سب مانگیں گے نوے روز میں انتخابات

تحریر :محمد ریاض ایڈووکیٹ
کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مطالبہ کیا کہ 90روز میں انتخابات کرائے جائیں، الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے اور شیڈول جاری کرے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی تو 14مئی کو پنجاب میں الیکشن کیلئے بھی تیار تھی، انتخابات میں تاخیر کا سوال الیکشن سے بھاگنے والوں سے کیا جائے۔ پی پی چیئرمین نے کہا کہ ہمارا مطالبہ ہے الیکشن جلد از جلد آئین کے مطابق کروائے جائیں۔ بلاول بھٹو کے ان بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما طلال چودھری نے سوال کیا ہے کہ کیا بلاول بھٹو کو نہیں پتا تھا کہ نئی مردم شماری نوٹیفائی ہوگی تو حلقہ بندیاں ہوں گی۔ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب مردم شماری کو نوٹیفائی کیا گیا تو کیا ان کو نہیں پتا تھا کہ الیکشن آگے جائیں گے؟ کس کے کہنے پر مردم شماری نوٹیفائی کی گئی؟ طلال چودھری کا کہنا تھا کہ جمہوری ہونے کے ساتھ آپ کو حقیقت پسند بھی ہونا چاہیے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کو آئینی پٹیشن نمبر32؍2023الاٹ کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ بار نے نئی مردم شماری کے تحت انتخابات کرانے کا فیصلہ چیلنج کیا تھا۔ درخواست میں عدالت عظمیٰ سے 90روز میں الیکشن کرانے کا حکم دینے کی استدعا کی گئی ہے۔ اسی طرح پاکستان بار کونسل کے زیر انتظام کانفرنس کے بعد چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا نے بار کونسل کے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ صدر پاکستان اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے آئین کے مطابق 90 روز کے اندر انتخابات کا اعلان کریں۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے کہا کہ پاکستان میں آئینی بحران ہی، اسمبلیاں تحلیل ہونے کے باوجود 90روز میں الیکشن کا انعقاد نظر نہیں آرہا لہٰذا صدر پاکستان اپنا آئینی کردار ادا کریں اور انتخابات کی تاریخ دیں۔ اس وقت پاکستان کے تمام مکاتب فکر کی جانب سے ریاست پاکستان میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے عام انتخابات کے اعلان کے لئے مطالبات منظر عام پر آرہے ہیں۔ یقینی طور پر ریاست پاکستان اس وقت شدید آئینی و معاشی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ راقم نے اپنے پچھلے کالم ’’ انتخابات میں تاخیر کی ذمہ دار پی ڈی ایم جماعتیں”‘‘ میں عام انتخابات میں حائل آئینی تقاضوں اور رکاوٹوں کا ذکر کیا تھا کہ الیکشن کمیشن کو آئین پاکستان کا آرٹیکل 224جو اسمبلی تحلیل کے بعد معینہ مدت یعنی 60یا 90روز میں انتخابات منعقد کروانے کا پابند کرتا ہے جبکہ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے آرٹیکل 51اور آرٹیکل 218کی کلاز 3کے تابع حلقہ بندیوں پر کام شروع کر دیا ہے۔ آرٹیکل 51کی کلاز 5کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستیں ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کو آبادی کی بنیاد پر سرکاری طور پر شائع ہونے والی پچھلی مردم شماری کے مطابق مختص کی جائیں گی۔ اور اسی کالم میں انتخابات میں تاخیر کا ذمہ دار پی ڈی ایم جماعتوں کو قرار دیا تھا ۔ کیونکہ پی ڈی ایم حکومت نے اسمبلی تحلیل سے چند دن پہلے 5اگست 2023کو اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف کے زیر صدرات مشترکہ مفادات کونسل کے 50ویں اجلاس میں مردم شماری 2023کے نتائج کی منظوری دی اور آئین کے آرٹیکل 51کے تحت الیکشن کمیشن کو پہلے حلقہ بندیوں پر کام کرنے کے آئینی طور پر مجبور کر دیا۔ اگر پی ڈی ایم حکومت خاتمہ سے پہلے سال 2023کی مردم شماری کی منظوری نہ دیتی تو یقینی طور پر الیکشن کمیشن کو 2017کی مردم شماری کے مطابق پہلے سے طے شدہ حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات کروانا لازم ہوجاتا۔ یاد رہے آئین پاکستان کے آرٹیکل 51کی کلاز 5کے مطابق قومی اسمبلی کی نشستیں ہر صوبے اور وفاقی دارالحکومت کو آبادی کی بنیاد پر سرکاری طور پر شائع ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق مختص کی جائیں گی۔ طلال چودھری کی بات میں بہت وزن ہے کہ بلاول بھٹو کو نہیں پتا تھا کہ نئی مردم شماری نوٹیفائی ہوگی تو نئی حلقہ بندیاں ہوں گی؟ بہرحال وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کے لئے مطالبات میں اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست پاکستان کے اعلی حکام الیکشن کمیشن کو آئینی پیچیدگیوں سے نکلنے کے لئے اپنا بھرپور تعاون فراہم کریں اورنئی حلقہ بندیوں کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرتے ہوئے چار ماہ کے ٹارگٹ کو ڈیڑھ ماہ میں مکمل کرنے میں سہولیات فراہم کریں تاکہ آئینی تقاضوں کے عین مطابق اسمبلی تحلیل کے ٹھیک 90روز کے اندر اندر انتخابات کا انعقاد یقینی ہوسکے۔ یاد رہے عوام کو حق انتخاب اور اقتدار سے دُور رکھنے کے سنگین نتائج برآمد ہوتے ہیں جیسا کہ 1971ء میں بنگالی بھائیوں کے حق انتخاب کو قبول نہ کرنے اور انتقال اقتدار نہ کرنے کی بناء پر ملک دو لخت کروا بیٹھے تھے۔ ابھی بھی وقت ہے کہیں دیر نہ ہوجائے۔





