Column

جس کا درد، اسی کا درد

رفیع صحرائی
سچ ہی کہا گیا ہی کہ
جس تن لاگے سو تن جانے اور نہ جانے کو
ہماری گزشتہ دو حکومتوں اور موجودہ نگران حکومت کو شاید کسی اہل وزیر کی خدمات حاصل نہیں ہو سکیں یا پھر یہ سب بے حِسوں کے ٹولے کے ڈھیر اکٹھے کر کے ایک گٹھڑی میں باندھ دئیے گئے۔ عمران خان، شہباز شریف اور کاکڑ صاحب عوام کے حق میں ایک جیسے بے حس ثابت ہوئے ہیں۔ فلاحی حکومت عوام کی بھلائی سوچتی ہے لیکن ان مذکورہ بالا وزرائے اعظم نے عوام کو مہنگائی کے ایسے شدید عذاب میں مبتلا کیا ہے کہ ان کی قوتِ خرید نے جواب دے دیا۔ آئے روز کی خودکشیاں بھی ان کی بے حسی میں سوراخ نہیں کر سکیں۔ اگر عمران خان نے مہنگائی زیادہ ہونے کے سوال کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ ’’ میں ٹماٹر پیاز کی قیمتیں کم کرنے کے لیے وزیرِ اعظم نہیں بنا‘‘ تو ان کے ایک وزیر موصوف نے عوام کو دو کی بجائے ایک روٹی کھانے کا مشورہ دے ڈالا تھا۔ ان کے بعد شہباز شریف تشریف لائے جو گزشتہ دور میں دو روپے لیٹر پٹرول مہنگا ہونے پر رولا ڈالا کرتے تھے جبکہ ن لیگ کی چیف آرگنائزر محترمہ مریم نواز جلسوں میں بل لہرا کر عوام کو مشورہ دیا کرتی تھیں کہ جب یہ آپ سے ووٹ مانگنے آئیں تو انہیں بجلی اور گیس کے بل دکھا دینا۔ بھٹو ثانی ہونے کے دعوے دار بلاول زرداری نے تو کراچی تا اسلام آباد مہنگائی مارچ کر کے عوام کا شعور بیدار کرنے کی عملی کوشش کی تھی۔ شہباز شریف کو حکومت ملی تو انہوں نے یکبارگی تیس چالیس روپے لٹر تیل بڑھانا شروع کر دیا۔ تب انہیں یہ بھی یاد نہ رہا کہ عوام کی قوتِ خرید بڑھانے کے لیے انہوں نے دھیلے کا کام نہیں کیا۔ مریم نواز صاحبہ کی زبان کو تالے لگ گئے اور بلاول زرداری اپنے منہ میں وزارتِ خارجہ کی چوسنی لے کر گہری نیند سویا رہا۔ نگران وزیرِ اعظم کاکڑ صاحب کو بتایا گیا کہ آپ نے مہنگائی میں اضافہ کر کے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے تو انہوں نے شاہی فرمان جاری کر دیا کہ مہنگائی اتنی بھی نہیں بڑھی کہ لوگ سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلیں۔
’’ ایک بیٹے نے باپ سے اونٹ خریدنے کی فرمائش کی۔ اونٹ کی قیمت معلوم کی گئی تو دو ہزار روپی بتائی گئی۔ باپ نے کہا مہنگا ہے، رہنے دو۔ چند سال بعد پھر بیٹے نے اونٹ خریدنے کی فرمائش کی۔ قیمت معلوم کی تو بیچنے والے نے پانچ ہزار بتائی۔ باپ نے کہا، اسے خرید لو۔ بیٹے نے سوال کیا، پہلے تو دو ہزار میں بھی مہنگا لگ رہا تھا، اب آپ نے پانچ ہزار میں اونٹ لے دیا ہے۔ باپ نے جواب دیا کہ تب میرے حالات ایسے تھے کہ دو ہزار بھی میرے لیے بڑی رقم تھی۔ اب خوش حالی آ گئی ہے۔ پانچ ہزار بھی معمولی رقم لگ رہی ہے‘‘۔
جناب وزیرِ اعظم! آپ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ آپ کو کیا معلوم بیمار ہونے کے بعد اب لوگ جلد مرنے کی دعائیں مانگتے ہیں کہ دوائی کا خرچہ بچ جائے تاکہ کفن دفن کا بندوبست ہو سکے۔ آپ کے دور میں عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے۔ عوام سے قوتِ خرید چِھن چکی ہے۔ آپ آئی ایم ایف کی شرائط ضرور مانیں لیکن اس کے لیے عوام کی گردن پر چھری چلانے کی بجائے اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے سے قربانی مانگیں۔ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھنے سے عام آدمی متاثر ہوتا ہے۔ اسے مہنگائی کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی پوری کرنا بھی نصف آبادی کے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ بجلی، تیل اور گیس کی قیمتیں بڑھانا تو سب سے آسان حل ہے۔ یہ کام ایک ان پڑھ شخص بھی کر سکتا ہے۔ آپ کی اقتصادی ٹیم کی کارکردگی کیا ہے؟ عمران خان، شہباز شریف ہو یا موجودہ نگران حکومت، سب نے نالائق وزرا ء کی ٹیم کا انتخاب کر کے معیشت کا بیڑا غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب بجلی چور، چینی چور، ڈالر مافیا دھڑا دھڑ پکڑے جا رہے ہیں لیکن عوام کو اس سے کیا؟ جب عوام کو ریلیف ہی نہیں ملنا۔
ایک رات بادشاہ جلال الدین اکبر اور بیربل بھیس بدل کر شہر کا گشت کر رہے تھے۔ دونوں کا گزر ایک حجام کی جھونپڑی کے پاس سے ہوا۔ حجام جھونپڑی کے باہر چارپائی پر بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ اکبر نے اس سے پوچھا: بھائی یہ بتائو کہ آج کل اکبر بادشاہ کے راج میں لوگوں کا کیا حال ہے۔
حجام نے فوراً جواب دیا: ہمارے اکبر بادشاہ کے راج میں ہر طرف امن، چین اور خوش حالی ہے، لوگ عیش سے زندگی گزار رہے ہیں، ہر دن عید ہے، ہر رات دیوالی۔
اکبر اور بیربل حجام کی باتیں سن کر آگے بڑھ گئے۔ تھوڑا آگے جاکر اکبر نے بیربل سے فخریہ لہجے میں کہا: دیکھا تم نے، ہماری سلطنت میں رعایا کتنی خوش ہے؟ بیربل نے عرض کیا بے شک جہاں پناہ، آپ کا اقبال بلند ہے۔ چند روز بعد پھر ایک رات دونوں کا گزر اسی مقام سے ہوا۔ اکبر نے حجام سے پوچھ لیا۔ کیسے ہو بھائی؟ حجام نے چھوٹتے ہی کہا:
حال کیا پوچھتے ہو بھائی، ہر طرف تباہی بربادی ہے، اکبر کی حکومت میں ہر آدمی دکھی ہے، ستیاناس ہو، اس منحوس بادشاہ کا۔ یہ سن کر اکبر حیران رہ گیا۔ یہی آدمی کچھ دن پہلے بادشاہ کی اتنی تعریف کر رہا تھا اور اب ایسا کیا ہو گیا؟
اکبر نے حجام سے پوچھنا چاہا کہ لوگوں کی تباہی اور بربادی کی وجہ کیا ہے، لیکن وہ بادشاہ اور اس کے وزرا کو برا بھلا کہتا رہا اور اکبر کا سوال سنتا ہی نہ تھا۔
اب بادشاہ نے پریشانی کے عالم میں بیربل سے پوچھا: آخر ایسا کیا ہوا کہ یہ شخص چند ہی روز میں ہمارے خلاف ہوگیا؟
بیربل نے جیب سے ایک تھیلی نکالی اور بادشاہ سے کہا۔ اس میں 10اشرفیاں ہیں، میں نے دو روز پہلے اس کی جھونپڑی سے اسے چوری کروا لیا تھا۔ جب تک اس کی جھونپڑی میں مال تھا، اسے بادشاہ اور حکومت سب اچھا لگتا تھا اور اپنی طرح وہ سب کو خوش اور سکھی سمجھ رہا تھا۔ جب اس کی دولت لٹ گئی تو اسے شدید رنج ہوا اور اس غم میں اسے سارے لوگ تباہ حال اور برباد نظر آتے ہیں۔
اکبر اس کی بات سن کر چونکا۔ بیربل نے مزید کہا: جہاں پناہ، اس سے آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ ایک فرد اپنی خوش حالی کو دوسروں کی خوش حالی سمجھ لیتا ہے، جب کہ ایسا ہوتا نہیں ہے۔ سب کے اپنے مسائل اور دکھ سکھ ہیں جنہیں وہی بہتر سمجھتے ہیں۔ درد جسے ہوتا ہے، وہی اس کی شدت کا حقیقی احساس کر سکتا ہے۔ بادشاہوں اور حکمرانوں کو رعایا کا دکھ درد سمجھنا ہو تو اپنی ذات سے باہر نکلنا اور دور تک دیکھنا چاہیے ناکہ صرف ایک فرد کو دیکھ کر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہیے۔

جواب دیں

Back to top button