انتخابات نہیں، کڑا احتساب ضروری ہے

رفیع صحرائی
پتا چلا ہے کہ پاکستان میں ایرانی تیل سمگلنگ میں 90سرکاری افسران اور 29سیاستدان ملوث ہیں۔ جن کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ نگران حکومت نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ اس معاملے میں ملوث چاہے جتنی بڑی مچھلی ہو گی سب کو احتساب کے مضبوط جال میں جکڑا جائے گا۔ کسی بھی قومی مجرم کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ حکومت نے بارہ ہزار سے زائد بڑے ٹیکس نادہندگان کی فہرست بھی تیار کر لی ہے۔ جبکہ ایک انٹیلی جنس رپورٹ میں 722ایسے بڑے کرنسی ڈیلرز کے بارے میں انکشاف کیا گیا ہے جو غیرقانونی طور پر اس دھندے میں ملوث ہیں۔ اور قومی خزانے کو سالانہ 60ارب روپے کا نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اب تک ایف آئی اے نے مختلف چھاپوں کے دوران چار سو کے قریب افراد کو حراست میں لے کر ان سے لاکھوں ڈالر اور دوسری غیر ملکی کرنسی برآمد کر لی ہے۔ جبکہ اب تک سمگل شدہ چینی، کھاد اور گندم کی ہزاروں بوریاں پکڑی جا چکی ہیں۔ سیکڑوں بجلی چوروں کے خلاف مقدمات درج ہو چکے ہیں، متعدد کو حراست میں لے کر جرمانہ وصول کیا گیا ہے۔ حکومت سندھ نے بھی ایکشن پلان بنا لیا ہے۔ خفیہ اداروں کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران سے حوالہ ہُنڈی کے ذریعے سالانہ دو ارب اکیاسی کروڑ لٹر سے زیادہ تیل سمگل ہوتا ہے۔ اس سمگلنگ سے حاصل ہونے والی آمدنی کو دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
معزز قارئین! دو تین ہفتے پہلے تک مہنگی بجلی کے خلاف عوام میں شدید ناراضگی اور غم و غصہ پایا جا رہا تھا۔ شہر شہر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے۔ مہنگی بجلی کو لے کر ایسی سیاسی پارٹیاں بھی احتجاج کر رہی تھیں جو براہِ راست پاکستان میں مہنگائی اور مہنگی بجلی کی ذمہ دار ہیں۔ حیرت انگیز طور پر پچھلے ایک ہفتے سے یہ احتجاج اچانک تھم گیا ہے حالانکہ اس احتجاج کو روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے معمولی دبائو بھی نہیں ڈالا گیا۔ حکومت نے بجلی کی مد میں عوام کو ریلیف دینے کی بجائے دو روز قبل بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ایک روپیہ چھیاسی پیسے اضافہ کر دیا ہے مگر عوام نے اس اضافے کو بھی بظاہر خاموشی سے قبول کر لیا ہے۔
عوام کی طرف سے اس خاموشی کی وجہ کیا ہے؟ غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ عوام کو اصل غصہ غیر منصفانہ فیصلوں پر تھا۔ عوام ہمارے ملک میں رائج سسٹم سے نالاں تھی جہاں اشرافیہ کے لیے رعایت اور مفت بری کی مکمل سہولت کاری میسر ہے جبکہ عوام کی رگوں سے خون نچوڑا جا رہا تھا۔ نگران حکومت کی جانب سے کرپٹ مافیاز کے خلاف اچانک آپریشن سے عوام کو سکون محسوس ہوا ہے۔ عوام کو امید ہو چلی ہے کہ اب اشرافیہ کی مراعات واپس ہوں گی اور ملکی معیشت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والے کرپٹ عناصر احتساب کے کٹہرے میں ہوں گے۔ عوام کو یہ اعتماد پاکستانی افواج کے سپہ سالار نے دیا ہے جنہوں نے بڑی دانشمندی، حوصلے اور تدبر کے ساتھ پاک فوج کے خلاف ہونے والی سازشوں کو ناکام بنانے کے بعد ملکی معیشت کی بحالی کا بیڑا اٹھایا ہے۔ انہوں نے پورے دردِ دل اور خلوص کے ساتھ پاک وطن کو درست ٹریک پر لانے کے کام کا آغاز کیا ہے اور ان کے اقدامات کے مثبت نتائج چند روز میں ہی آنا شروع ہو گئے ہیں۔ ڈالر کو ریورس گیئر لگ گیا ہے۔ سونے کی قیمت میں اضافہ معکوس سمت میں گامزن ہے۔ گوداموں میں چھپی ہوئی چینی باہر آنے لگی ہے جبکہ دو سو روپے فی کلو کا ہندسہ عبور کرنے والی چینی کی مل مالکان کی جانب سے 140روپے کلو فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔ ڈالر دھڑا دھڑ خرید کر ذخیرہ کرنے والے اب ڈالر فروخت کر رہے ہیں۔ تین سو تیس روپے سے زائد میں فروخت ہونے والے ڈالر کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ چند ہفتوں تک دو سو پچاس روپے تک آ جائے گا۔ یہ بھی شنید ہے کہ حکومت نے لوگوں کی طرف سے بینک لاکرز میں بڑی مقدار میں محفوظ کیے ہوئے ڈالرز کی برآمدگی کا بھی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصی سکینرز کی مدد سے لاکرز میں پڑے ہوئے ڈالرز کی نشاندہی کی جائے گی۔
دیکھا جائے تو سیاسی حکومتوں کی اندھی نوازشوں اور سیاست دانوں کی لوٹ مار نے ملکی معیشت کو برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ عوام کو سبز باغ دکھا کر اور خوش نما سلوگن دے کر آنے والی تمام سیاسی حکومتوں نے اشرافیہ کو نوازا اور عوام کو تباہ و برباد کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ پر محیط حکومت نے تو عوام دشمنی اور اشرافیہ نوازی کی حد ہی کر دی۔ اس حکومت نے منتوں ترلوں کے بعد عوام کو گروی رکھ کر آئی ایم ایف سے حاصل کئے گئے قرضے کو اندھے کی ریوڑیوں کی طرح اپنے ممبران اسمبلی میں فی کس ایک ارب روپے دے کر عوام کی گردن پر کُند چھری چلا دی۔ اس سے پہلی حکومت نے پورے ملک اور خصوصاً پنجاب کو چند کرپٹ عناصر کے حوالے کر کے نہ صرف کھربوں روپے کی کرپشن کی بلکہ پوری قوم کو تقسیم کر کے رکھ دیا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومتیں کرپٹ عناصر اور مافیاز کے خلاف کارروائی کرنے میں بری طرح ناکام رہیں البتہ سیاسی انتقام میں دونوں حکومتیں ہی اندھی ہو کر اپنے مخالفین کے لیے عذاب بنی رہیں۔
بلاشبہ عوام کے ووٹوں سے منتخب حکومت مجبور بھی ہوتی ہے اور مافیاز سے پارٹی کے لیے بھاری فنڈنگ لے کر ان کے ہاتھوں بلیک میل بھی ہوتی ہے۔ وہ دلیرانہ فیصلے نہیں کر سکتی۔ موجودہ نگران حکومت کو ایسی کوئی مجبوری نہیں۔ ملکِ عزیز کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دینے کا یہ بہترین موقع ہے۔ تمام کرپٹ عناصر کے حلق میں ہاتھ ڈال کر لوٹی ہوئی رقم باہر نکالی جائے۔ مناسب تو یہ ہے کہ 5000روپے کے نوٹوں کو بند کر کے انہیں ایک یا دو ماہ میں تبدیل کروانے کا آپشن دیا جائے۔ لوٹ مار کر کے چھپائے گئے کھربوں روپے منظرِ عام پر آ جائیں گے۔ کڑے احتساب کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے۔ عام انتخابات سیاست دانوں کا مسئلہ ہے جنہوں نے لوٹ مار کرنا ہوتی ہے۔ عوام کو صرف ریلیف سے غرض ہے جو منتخب حکومتیں نہیں دے سکیں۔ فی الحال نگران حکومتوں کی مدت بڑھا کر دو سال کر دی جائے اور یہ سارا عرصہ لوٹی گئی دولت کو برآمد کرنے، ملکی خزانہ بھرنے، عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے، آئی ایم ایف سے جان چھڑانے اور کرپٹ عناصر کو جیلوں میں ڈال کر لمبی سزائیں دلانے میں صرف کیا جائے۔ اس وقت انتخابات سے زیادہ احتساب ضروری ہے۔ ایسا احتساب جو بلا امتیاز ہو۔ اگر انتخابات ہوئے تو احتساب کا عمل رک جائے گا۔





