سانحہ جڑانوالہ اور پولیس کا کردار

تحریر : فیاض ملک
قرآن پاک کی آیت مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کو بے علمی ( و نادانی) کی بنا پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کئے پر شرمندگی اٹھانا پڑے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے مذہب اسلام میں اقلیتوں اور غیر مسلموں کے کیا حقوق ہیں، اسلام میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو تباہ کرنے اور گرانے کی ممانعت ہے، کسی دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے خدا کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ بہت سے واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں جب پیارے نبی نے غیرمسلموں سے بے انتہا نرمی اور حسن سلوک کا مظاہرہ کیا، بہت سی احادیث مبارکہ موجود ہیں جن میں نبی نے اقلیتوں کے حقوق کا ذکر کیا ہے۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں فرمان نبویؐ ہے کہ جس کسی نے کسی معاہد ( اقلیتی فرد) کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا، قرآن پاک کی سورت مائدہ کی ایک آیت کا مفہوم ہے کہ کسی ایک انسان کا خون ناحق تمام انسانوں کو قتل کرنے کے برابر ہے بالکل اسی طرح کسی ایک جان بچانے کو تمام لوگوں کی جانیں بچانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ ہمارا آئین بھی اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے، انکی جان و مال اور عبادت گاہوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کے جھنڈے پر موجود سفید حصہ اقلیتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ملک اقلیتوں کا بھی ہے، کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اس ملک میں اقلیتوں کے ساتھ وہی سلوک کرنے کا سوچیں جو ہمارے آبائو اجداد کے ساتھ ہندوستان میں ہوتا رہا۔ قائداعظمؒ نے اقلیتی برادری کے حقوق اور عزت و احترام کا پیغام دینے کی خاطر ایک ہندو جوگندر ناتھ منڈل کو وزیر قانون مقرر کیا تھا، ایک مسیحی جج اے آر کارنیلئس پاکستان کے چیف جسٹس تھے، بعد میں جسٹس بھگوان داس بھی چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہوئے۔ پاکستان کی سینیٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کیلئے سیٹیں مخصوص ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ کہ پاکستان کے آئین و قانون میں اقلیتوں کے برابر کے حقوق ہیں۔ یہ ایسے پاکستانی شہری ہیں جو 14اگست 6ستمبر، 23مارچ کو پاکستان میں سبز و سفید ہلالی پرچم اٹھائے خوشی سے نہال ہوتے ہیں، دنیا بھر میں بغیر کسی معاشرتی دبائو کے پاکستانی سفارت خانوں میں بھی جمع ہوکر اپنے اجداد کی سرزمین پر قائم ہونیوالی اس ریاست کے استحکام کی دعائیں مانگتے ہیں۔ قارئین کرام! فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں مسیحی آبادی پر حملوں اور جلائوگھیرائو کے واقعات کی تحقیقات جاری ہے اور ان واقعات میں ہونیوالے نقصانات کے بارے میں پیش کی جانیوالی سرکاری رپورٹ کے مطابق جڑانوالہ اور اس کے گردونواح میں مشتعل ہجوم نے 19گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی۔ جڑانوالہ میں توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو پر تھانہ سٹی جڑانوالہ میں درج مقدمے میں انسداد دہشتگردی ایکٹ اور پنجاب سائونڈ سسٹم ایکٹ کی دفعات شامل کی گئی ہیں اور اس میں کہا گیا ہے کہ 500سے 600مشتعل مظاہرین نے مسیحی برداری کے گھروں اور گرجا گھروں میں داخل ہو کر توڑ پھوڑ کی، اب تک پولیس نے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور کار سرکار میں مداخلت جیسی دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کر کے بیشتر ملزمان کو گرفتار کیا ہے جبکہ مزید گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہیں، اس حوالے سے شر پسندوں کی ریکارڈ وقت میں گرفتاریوں پر پولیس سربراہ کی کوششوں کو سراہا گیا، سانحہ جڑانوالہ کے حوالے سے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کا کہنا ہے اس واقعہ کے تانے بانے دشمن انٹیلی جنس ایجنسی سے ملتے ہیں۔ اس میں ملوث دو مسیحی افراد کے علاوہ تین دیگر ملزمان کو گرفتار کیا ہے، اب ایسے واقعات دوبارہ نہیں ہوں گے، مسلمانوں کو مسیحی بھائیوں سے لڑانے کی کوشش کی گئی، سازش کا آغاز سرگودھا واقعے سے ہوا، ان واقعات کے ذمہ داروں کو گرفتار کرلیا ہے، توہین قرآن کرنیوالوں کا نیٹ ورک ختم کر دیا ہے، جو لوگ دشمن کا آلہ کار بنے ہیں انہیں کیفر کردار تک پہنچائیں گے، شہری مدعی بنیں ملزم نہ بنیں، قانون ہاتھ میں نہ لیں، علما، امن کمیٹیاں اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوجائیں، ایسے واقعات میں ملوث کسی کے ساتھ رعایت نہیں کریں گے، مسجد کے امام اور موذن کا فرض ہے کہ لاوڈ اسپیکر کا غلط استعمال نہ ہونے دیں۔ دوسری جانب غیر مسلم اقلیتوں پر بھی لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کے فکری و روحانی جذبات و احساسات کا خیال کریں، اور اسلامی شعائر، مقدس مقامات اور ہستیوں کی بے حرمتی کرنے والی کالی بھیڑوں پر نظر رکھیں۔ شعوری اور لاشعوری طور پر دوسروں کے جذبات و احساسات کو نشانہ بنانے سے گریز کریں ’’ باہمی روا داری‘‘ کی فضا کو خراب کرنے والے لوگ پاکستانی قوم کے دشمن ہیں۔ یہی نہیں پنجاب پولیس نے مسیحی برادری سمیت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، مسائل کے حل کے لئے صوبہ بھر میں میثاق سنٹرز قائم کئے ہیں، جو پر امن معاشرے کی تشکیل یقینی بنانے لئے نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مسیحیوں کے ساتھ کئے عہد کے مطابق انکی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنارہی ہے،اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ، بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ہر ضلع اور اقلیتوں کی اکثریت والی سب ڈویژنز میں ’ میثاق سینٹرز ‘ فعال ہو چکے ہیں۔ لاہور سمیت صوبہ بھر میں میثاق سنٹرز اقلیتی شہریوں کو درپیش مختلف مسائل کا ترجیحی بنیادوں پر ازالہ یقینی بنا رہے ہیں، یہاں اگر اس واقعہ کے بعد فیصل آباد پولیس کی جانب سے کئے جانیوالے اقدامات کا بھی ضرور ذکر کروںگا، جس میں سر فہرست یہ ہے کہ جب یہ افسوسناک واقعہ رونما ہوا تو پولیس حاضر دماغی سے کام لیتے ہوئے تمام مسیحی علاقہ خالی کرا کر انسانی جانیں بچا لیں۔ واضح رہے کہ اس سانحہ میں پولیس کی اس حکمت عملی کی وجہ سے نہ ہی کسی شہری کی جان گئی اور نہ ہی کوئی شہری زخمی ہوا۔ پولیس نے جدید سائنسی خطوط پر اس سانحہ کی تحقیقات مکمل کر کے اس میں ملوث اصل ملزموں کو نا صرف گرفتار کرلیا بلکہ علاقے میں امن کی فضاء قائم کرتے ہوئے علماء کرام اور پادریوں ایک دوسرے کی عبادت گاہوں میں کھڑے ہو کر امن اور بھائی چارے کا پیغام دیا، جس کے نتیجے میںچند دنوں میں حالات بھی معمول پر آگئے ، یہی نہیں سانحہ جڑانوالہ کے افسسوناک واقعہ کے بعد تادم تحریر متاثرہ مسیحی خاندانوں کی مدد کی جا رہی ہے، متاثرہ گرجا گھروں کی از سرنو تعمیر بھی جاری ہے، مسیحی برادری کے مسائل کے فوری حل کیلئے ڈی ایس پی جڑانوالہ کے دفتر میں انسپکٹر کی سربراہی میں شکایات سیل قائم کیا گیا ، ڈویژن اور ضلع کی سطح پر میثاق سینٹر تعمیر کر دئیے گئے، یہی نہیں کموانہ کے علاقہ میں مسیحی برادری میں روزانہ کی بنیاد پر راشن اور روز مرہ کی اشیا تقسیم کی جارہی ہیں، مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ہمراہ کیتھولک چرچ سمیت دیگر چرچوں کے دورے کئے جارہے ہیں اور ان کی سکیورٹی کے نظام کو مزید بہتر بنا دیا گیا، تمام چرچوں میں ہیلپ ڈیسک فلیکس آویزاں کی گئی ہے تاکہ کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں فوری کارروائی ہوسکے، مسلم و مسیحی کمیونٹی کی مشترکہ میٹنگ کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ یہی نہیں مقامی مسلمانوں کی جانب سے جب تک چرچوں کی تعمیر مکمل نہیں ہوجاتی مسیحی بھائیوں کو مساجد عبادت کیلئے پیش کی، بلاشبہ سانحہ جڑانوالہ میں مسیحی بہن بھائیوں کے ساتھ جو ظلم ہوا اس پر ہم بطور مسلمان اور پاکستانی انتہائی دکھی ہیں اور شرمندہ بھی۔ دکھ اور شرمندگی یقیناً ان مسیحی پاکستانیوں کے دکھ درد کا مداوا نہیں ہے۔ قومی کرکٹر احمد شہزاد مسیحی برادری سے اظہار یکجہتی کیلئے جڑانوالہ پہنچ گئے جہاں انہوں نے متاثرین سے ملاقات کرکے ان کی ہمت بندھائی اور ان میں امدادی سامان تقسیم کیا۔ ایسے واقعات کے سدباب کیلئے ضروری ہے کہ ملوث مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے۔ اس سارے قصے میں اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے بیشتر شہری اقلیتوں کے خلاف ہونیوالے ظلم و جبر کے خلاف ہیں ہر طبقے اور مکتبہ فکر کے حامل افراد نے سانحہ جڑانوالہ کی پر زور مذمت کی ہے۔ کیونکہ پاکستان کے سارے شہری یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ ان کی جان، مال، آبرو اور املاک کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔
فیاض ملک





