Column

جان لیوا مہنگائی اور مراعاتی طبقہ

تحریر : روہیل اکبر
مہنگائی بڑھتے بڑھتے جان لیوا ہوتی جارہی ہے اور غریب زندہ رہنے کے لیے کبھی مرغی کا بائیکاٹ، کبھی فروٹ کا بائیکاٹ، کبھی بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کر رہے ہیں۔ عوام کو اس نہج تک پہنچانے والے مراعات یافتہ لوگ تماشا دیکھ رہے ہیں، موج مستی کر رہے ہیں اور انجوائے کر رہے ہیں۔ ان ہڑتالوں اور بائیکاٹ سے کسی پر کوئی فرق نہیں پڑیگا، جب تک پاکستانی لوگ غلط سیاستدانوں کا بائیکاٹ نہیں کرینگے، جو ہر وقت کسی نہ کسی کی جھولی میں بیٹھ کر اقتدار میں آتے ہیں اور پھر اپنے لانے والوں کے لیے دن رات کام کرتے ہیں اور ان طاقتوں کو خوش رکھتے ہیں۔ خواہ ملک سے باہر ہوں یا ملک کے اندر، یہ لوگ خود بھی مراعات کا مزہ لیتے ہیں اور اپنے محسنوں کا بھی پورا پورا حق ادا کرتے ہیں۔ پھر انہی کی آشیر باد سے یہی طبقہ غریب لوگوں کی گردن پر پائوں رکھ ان کی بے بسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ مراعات کسی بھی شکل میں ہوسکتی ہیں، ان میں سے بہت سے مراعات یافتہ وہ لوگ بھی ہیں، جو نااہل اور نکمے تو ہیں ہی، ساتھ میں جس شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں اسے ہی کاٹ رہے ہیں۔ پاکستان 25کروڑ لوگوں کا ملک ہے اور اس وقت ہر فرد پریشانی اور تنگ دستی میں مبتلا ہے۔ سوائے ان چند مراعات یافتہ افراد کے، جنہوں نے اپنی تجوریاں بھر رکھی ہیں۔ جنہیں ہر وقت اپنے عہدے کی فکر رہتی ہے، جو حق دار کا حق کھا کر کسی نہ کسی مقام تک پہنچے ہوتے ہیں اور پھر کوشش کرتے کہ وہ عوام کا حقہ پانی بند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی سانسیں بھی بند کر دیں۔ رہی بات شعور کی، وہ اس قوم کو آنے ہی نہیں دیا گیا۔ آج بھی چوروں اور ڈاکوئوں کے حق میں نعرے لگائے جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں، حالانکہ ان میں سے اکثریت نے اپنے لیڈر سے ملاقات تو کیا، اس سے آمنا سامنا بھی نہیں کیا ہوتا اور وہ اپنے بچوں کے منہ سے آخری نوالہ بھی چھیننے والوں کے مفت میں جانثار بنے پھرتے ہیں۔ اب بجلی بلوں کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں، کوئی لیڈر اس احتجاج میں شامل نہیں ہورہا کیوں؟، اس لیے کہ وہ سب مراعات یافتہ ہیں۔ انہیں ہر چیز مفت مل رہی ہے۔ جسے اس بات کا اندازہ اور ادراک ہے اسے جیل میں بند کر رکھا ہے، جن لوگوں نے اپنے خاندان کے ساتھ ملکر توشہ خانہ کو لوٹا، وہ موج مستی میں مصروف ہیں۔ کل تک سائفر کو ڈرامہ کہنے والے، آج نہ صرف اس کی حقیقت تسلیم کر رہے ہیں بلکہ اس میں بھی عمران خان کی گرفتاری ڈال دی گئی۔ ایسے ایسے مقدمات بنا دئیے گئے جس سے پاکستان کی بدنامی ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی جن کو دن رات عوام کی فکر کھائے جاتی تھی، لانگ مارچ اور دھرنے دئیے اور پھر اقتدار میں آکر انہوں نے صرف قرضے لیے۔ ملک کو آئی ایم ایف کے حوالے کیا اور چلے گئے۔ ہمارے ہمسائے بھارت نے چاند پر قدم رکھ دئیے اور ہم پر آئے روز بجلی اور پٹرول کے ڈرون حملے کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہماری معیشت کے سر پر تلوار کی طرح مسلسل لٹک رہا ہے۔ سابق حکومت نے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا، حکومتی اخراجات کم کرنے پر توجہ دی نہ اشرافیہ کی عیاشیاں کم کی گئیں اور نہ ہی طرز حکومت میں سادگی اختیار کی گئی، بلکہ سارا زور مزید قرض لینے پر صرف کیا گیا۔ قرض ملنے پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے، بدقسمتی سے نگران حکمران بھی سابق حکومت کی پالیسیوں ہی پر عمل پیرا ہیں اور یہ حقیقت سمجھنے پر تیار نہیں کہ عالمی ساہو کار سے قرض لے کر کام چلاتے رہنے سے کسی ملک کے لیے ترقی کا راستہ نہیں کھل سکتا۔ ملکی معیشت کو دلدل سے نکالنے کے لیے ایسی حکومت کا قیام ضروری ہے، جو طرز حکومت تبدیل کرے اور بہتر حکمرانی کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر سادگی اور کفایت شعاری کو فروغ دے، لیکن ہوا اس کے الٹ، یہی وجہ ہے کہ لوگ تنگ آمد بجنگ آمد ہوئے اور پھر اب مظلوم طبقہ واپڈا اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے دفاتر پر حملہ آور ہو کر توڑ پھوڑ کر رہا ہے۔ اوپر سے سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی نہیں کی جا رہی اور نجی شعبے کے کارکنوں کے حالات ان سے بھی دگر گوں ہیں۔ گھروں میں فاقہ کشی اور بھوک کا رقص شروع ہوچکا ہے۔ ایسے حالات میں لوگوں کے پاس احتجاج کے لیے سڑکوں پر آنے یا بچوں سمیت خود کشی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا۔ اب بھی اگر حکمرانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو وہ دن دور نہیں جب عوام کے ہاتھ ان کے گریبانوں تک پہنچ جائیں گے۔ اس لیے ہمیں آئی ایم کی غلامی سے نکل کر آزادی اور خود مختاری کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں ان لوگوں کا سخت احتساب کرنا پڑے گا، جنہوں نے پاکستان کو بے دردری سے لوٹا، لیکن ہوتا اس کے الٹ ہے کہ ہر آنے والا بھی ان کے ساتھ ملکر نیا کھیل شروع کر دیتا ہے تاکہ عوام کی توجہ کسی اور ہی طرف لگی رہے۔ نگران حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے صرف 2روز بعد ہی چینی کی ہول سیل قیمت میں 8روپے فی کلو اضافہ کر دیا گیا تھا، جس کے بعد اس کی قیمت 153روپے فی کلو تک پہنچ گئی اور اب مختلف شہروں میں چینی کی قیمت 170سے 180روپے فی کلوگرام ہے۔ تاجر رہنما فاروق آزاد کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ مقامی چینی غیرقانونی ذرائع سے افغانستان اور ایران بھیجی جارہی ہے۔ غریب آدمی صرف روٹی کھاتا ہے اور اب فی کلو آٹے پر 4سے 5روپے کے اضافے کے باعث 100کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت سندھ اور پنجاب میں 12ہزار 300تک جا پہنچی، ملک بھر میں 20 کلو گرام آٹے کے تھیلے کی اوسط قیمت اب 2800سے 3200روپے کے درمیان ہوچکی ہے۔ اس ساری صورتحال پر مسلم لیگ ن کے رہنما ظفر اقبال جھگڑا کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو ڈکٹیشن دے رہا ہے، ملک میں معاشی حالات خدا نخواستہ مزید خراب ہو سکتے ہیں اور ایسے حالات میں بجلی 2روپے مزید مہنگی ہو گئی ہے جبکہ انڈیا میں 6روپے فی یونٹ بجلی ہے اور ہماری 50روپے فی یونٹ ہے۔ ان معاشی اور سیاسی حالات کی دھینگا مشتی میں ہمیں اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے، خاص کر ڈینگی مچھر جو تباہی پھیلا رہا ہے، اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ باقی صوبوں کی نسبت پنجاب حکومت ڈینگی کو کنٹرول کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے اس حوالے سے پوری انتظامیہ کو متحرک رکھا ہوا ہے، باقی صوبے بھی اگر متحرک ہو جائیں تو ڈینگی پر ہم قابو پا سکتے ہیں۔
روہیل اکبر

جواب دیں

Back to top button