قائد اعظمؒ کی برسی اور انتخابات کا خوف

یاور عباس
قائد اعظمؒ کی 75ویں برسی کے موقع پر سوشل میڈیا پر بہت ساری پوسٹیں نظر سے گزریں، ہر ایک نے اپنے اپنے انداز میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو خراج تحسین پیش کیا۔ قائد اعظمؒ کے اقوال سارا دن فیس بک، واٹس ایپ اور ٹویٹر کی زینت بنے رہے، بانی پاکستان سے والہانہ محبت کا انداز شاید قیام پاکستان کے بعد کسی بھی لیڈر کو نصیب ہو۔ یہ اعزاز قائد اعظمؒ کو ہی حاصل ہے کہ جن لوگوںنے تحریک پاکستان کے موقع پر قیام پاکستان کی مخالفت کی آج وہ بھی قائد اعظمؒ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہوتے ہیں اور قائد اعظمؒ زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں، اگرچہ یہ صرف اقتدار کے حصول کی خاطر ہی کرتے ہیں مگر میرا مشورہ ہے کہ انہیں یہ نعرے دل سے لگانے چاہئیں ورنہ اگر دل میں آج بھی نفرت ہے اور زبان پر زندہ باد کے نعرے ہیں تو یہ منافقت ہوگی اور اسلام میں منافق کے بارے کھلی تشریح موجود ہے، اس لیے کم از کم بانی پاکستان سے محبت سچی ہونی چاہیے، دکھاوے کی نہیں۔ 11ستمبر کو دنیا میں اگرچہ بہت سارے واقعات رونما ہوچکے ہیں، امریکہ میں دہشت گردی کا واقعہ بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے، مگر ہر سال11ستمبر کو پاکستانی قوم بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو خراج تحسین پیش کرتی ہے ۔ میں نے قائد اعظمؒ کی روح کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی کر کے ان کو خراج تحسین پیش کیا، شکستہ اور بوجھل دل سے قائد اعظمؒ کے ساتھ بہت ساری باتیں بھی کر ڈالیں اور ان کے جانے کا دکھ اتنا محسوس نہ ہوا، جتنا دکھ ان کے جلدی رخصت ہوجانے اور ان کے ارمانوں پر پانی پھیرنے والے 75سالہ تاریخ میں حکمرانوں پر ہوا۔ قائد اعظمؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا آج اس پاکستان کی تصویر دھندلی ہوچکی ہے، قائد اس خطے میں مذہبی، سیاسی آزادی، امن ، خوشحالی، اخوت ، مساوات، بھائی چارہ، انصاف چاہتے تھے مگر کوئی یہ بتا سکتا ہے کہ پاکستان کا کون سا کونہ ایسا ہے جہاں یہ سب کچھ عملی طور پر نظر آتا ہو۔ چند ماہ قبل جب ہم آنے والے حالات سے حکومت ، عوام اور ریاستی اداروں کو آگاہ کرنے کی کوشش کرتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ مایوسی مت پھیلائیں ، حقائق چھپانے سے اگر حالات بہتر ہوسکتے ہوں تو پھر اخبار، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ سب کچھ ہی بند کر دینا چاہیے مگر جن قوموں نے بھی ترقی کی ہے، انہوںنے اپنی خامیوں کی نشاندہی کرنے والوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ نہیں توڑے بلکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کی ہے تب جاکر قوموں نے خوشحالی کا منہ دیکھا ہے۔
