی ویجیلنس اینڈ آئی ٹی سلیمان سلطان رانا کو دیکھ خوشگوار احساس ہوا، ہنس مکھ شخصیت کے حامل سلیمان سلطان رانا پولیس آفیسر ہونے کیساتھ ساتھ ڈاکٹر بھی ہے، ان کے ساتھ دوستی کے تقریبا 18سال میں میری شرارتوں اور انکی ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ انتہائی زور و شور سے جاری و ساری ہیں، روڈ سیفٹی سیمینار کا آغاز ہوا تو اس میں شریک جی سی یونیورسٹی کی انتظامیہ ، اساتذہ، طلبائا ور طالبات کو غفلت و لاپروائی کی وجہ سے ہونیوالے ٹریفک حادثات کی ویڈیوز دکھائی گئیں، اس موقع پر ڈی آئی جی سلیمان سلطان نے تقریب کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے گاڑی اور موٹر سائیکل کی ڈرائیونگ کے دوران سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ کے استعمال پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی ہے جس کی وجہ سے حادثات میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ نوجوان نسل موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ اور گاڑی کی ڈرائیونگ کے دوران بیلٹ کے استعمال کو یقینی بنائے، کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ سیٹ بیلٹ اور ہیلمٹ، حادثے کی صورت میں انسانی کی زندگی بچانے میں اہم معاون ثابت ہوتے ہیں، گاڑی چلاتے وقت موبائل کا استعمال نہ کریں کیونکہ اب تک کی تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ موبائل کا استعمال بھی روڈ حادثات میں اہم ترین وجہ بن کر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے ایکسیڈنٹ کی شرح میں کمی لانے کیلئے ٹریفک قوانین کی پابندی کو لازمی قرار دیا، اس موقع پر سیکٹر کمانڈر شہباز عالم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہر سال پوری دنیا میں 14لاکھ کے قریب لوگ روڈ ایکسیڈنٹ میں اپنی جان گنوا بیٹھتے ہیں اور اس میں زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہوتی ہے، ان ایکسیڈنٹس کی سب سے بڑی وجہ آگاہی کا نہ ہونا اور غفلت اور لاپرواہی سے گاڑی چلانا ہے۔ بعد ازاں تقریب کے شرکا میں ٹریفک قوانین کے حوالے سے سوال و جواب کا مقابلہ بھی منعقد کیا گیا اور درست جواب دینے والے طلبا میں انعامات بھی تقسیم کئے گئے۔ طلباء و طالبات نے موٹر وے پولیس کی اس کاوش کو بہت سراہا اور ا س طرح کی مزید کاوشوں کے انعقاد کے عزم کا اظہار کیا۔ اس تقریب کے اختتام کے بعد میں ٹریفک حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح پر تحقیق کی تو انکشاف ہوا کہ ہمارے ملک کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ ٹریفک حادثات ہوتے ہیں، یہاں پر ہر پانچ منٹ کے بعد ٹریفک حادثہ پیش آتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی شخص زخمی یا جاں بحق ہوجاتا ہے۔ ٹریفک حادثات کی شرح میں اضافے کا ایک اہم سبب موثر انفرا سٹرکچر کا بھی نہ ہونا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ٹریفک اور ٹریفک حادثات کی شرح میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے، زیادہ تر حادثات کا جائزہ لیا جائے تو ڈرائیونگ مہارت کے فقدان، کم عمری کی ڈرائیونگ، دوران ڈرائیونگ موبائل فون اور نشہ آور اشیا کا استعمال، اوور لوڈنگ کے ساتھ ساتھ حادثات کی سب سے اہم وجہ ہمارے نفسیاتی رویے بھی ہیں، بیشتر ٹریفک حادثات کے پیچھے عموماً انسانی غلطی کارفرما ہوتی ہے جس پر تھوڑی سی احتیاط سے قابو پایا جا سکتا ہے، ان میں سب سے اہم وجہ سڑک استعمال کرنے والوں کا جلد باز روّیہ ہے، میں روزانہ سڑک پر تعلیم یافتہ افراد کو غلط سائیڈ سے سڑک پار کرتے دیکھتا ہوں تو دل کڑھتا ہے کہ ہم کیسی قوم ہیں؟ ہمیں آج تک تک کسی نے یہ نہیں سکھایا کہ سڑک کہاں سے اور کیسے پار کرنی ہے؟ ٹریفک حادثات اور مسائل کا جائزہ لیتے ہوئے یہ دلچسپ پہلو بھی سامنے آیا کہ گاڑیوں کے لیے تو موٹر وہیکلز کے قوانین موجود ہیں مگر آہستہ چلنے والی گاڑیاں مثلاً گدھا و بیل گاڑی کیلئے کوئی قانون نہیں ہے، اس وجہ سے روڈ استعمال کرنیوالے یہ لوگ قانون سے نہ صرف بالا تر ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر ہونیوالے ٹریفک حادثات کی بڑی وجہ بھی ہیں، ان افراد کو تربیت دینے کی اشد ضرورت ہے ، تاکہ ان کو سڑک استعمال کرنے سے متعلق مکمل آگاہی حاصل ہو سکے۔ اب تو نو عمر لڑکے حتی کہ بچے بھی اپنے موٹر سائیکلیں اور گاڑیاں دوڑاتے نظر آتے ہیں، وہ پرجوش روئیے کی وجہ سے ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرتے اور ٹریفک علامات اور اصولوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں، یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ قانونی عمر کو پہنچنے کے باوجود اکثر نوجوان تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے اور ان میں موجود تیز رفتاری سے گاڑی چلانے کا جنون بے شمار حادثات کا باعث بنتا ہے، اسکے علاوہ موٹر سائیکل رکشہ کے اکثر ڈرائیور نابالغ اور نوآموز ہوتے ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ ٹریفک قوانین سے عمل درآمد کرتا ہیں۔ دنیا کے اکثر ممالک میں کسی بھی گاڑی کو’’ فٹنس ٹیسٹ سرٹیفکیٹ‘‘ کے بغیر ٹرمینل سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، لیکن ہمارے ملک میں یہ نظام صرف برائے نام ہے۔ ملک بھر میں دھواں چھوڑتی اور شور مچاتی ہزاروں گاڑیاں سڑکوں اور قومی شاہراہوں پر دوڑتی نظر آتی ہیں۔ کمرشل گاڑیوں کے ڈرائیور حضرات تو جیسے رن وے پر طیارے دوڑاتے ہیں اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ سڑکوں پر چھوٹی سواریوں کا بالکل خیال نہیں کرتے یہی ریس اور تیز رفتاری کا جنون بڑے حادثات کا سبب بنتا ہے۔ بیشتر ڈرائیورز تو ملکی شاہراہوں پر لگے سائن بورڈ کی علامتوں اور اشاروں پر عمل کرنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں، کیونکہ انہیں کسی قسم کے جرمانے کا خوف ہی نہیں ہوتا ہے، معاشرے میں سگنل توڑنا جرم نہیں سمجھا جاتا ہے، گاڑی چلاتے وقت موبائل کا استعمال ٹریفک قوانین میں ممنوع قرار دیا جا چکا ہے، اس کے باوجود اکثر اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ گاڑی چلانے والا بغیر کسی خوف کے موبائل استعمال کرتا ہے اور کوئی روکنے والا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے حادثے کا خطرہ کئی گنا بڑھ جاتاہے کیونکہ ڈرائیور کی توجہ بٹ جاتی ہے، بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور اکثر و بیشتر مسلسل سولہ، سولہ گھنٹوں سے زائد ڈرائیونگ کرتے ہیں، جو کہ تھکن اور نیند کی وجہ سے خوفناک حادثے کا شکار ہوتے ہیں۔
اور تو اور ہمارے ہاں مسافر بسوں میں آگ بجھانے والے آلات اور فرسٹ ایڈ باکس نہ ہونے کے برابر ہیں جس کی وجہ سے کسی بھی حادثے کی صورت میں متعدد معصوم مسافر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اسی طرح دنیا بھر میں سرکاری سطح پر ڈرائیونگ اسکول بنے ہوئے ہیں اور گاڑی چلانے کا خواہشمند ہر شخص کئی دنوں تک اسکول جاتا ہے اور انہیں باقاعدہ طور پر ٹریفک قوانین کے ساتھ ساتھ گاڑی چلانے کی مہارت بھی سکھائی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں ڈرائیونگ لائسنس ’’ گاڑی چلانے کا اجازت نامہ‘‘ وصول کرنا سخت ترین مرحلہ ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں اسکی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں اس قسم کا نظام ہونے کے برابر ہے، اکثر لوگ اپنے رشتہ داروں یا دوستوں سے گاڑی چلانا سیکھ لیتے ہیں اور ملکی شاہرائوں پر 100کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی دوڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ایسا کرنا جرم بھی نہیں سمجھتے، بس کبھی کبھار کہیں کوئی چیکنگ ہوجائے تو رشوت یا سفارش کے ذریعے جان چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے، قانون نافذ کرنے والے ا داروں کو چاہئے کہ ملک بھر میں جعلی لائسنس کی روک تھام کے لیے کیو آر کوڈ لائسنس متعارف کرائیں تاکہ جعلی لائسنس جاری کرنیوالے افراد کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈرائیونگ لائسنس کے اجراء کیلئے قوانین پر سخت عمل درآمد کرایا جائے۔ پاکستان کے ہر صوبے میں الگ الگ قسم کے لائسنس کارڈ جاری کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مشکلات کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ جعلی کارڈ کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ لائسنس کارڈ قومی شناختی کارڈ کی طرح مرکز’’ اسلام آباد‘‘ سے ہی جاری کیا جائے تاکہ جعلی کارڈ کی روک تھام میں بھی مدد مل سکے۔





