Column

اُردو کا بطور سرکاری و تعلیمی نفاذ

تحریر : محمد ہمایوں
گزشتہ دنوں عدالت عالیہ لاہور کے جسٹس رضا قریشی نے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے ستمبر 2015ء کے فیصلے پر چھ ماہ میں عملدرآمد کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ ملک کے تمام اداروں، محکموں اور سرکاری و نجی تنظیموں پر لاگو ہوتا ہے، دو سال قبل قائم مقام چیف جسٹس جناب عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر وفاق اور پنجاب حکومت کے خلاف توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے تھے، لیکن پھر اس معاملے میں کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ پاکستان کی غالب اکثریت انگریزی سے ناآشنا ہے کہ یہ بڑی مشکل زبان ہے اور یہ اُردو سے یکسر مختلف ہے، انگریزی کے پروفیسر حضرات کا کہنا ہے کہ ایم اے انگلش کرنا بڑے جان جوکھوں کا کام ہے، میں نے خود اپنی چھوٹی بہن کو ایم اے انگلش کروایا تھا، اُس نے بھی بڑی محنت کی تھی، کئی ایم اے انگریزی، اُردو اخبارات میں اُردو زبان میں کالم لکھ رہے ہیں، ’’ زبان غیر میں کیا شرح آرزو کرتے‘‘۔ سرکاری اداروں میں اُردو زبان کا نفاذ ہونا تھا، لیکن کچھ اندرونی و بیرونی طاقتیں چاہتی ہیں کہ یہاں انگریزی زبان کا تسلط رہے، بعض سینئر بیورو کریٹس کا کہنا ہے کہ بہت سے قابل لوگ سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب نہیں ہو پاتے کہ وہ انگریزی کا پل صراط عبور نہیں کر سکتے، بی اے اور بی ایس ایس میں سب سے زیادہ ڈیپارٹمنٹ انگریزی میں آتی ہے، تحریک پاکستان کے اہم ترین رہنما سر سید فرمایا کرتے تھے کہ طالب علموں کا سارا وقت انگریزی زبان سیکھتے ہوئے گزر جاتا ہے اور تعلیم حاصل کرنے کیلئے وقت نہیں بچتا، ممتاز نگار اور ماہر تعلیم ڈاکٹر جمیل اپنی شاہکار کتاب بعنوان ’’ پاکستان میں کلچر کا مسئلہ‘‘ میں رقمطراز ہیں:’’ غیر ملکی زبانوں کو ہر درجہ لازمی حیثیت سے پڑھنے سے طلباء کی تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کو جِلا ملتی اور اکثر طلبا رٹو طوطے بن جاتے ہیں‘‘۔
یہ خوش آئند ہے کہ تقریباً تین سال قبل پی ایس سی کے امتحانات میں اختیاری مضامین اُردو میں دینے کی اجازت دے دی گئی۔ کاش کہ سی ایس ایس کے امتحانات میں بھی ایسا ہی ہوجائے اور انگریزی کے دو لازمی پرچوں کے علاوہ اختیاری مضامین اُردو یا علاقائی زبانوں میں دینے کا اِذن عام ہو۔ اس طرح طلباء کی ذہنی و تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہونگی، لیکن انگلش میڈیم طلباء کے لئے انگریزی کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں ہونا چاہیے، اس لئے کہ صوبائی اور ( فیڈرل ) سطح پر کچھ ایسے افسران کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو امریکہ، یورپ بشمول دولت مشترکہ سے آنے والے وفود سے تبادلہ خیال کر سکیں۔ ان چند ( انگلش میڈیم میں پڑھے ہوئے) افسران اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کے علاوہ اُردو زبان کی لازمی حیثیت ہونی چاہیے۔
کئی ملکوں نے اپنی قومی زبانیں اپنا کر اتنی ترقی کی ہے، جیسے چین، جاپان اور جرمنی ، دولت مشترکہ سے قطع نظر، یورپ کے کئی ممالک اپنی قومی زبانیں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ یورپ کے کچھ ممالک انگریزی سمجھتے ہیں مگر اس سی نفرت کرتے ہیں۔
لاہور ہائیکورٹ نے اس معاملہ کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے، اُردو تحریک پاکستان کی زبان تھی اور اب یہ کم و بیش پورے پاکستان میں سمجھی جاتی ہے اور اہل پاکستان کو متحد رکھنے میں اس کا ایک کردار ہے۔
اُس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اُردو کے دفتری نفاذ کیلئے بڑی دلچسپی لی تھی اور بڑی کوشش کی تھیں۔ انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو میں بھی بہت سے فیصلے لکھے اور اسی سلسلہ میں وہ سول سیکرٹریٹ کے ایس اینڈ جی اے کے ذیلی او آر اے آفیشل لینگوئج کمیٹی کے ڈائریکٹر کو بھی بلایا کرتے تھے اور کئے گئے تراجم کے بارے میں اُن سے استفسار کیا کرتے تھے، انہی دنوں میں اپنے ایک ملنے والے پروفیسر صاحب کے حوالے سے ڈائریکٹر صاحب سے ملا تھا۔ اُنہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ایک ڈیڑھ سو ایکٹ کے اُردو میں تراجم ہوچکے ہیں۔ اُردو میں ڈکشنریاں بنائی گئی ہیں۔
رسالہ ’’ دفتری زبان‘‘ بھی یہیں سے شائع ہوتا ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ لا ڈیپارٹمنٹ میں ترجمہ کرنے کے لئے باقاعدہ ایک سیل بنایا گیا ہے، ڈائریکٹر صاحب اپنے کام سے مطمئن تھے۔
پھر چیف جسٹس جواد ایس خواجہ ریٹائر ہوگئے اور معاملہ التواء کا شکار ہوگیا۔ جس طرح 2015ء میں میاں نواز شریف نے اپنے دستخطوں سے حکم نامہ جاری کیا تھا کہ اُردو کو سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں نافذ کر دیا جائے اور یہ کام تین ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔ موجودہ حکمرانوں کو عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے فیصلوں کی روشنی میں وسیع تر قومی مفاد میں جہاں تک ممکن ہو، جلد از جلد ایسا حکم نامہ جاری کرنا چاہیے۔

محمد ہمایوں

جواب دیں

Back to top button