پاکستان میں 75سال میں چند لمحات ایسے آئے ہیں جب قوم نے خوشی منائی ہو ان میں سے ایک بڑا لمحہ ایٹمی دھماکے کرنا تھا۔ دوسرا لمحہ ورلڈ کپ جیتنا تھا اور اسی طرح کے چند واقعات گنے جاسکتے ہیں مگر آزادی کے 75سال میں عوام ابھی تک قائد اعظمؒ کے نظریہ پاکستان کو شرمندہ تعبیر ہوتے نہیں دیکھ سکے۔ عوام کے لیے غربت، مہنگائی، بے روزگاری میں اضافہ ہر دور میں دیکھنے کو ملا جبکہ اشرافیہ نے ہر دور میں عوامی خزانے پر خوب ہاتھ صاف کئے، راتوں رات کروڑ پتی نہیں بلکہ ارب پتی بن گئے، حکمران خاندانوں، بیورو کریٹس، ججوں اور جرنیلوں کے بیرون ملک اثاثے منظر عام پر آسکیں تو عوام دنگ رہ جائے گی، ملک پر جتنا قرض کا بوجھ بڑھا ہے اس سے کئی گنا زیادہ سرمایہ اشرافیہ یہاں سے نچوڑ کر بیرون ملک لے کر جاچکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج غریب سے غریب ترین فرد بھی ہر چیز پر ٹیکس دیتا ہے مگر پھر بھی ملک مقروض ہے۔ ہر چند برس نئے خواب دکھائے جاتے ہیں مگر عوام کو لوٹنے کے ڈھنگ وہی پرانے ہی ہیں۔ پی ڈی ایم کے وہ تجربہ کار آج کہاں گئے جو کہتے تھے کہ ملک میں مہنگائی بڑھ گئی ہے، ہمیں موقع ملا تو چھ ماہ میں ملک کی تقدیر بدل دیں گے، چیزیں سستی کریںگے، قرض سے جان چھڑا لیں گے۔ وہ ڈیڑھ سال اقتدار میں رہنے کے بعد ملک کو کہاں سے کہاں تک پہنچا گئے، مہنگائی کو طوفان نہیں بلکہ سونامی عوام میں چھوڑ کر چلے گئے، پی ٹی آئی کے خلاف صرف حصول اقتدار کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے کیسز کے خاتمہ اور رہی سہی کسر پوری کرنے کے لیے اقتدار میں آکر عوام کو وہ بھرکس نکالا کہ آئین قانون کی دھجیاں بکھیر دی گئیں، جمہوریت اور جمہوری اصولوں کا جنازہ نکال دیا گیا۔ چالیس سال تک حکومتیں کرنے والی پارٹیوں نے اپنے حریف عمران خاں کو رُلانے کے چکر میں عوام کو ایسا رُلایا کہ لوگ اب بجلی کے بلوں سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ مہنگائی کے باعث یہاں کے نوجوان ملک کر چھوڑ کر کشتیوں میں جانیں قربان کرنے پر مجبور ہیں۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی خاطر ایسے ایسے قوانین آنکھیں بند کر کے بنا لیے جو جمہوریت کے لیے خود کش حملے سے کسی صورت کم نہیں ہیں ۔ اب کچھ دن پہلے ہی جب پی ڈی ایم دھڑلے سے قوانین بنا رہی تھی تو مجھ سمیت بہت سارے لکھاری یہ کہہ رہے تھے کہ جب پی ڈی ایم کی جماعتیں اقتدار سے باہر نکلیں گے تو ان کو بھی لگ پتہ جائے گا کہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں اور جب وہ زیر عتاب آئیں گے تو انہیں احساس ہوگا کہ ہم نے جمہوریت کو کس انداز سے کچل کر رکھ دیا ہے ۔ گزشتہ روز پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے اتحادیوں پر برس رہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اتحادی الیکشن سے بھاگنا چاہتے ہیں، بلاول بھٹو زرداری نے انکشاف کیا کہ میں اتحادیوں کو کہتا تھا کہ ڈرو گے تو مرو گے لیکن افسوس کہ اتحادی الیکشن میں شکست کے خوف سے ڈر گئے۔ پیپلز پارٹی اب 90روز میں الیکشن چاہتی ہے مگر خود ہی پائوں پر کلہاڑی مارنے کے بعد یہ رونا کس کام آئے گا۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کو بااختیار بنا کر، حلقہ بندیوں کی نئی راہ دکھا کر پی ڈی ایم جماعتوں نے الیکشن کی راہ میں خود دیوار حائل کردی اب بلاول بھٹو روئیں یا پھر ان کے باری باری دیگر سیاسی جماعتیں روئیں جس طرح عوام رونا 75سال سے کوئی نہیں سن رہا اسی سیاسی جماعتوں کی جانب سے فوری انتخابات کا مطالبہ شاید بے سود ہوگا۔ اب جن جماعتوں کو اتحاد چاہیے ہونگے انہیں ایک نئے پی ڈی ایم بنانے کی ضرورت پیش آئے گی جس میں شاید پی ٹی آئی بھی شامل ہو۔





